سینیٹ کی خالی ہونے والی 52نشستوں میں سے 48پر انتخابات ہو رہے ہیں کیونکہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کیلئے مختص نشستیں خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد ختم ہو چکی ہیں۔ فاٹا کے انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں سینیٹ کے انتخابات کا ویسا نظام نہیں تھا جیسا چاروں صوبوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فاٹا کو انتظامی طور پر چلایا جاتا تھا‘ وہاں براہِ راست پارلیمانی نظام موجود نہیں تھا‘ تاہم سینیٹ میں فاٹا کی نمائندگی موجود تھی۔ آئینِ پاکستان کے تحت فاٹا کیلئے سینیٹ کی آٹھ سیٹیں مختص کی گئی تھیں۔ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کا الیکٹورل کالج یا حلقۂ انتخاب اگرچہ قومی اسمبلی کے امیدواروں کو قرار دیا گیا تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے برعکس ان آٹھ نشستوں پر تقرری کا طریقہ عام انتخابات کے بجائے کچھ اس طرح تھا کہ منتخب کنندگان یعنی ہر فرنٹیئر ریجن (ایف آر) اور فرنٹیئر ریجن کی سب ڈویژن کے سیاسی انتظامیہ کے سربراہان کو مل کر اپنے اپنے علاقے کیلئے ایک سینیٹر کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ ان سربراہوں میں پولیٹکل ایجنٹ‘ اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ اور دیگر انتظامی افسران شامل ہو سکتے تھے۔ یہ انتخاب عام رائے دہی کے بجائے ایک باقاعدہ ملاقات میں ہوتا تھا جہاں سربراہان گفتگو کرکے کسی ایک امیدوار پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں خفیہ ووٹنگ کا سہارا لیا جاتا تھا۔ فاٹا میں پیسے کی بنیاد پر سینیٹرز منتخب کرانا عام تھا‘ یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں وقتاً فوقتاً سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار تبدیل ہوتا رہا ہے جس کا مقصد مرضی کے نتائج حاصل کرنا ہوتا تھا۔ 31ویں آئینی ترمیم سے فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام 2018ء میں ہو چکا تھا۔ فاٹا انضمام کے بعد قومی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کی نشستوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ کی آٹھ نشستیں بھی ختم کر دی گئیں‘ تاہم قرار دیا گیا کہ موجودہ سینیٹ میں فاٹا کے منتخب اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔ فاٹا سے چار سینیٹرزکی مدت مارچ 2021ء میں پوری ہوئی جبکہ چار سینیٹرز کی مدت مارچ 2024ء میں پوری ہو چکی ہے۔
فاٹا کا انضمام تو ہو چکا مگر خیبرپختونخوا کے مسائل اب بھی برقرار ہیں۔ بلوچستان کی تمام جبکہ پنجاب کی سات نشستوں پر بلامقابلہ سینیٹرز منتخب ہو گئے ہیں مگر خیبرپختونخوا میں یہ معاملہ عدالتوں میں حل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ 18نشستوں پر بلامقابلہ امیدوار منتخب ہونے کے بعد باقی 30 نشستوں کیلئے 59امیدوار میدان میں ہیں۔ سندھ کی 12‘ خیبر پختونخوا کی 11‘ پنجاب کی پانچ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی دو نشستوں پر مقابلہ ہے۔ خیبرپختونخوا کی 11نشستوں پر سینیٹ الیکشن التوا کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف نہ لینے پر بضد ہے جبکہ الیکشن کمیشن پہلے ہی تنبیہ کر چکا ہے کہ اگر ان اراکین کو حلف نہ اٹھانے دیا گیا تو کمیشن خیبرپختونخوا کی حد تک سینیٹ الیکشن ملتوی کرنے پر مجبور ہو گا۔ خیبرپختونخوا حکومت اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن بظاہر آمنے سامنے ہیں۔ صوبائی حکومت مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لیے بغیر سینیٹ انتخاب کا حصہ بننا چاہتی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے انتخاب کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے حلف سے مشروط کر رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کیلئے درخواستیں خارج ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کو باقی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرکے خیبرپختونخوا میں اپوزیشن کے ممبران کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھاجس کے نتیجے میں پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کی نشستیں بڑھ گئیں۔ جن اراکین کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے وہ اگر حلف اٹھا لیتے ہیں تو سینیٹ کے انتخابات میں بھی ووٹ ڈالیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت اور سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی ان اراکین سے حلف لینے سے گریزاں ہیں۔ نومنتخب ممبران نے حلف برادری کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو ہائیکورٹ نے ان کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کو ممبران سے سینیٹ انتخابات سے قبل حلف لینے کا حکم دیا۔ اپوزیشن ممبران نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تو الیکشن کمیشن نے اپوزیشن ممبران کی درخواست منظور کرکے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں فیصلہ دیا کہ سینیٹ انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران سے حلف لیا جائے بصورت دیگر صوبے میں سینیٹ انتخابات کو ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ اب پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ انتخابات کو مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران سے حلف لینے کیساتھ مشروط کرنے کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں رِٹ دائر کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کو ملتوی کرنا غیرقانونی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ سینیٹ انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنائے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے سینیٹ کا انتخابی عمل متاثر ہو گا اس لیے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر دو اپریل کو سینیٹ انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ صوبائی محکمہ قانون نے صوبائی حکومت کو دو حل پیش کیے ہیں۔ وہ یہ کہ صوبائی حکومت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے اور سپیکر صوبائی اسمبلی فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کرے۔ تادمِ تحریر صوبائی حکومت‘ محکمہ قانون اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے اجلاس کی اطلاعات ہیں۔ اجلاس میں ہونے والا فیصلہ تعین کرے گا کہ صوبائی حکومت سینیٹ الیکشن میں کیا حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کو ایوانِ زیریں سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ سینیٹ اراکین کو زیادہ عرصے کیلئے منتخب کیا جاتا ہے اور وہ عام طور پر زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس زیادہ حکمت اور دانشوری ہوتی ہے‘ جو قانون سازی کے عمل میں بہت اہم ہے۔ جمہوری نظام میں حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان طاقت کا توازن قائم رکھنا نہایت ضروری ہے‘ سینیٹ کا اس ضمن میں کردار نہایت اہم ہے۔ سینیٹ کو کابینہ کے وزراء اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی تقرریوں کی منظوری دینی ہوتی ہے۔ صدر ان عہدوں پر اپنی مرضی سے کسی کو بھی نہیں بیٹھا سکتے۔ سینیٹرز ان تقرریوں کا جائزہ لیتے ہیں اور صرف اسی صورت منظوری دیتے ہیں جب وہ امیدوار کی قابلیت اور تجربے سے مطمئن ہو جائیں۔ اس طرح سینیٹ یہ یقینی بناتا ہے کہ حکومت میں اہل اور باصلاحیت افراد کو ہی شامل کیا جائے۔ سینیٹ حکومت کی پالیسیوں اور اخراجات کا جائزہ لینے اور ان پر سوال اٹھانے کا اختیار رکھتا ہے۔ سینیٹ کمیٹیاں وزراء کو طلب کر سکتی ہیں اور ان سے حکومت کے کام کاج کے بارے میں جواب طلب کر سکتی ہیں۔ اس طرح سینیٹ یہ یقینی بناتا ہے کہ حکومت شفافیت کے ساتھ کام کرے۔ ایوانِ بالا کی آئینی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ سینیٹ انتخابات میں سیاسی مفاد پر ملکی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ من پسند لوگوں کو سینیٹرز بنانے کے بجائے انہی افراد کو سینیٹ میں لایا جائے جو اپنے شعبے کے ماہر ہوں‘ اس مقصد کیلئے سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر سوچنے کیلئے تیار ہیں؟
ماضی میں فاٹا میں سینیٹ انتخابات متنازع ہوتے رہے۔ خیبرپختونخوا میں یہ تنازعات کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہیں۔ فی الحال سینیٹ معلق ہے اور سینیٹ کے بغیر مملکت کے امور چل رہے ہیں۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے اور معاملہ عدالت کے ذریعے حل ہوتا ہے تو معاملات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ جب تک وفاق کی اکائی کی نمائندگی نہیں ہو گی‘ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی نہیں ہو سکے گا۔ سیاسی جماعتوں کو اب ہر معاملے کو عدالت لے جانے کی روایت ترک کرنا ہو گی۔ سیاسی جماعتیں جب تک اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود نہیں اٹھاتیں کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔