2024ء کے عام انتخابات شاید ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں جن کے نتائج پر تمام سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ کوئی جماعت نتائج کو دیکھ کر ششدر رہ گئی تو کوئی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود خوش نہیں۔ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور کراچی میں احتجاج جاری ہے جبکہ کچھ جماعتیں ایوان کے اندر احتجاج کا عندیہ دے چکی ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت نہ ہونے کے باعث حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بطور جماعت سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں مگر حکومت بنانے کیلئے اسے دیگر جماعتوں کی حمایت چاہیے۔ لیگی قیادت وفاقی حکومت کو کانٹوں کے تاج سے تعبیر کر رہی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ کئی لیگی رہنماؤں نے پنجاب حکومت تک محدود رہتے ہوئے نواز شریف کو وفاق میں حکومت نہ بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ ماضی میں بھی کمزور اتحادی حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں لیکن ایسی صورتحال کبھی نہ تھی۔ الیکشن کے بعد امکان تھا کہ پی ڈی ایم طرز کی حکومت قائم ہو گی‘ مگر غیرمتوقع نتائج نے بازی پلٹ دی۔
بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے تئیں سوچ رکھا تھا کہ پی ٹی آئی اتنی سیٹیں نہیں نکال سکے گی اور انہیں حکومت بنانے کیلئے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے اکثریت حاصل کر لی تو اقتدار کی امید لگائے بیٹھی جماعتوں پر سکتہ طاری ہو گیا مگر عوام کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی چونکہ صوبوں میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں‘ اس لیے وہ نتائج پر تحفظات کے باوجود خاموش ہیں تاہم سربراہ جے یو آئی (ف) خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے مگر الیکشن نتائج کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تو ان کی پارٹی کا تقریباً صفایا ہی ہو گیا ہے‘ البتہ بلوچستان سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خاطر خواہ نشستیں انہیں حاصل ہوئی ہیں‘ اس لیے مولانا کو الیکشن نتائج پر شدید تحفظات ہیں۔ مولانا نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ اس وقت جے یو آئی (ف) کو قومی اسمبلی میں چھ‘ بلوچستان اسمبلی میں 11‘ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سات نشستیں حاصل ہیں۔ جے یو آئی (ف) کو بلوچستان کی بڑی پارٹی بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو بھی وہاں 11نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ البتہ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی (ف) کو توقع سے بہت کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جے یو آئی کو پی ٹی آئی سے تحفظات ہونا چاہئیں مگر مولانا مسلم لیگ (ن) سے زیادہ شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مولانا پرانے اتحادیوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات بھی ہو ئی ہے۔ مولانا ابوالکلام نے صحیح کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ماضی میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو کیسے کیسے القابات سے پکارتی رہی ہیں۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی اتحاد کو آگ اور پانی کا ملنا قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہر دو جانب سے یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صرف دھاندلی کے خلاف مشترکہ احتجاج کی حد تک اتحاد ہے لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ لگتا ہے کیونکہ مولانا جس غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں‘ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بندوبست کے نتیجے میں بڑی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور پی ٹی آئی کے ساتھ جے یو آئی کا اتحاد درحقیقت سابق اتحادیوں کیلئے پیغام ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران مولانا نے جن غیرجمہوری قوتوں کی جمہوریت میں مداخلت کا ذکر کیا ‘ وہ محض اشارہ ہے۔ ہم انہی سطور میں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ بیساکھیاں ہٹنے کے بعد بانی پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن تبدیل ہو گئی۔ اب اگر مولانا اسی بات کا اپنے انداز سے ذکر کر رہے ہیں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ غور طلب یہ ہونا چاہیے کہ جب پی ٹی آئی تنہا تھی تو اس نے سسٹم کو چلنے نہیں دیا۔ اب اسے مولانا کی سپورٹ بھی حاصل ہو جائے گی تو نظام کیسے چلے گا؟ کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ مولانا سب سے زیادہ سٹریٹ پاور رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرکے مولانا بین السطور جو پیغام دینا چاہ رہے ہیں‘ کیا ماضی کے اتحادی اسے سمجھ پا رہے ہیں؟ کیا مولانا نے یہ اشارہ دیا ہے کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو پی ڈی ایم سربراہ کے طور پر ان کے پاس جو راز تھے وہ انہیں افشا کر دیں گے؟ احتجاجی بیانیے کا مولانا کو فوری فائدہ یہ ہوا ہے کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے نتائج ان کی پارٹی کے حق میں آ گئے ہیں۔ جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری این اے 261 اور مولوی سید سمیع اللہ این اے 251 سے کامیاب قرار پائے ہیں۔ قبل ازیں الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ غیرحتمی نتائج کے مطابق این اے 261سے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سردار اختر مینگل اور این اے 251 سے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے خوشحال خان کاکڑ نے کامیابی حاصل کی تھی۔
مولانا فضل الرحمان نے الیکشن نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پرانے اتحادیوں کے ساتھ حکومت کا حصہ بننے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی‘ جو کل تک الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کی دعویدار تھی اور خیبرپختونخوا کے علاوہ وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی‘ اب اپوزیشن میں بیٹھنے کیلئے آمادہ ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی احتجاج کے دائرے کو بڑھانا چاہتی ہے جس کا واحد مقصد حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہو سکتا ہے۔ اب تو پی ٹی آئی کو جے یو آئی کی حمایت بھی حاصل ہو گی اور ہم پھر سے 2014ء کے مقام پر کھڑے ہوسکتے ہیں جب تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کر رہی تھی۔ یہ سیاسی انتشار ہمارے مسائل ختم نہ ہونے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے‘ بدقسمتی سے اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔
قوموں نے اپنے اندرونی حالات سے سیکھا ہے‘ دنیا بھر میں کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے طویل عرصے تک سیاسی عدم استحکام کا سامنا کیا۔ ہم جن سیاسی مسائل سے دوچار ہیں جنوبی کوریا کو بھی1950ء کی دہائی میں سیاسی عدم استحکام کا سامنا تھا۔ جنوبی کوریا ایک غریب‘ جنگ زدہ ملک تھا جس کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی تھی‘ تاہم 1960ء کی دہائی میں حکومت نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا اور برآمد پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی اپنائی۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں تیز رفتار معاشی ترقی ہوئی۔ آج جنوبی کوریا کی کئی معروف کمپنیوں کی مصنوعات کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ آج امریکہ جیسے ممالک بھی جنوبی کوریا کے مقروض ہیں۔ دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے مضبوط سیاسی ارادوں‘ دور اندیش حکمت عملیوں اور عوام کی جدوجہد سے معاشی ترقی کا سفر طے کیا۔ اس کے برعکس ہم اس جدید دور میں بھی سیاسی انتشار کا شکار ہیں۔ ایک جماعت اقتدار میں نہ ہو تو پورا نظام مفلوج کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سوچ ترک کرنا ہو گی۔ جس ماحول میں الیکشن ہوئے وہ محتاجِ بیان نہیں اب جبکہ انتخابات ہو گئے ہیں تو نظام کے چلنے ہی میں بہتری ہے‘ مگرسیاسی جماعتیں اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہیں ۔ گروہ بندیوں نے پورے نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ عناصر سیاسی استحکام‘ جمہوری اقدار کا تحفظ اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جمہوری نظام میں بندوبست سے ان گروہوں کو تقویت ملتی ہے۔ دنیا بندوبستی نظام کو ترک کر چکی ہے‘ ہمیں بھی اب اسے خیر باد کہہ دینا چاہیے۔