چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں‘ البتہ وفاق میں قائدِ ایوان کے انتخاب کا اہم مرحلہ ابھی باقی ہے ‘ یہ بھی آج طے ہو جائے گا‘ اس کے بعد وفاقی کابینہ تشکیل دی جا ئے گی۔ وفاق میں حکومت کی تشکیل کے بعد صدارتی انتخاب اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہونا ہے۔ پی ٹی آئی اراکین کی موجودگی میں صدارتی انتخاب اور سینیٹ کے انتخابات کا مرحلہ آسان نہیں ہو گا۔ مارچ کا مہینہ بھی حکومت کی تشکیل کی نذر ہو جائے گا۔ آئین میں حکومت کی تشکیل کیلئے جو مدت متعین کی گئی ہے‘ عملی طور پر اس سے کہیں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے کابینہ تشکیل دینا الگ چیلنج ہے۔ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ حکومت کی تشکیل کیلئے مدت کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ منتخب حکومت وقت ضائع کیے بغیر اپنے منشور پر کام شروع کر دے۔
یوں دکھائی دے رہا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بھی معاملات کشیدہ رہیں گے کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت برملا کہہ رہی ہے کہ جب تک بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر نہیں آ جاتے‘ وہ ایوان کو چلنے نہیں دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جیسے رہنما بھی تحریک انصاف کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں۔ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کے رویے میں مزید تلخی آ گئی ہے اور وہ ہر کام اپنی شرائط پر کرنا چاہتی ہے۔ علی امین گنڈا پور کا نام وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے طور پر سامنے آیا تو پورا منظر نامہ واضح ہو گیا۔ کسی معتدل مزاج شخص کے بجائے کسی جارح مزاج آدمی کو وزیراعلیٰ بنانے کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی کا مزاحمتی سیاست کو جاری رکھنا ہے۔ علی امین گنڈا پور کے بطور وزیراعلیٰ پہلے خطاب نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ یہ خطاب صوبے کیلئے معاشی ویژن کے بجائے پارٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے بھرپور تھا۔ نو مئی کے واقعات کی بنیاد پر گرفتار کارکنان اور قیادت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک ہفتے کے دوران کارکنان کو رہا نہ کیا گیا تو متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی ہو گی۔ وزیراعلیٰ کا منصب اس امر کا متقاضی ہے کہ صوبے میں جہاں کہیں ناانصافی ہو وہ اس کی ذمہ داری قبول کریں اور اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ملوث افراد کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔ یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ نومنتخب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اپنے خطاب کے آخر میں اجمالی اور سرسری طور پر چند عوامی منصوبوں کا ذکر بھی کیا مگر یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ دو ادوار میں صوبے نے کتنی ترقی کی اور اب آگے ان کا کیا منصوبہ ہے۔ وفاق سے صوبے کا حق لینے کیلئے عوام کو احتجاج کیلئے تیار رہنے کا عندیہ دیا گیا ہے حالانکہ وفاق سے فنڈز کے حصول کا طے شدہ طریقہ کار موجود ہے۔ علی امین گنڈا پور کا یہ خطاب مستقبل میں وفاق اور صوبے کے تعلقات کا نقشہ کھینچ رہا ہے۔2013ء کے انتخابات پر بھی تحریک انصاف کو تحفظات تھے۔ پہلے چار حلقے کھلوانے کا مطالبہ کیا گیا اور پھر احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو نواز شریف کی نااہلی پر منتج ہوا۔ اب تو پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ انہیں الیکشن میں قومی اسمبلی کی 180نشستیں ملی ہیں‘ سو ایوان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج ہو گا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے اراکین کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ حکومت کو بہت ٹف ٹائم دیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام نے سب سے زیادہ پی ٹی آئی پر اعتماد کیا ہے۔ جس صوبے کے عوام کسی پارٹی کو دوسری بار حکومت دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے‘ انہوں نے تحریک انصاف کو تیسری بار دو تہائی اکثریت سے کامیاب کرایا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا شاید مشکل ہو کہ خیبرپختونخوا کے عوام نے کس بنیاد پر پی ٹی آئی کو کامیاب کرایا ہے‘ بہرکیف سیاسی جماعتوں کی کارکردگی ہی انہیں عوام میں مقبول بناتی ہے۔ اس ضمن میں جب ہم خیبرپختونخوا کا دیگر صوبوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں یا عوام کے معیارِ زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہر لحاظ سے ہمیں خیبر پختونخوا پیچھے نظر آتا ہے۔ چونکہ عوام نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا ہے تو اس کا احترام کیا جانا چاہیے لیکن کیا پی ٹی آئی بھی عوامی مینڈیٹ کا احترام کرے گی یا پچھلے دو ادوار کی طرح یہ دور بھی احتجاج کی نذر ہو جائے گا؟
نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ پارٹی بکھر گئی‘ قیادت مختلف مقدمات میں جیل میں ہے‘ اہم رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ عوام نے اس بار پی ٹی آئی کو جو مینڈیٹ دیا ہے وہ کارکردگی کی بنیاد پر نہیں ہمدردی کا ووٹ ہے۔ ہمددری کا ووٹ وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے مگر کسی جماعت کو عوام میں زیادہ دیر تک مقبول نہیں رکھ سکتا۔ 2008ء کے انتخابات سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا تھا‘ وفاق میں حکومت بھی قائم ہو گئی لیکن کارکردگی تسلی بخش نہ ہونے کی بنا پر عوام نے پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا‘ جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عوام نے تحریک انصاف کو ہمدردی کا جو ووٹ دیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ عوامی خدمت میں کوتاہی نہ برتی جائے ‘مگر پی ٹی آئی کا مزاحمتی بیانیہ تبدیل نہیں ہوا۔ اس مزاحمتی بیانیے کی وجہ سے پارٹی کا نقصان تو ہو ہی رہا ہے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کسی پر اعتبار کیلئے تیار نہیں ۔ بظاہر فیصلوں کا اختیار پارٹی کی کور کمیٹی کے پاس ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔ معمولی نوعیت کے کام بھی بانی پی ٹی آئی سے پوچھ کر نمٹائے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہم دوسری جماعتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پارٹی پہ مشکل وقت آنے کے بعد متبادل قیادت سامنے آ گئی۔ متبادل قیادت نے غلط کیا یا صحیح‘ اس سے غرض نہیں لیکن بہرصورت قیادت کے خلا کو پُر کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے خلا کو بلاول بھٹو نے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلا کو مریم نواز نے پُر کیا۔ ایوان سے باہر رہنے والی سیاسی جماعتوں کو ایک بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کسی صورت ڈی ریل نہیں ہو گی۔ 2008ء سے 2024ء تک کیسے کیسے مشکل حالات آئے‘ وزیراعظم نااہل ہوئے‘ پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی‘ حکومت تو ختم ہوئی مگر اسمبلی ختم نہیں ہوئی۔ اقتدار سے باہر رہنے والی سیاسی جماعتوں کو پانچ سال تک انتظار کرنا ہو گا۔ یہ انتظار آسان نہیں ہو گا کیونکہ نومئی سے پہلے تک زمینی حقائق پی ٹی آئی کے حق میں تھے مگر قیادت سے چند ماہ تک انتظار نہ ہوا۔ یہ لوگ پانچ سال تک انتظار کیسے کریں گے؟ جب اسمبلی کے پانچ سال پورے ہوں گے تو حالات تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ تصور کریں کہ دو سال بعد ہمارے معاشی حالات بہتر ہو گئے تو آپ کا بیانیہ کہاں کھڑا ہو گا؟ آپ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہیں تو کوئی آپ کو مجبور نہیں کر سکتا مگر سسٹم کو چلنے دیں۔ عوامی مینڈیٹ ایوان تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ نمائندے اپنے حلقے کے عوام سے ان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کر کے ایوان تک پہنچتے ہیں۔ پی ٹی آئی ایوان کا حصہ بن چکی ہے۔ بھرپور اپوزیشن کا کردار بھی جمہوریت کا حُسن ہے۔ اگر ایوان کو چلنے نہ دیا گیا تو یہ انہیں غلطیوں اور سخت فیصلوں کا تسلسل ہو گا جو پی ٹی آئی اب تک کرتی آئی ہے۔