قدیم زمانوں میں جب مواصلات کا نظام آج جتنا تیز اور وسیع نہیں تھا‘ تب دنیا مختلف براعظموں اور الگ الگ ملکوں کا ایک جغرافیائی مجموعہ محسوس ہوتی تھی تاہم آج کی دنیا بدل چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور عالمگیریت کے باعث دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے جس میں رہنے والے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک ملک کے حالات کا اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑتا ہے۔ اگر کوئی ایک ملک معاشی بحران کی زد میں آتا ہے تو اس کا اثر عالمی مارکیٹوں پر بھی پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی ملک میں کوئی نئی بیماری پھیلتی ہے تو تیزرفتار سفر کی وجہ سے یہ بیماری دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس کی ایک اور مثال ہے‘ ایک ملک میں آلودگی پیدا کرنے والی سرگرمیاں دوسرے ممالک کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔
عالمی اداروں اور معاہدوں کے ذریعے ممالک مل کر معاشی استحکام‘ صحت کی دیکھ بھال اور ماحولیاتی تحفظ جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معمولی حالات جب جنگ میں تبدیل ہوتے ہیں تو سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کی واضح مثال روس یوکرین جنگ ہے جس نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور ہمسایہ ممالک میں پناہ گزینوں کا ایک بڑا ہجوم پیدا کر دیا ہے۔ یہ صورتحال دیگر علاقوں میں وسائل اور انفراسٹرکچر پر بوجھ کا باعث ہے کیونکہ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں حالات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ معیشتیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ سپلائی چینز بین الاقوامی ہیں اور وسائل اکثر شیئر کیے جاتے ہیں‘ لہٰذا ایک خطے میں پیدا ہونے والی خرابی دوسرے خطوں تک تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ یوکرین اور روس دونوں گندم‘ مکئی اور دیگر اناج کے ساتھ ساتھ سورج مکھی کے تیل‘ جو کھانا پکانے کا ایک اہم جزو ہے‘ کے بڑے برآمد کنندگان ہیں۔ جنگ نے ان فصلوں کی کاشت‘ کٹائی اور نقل و حمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ قلت پوری دنیا میں خوراک کی قیمتوں کو بڑھا رہی ہے جس سے کسانوں سے لے کر صارفین تک سب متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح روس تیل اور قدرتی گیس کا ایک بڑا سپلائر ہے۔ پابندیوں اور جنگ نے توانائی کی قیمتوں کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ یوں خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے‘ سپلائی چین میں خرابی اور جنگ کے مجموعی اثرات عالمی مندی کا باعث بن رہے ہیں جبکہ جنگ کے طویل المدتی اثرات ابھی تک نامعلوم ہیں کیونکہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ یہ تنازع کتنی دیر تک جاری رہتا ہے اور عالمی برادری اس کا کتنا مؤثر جواب دیتی ہے۔پیشگی بندوبست کرکے معاشی چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے‘ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی کساد بازاری اور جنگوں سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک ہی متاثر ہوئے ہیں اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک نے مشکل حالات میں بھی نئے مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔
پاکستان میں چینی باشندوں پر متعدد حملوں کے باوجود چین اپنے منصوبوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ چین نے اپنی 75ویں سالگرہ پر ترقی کے نئے اہداف مقرر کیے ہیں۔ چین اپنی 75ویں سالگرہ پر اپنی ترقی اور کامیابیوں کا جشن منائے گا۔ یہ سالگرہ چین کے لیے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے جس میں چین اپنے مستقبل کے اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کرے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ 75ویں سالگرہ کے چین کی معیشت‘ سیاست اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سالگرہ چین کی قومی شناخت اور اتحاد کو مضبوط کرنے میں مدد کرے گی۔ یہ چین کی بین الاقوامی ساکھ اور اثر و رسوخ کو بھی بڑھائے گی۔ چین کے 14ویں پانچ سالہ منصوبے کا ایک اہم ہدف 2030ء تک ملکی جی ڈی پی کو دُگنا کرنا ہے۔ یہ ایک بڑا ہدف ہے جو چین کی معاشی ترقی میں تیز رفتار کو برقرار رکھنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے چین کی حکومت ایک جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس میں متعدد اقدامات شامل ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت‘ روبوٹکس اور بِگ ڈیٹا میں سرمایہ کاری چین کی صنعتی پیداوار اور عالمی مارکیٹ میں اس کی مسابقت کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی حمایت کا پروگرام چین کی معیشت کا ایک اہم ستون ہے۔ حکومت انہیں قرضوں تک آسان رسائی اور ٹیکسوں میں رعایت فراہم کرکے ان کی ترقی میں مدد دے رہی ہے۔ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کیلئے بدعنوانی کو کم کرنا‘ قوانین اور ضوابط کو آسان بنانا اور کاروبار کے لیے خدمات کو بہتر بنانا چین میں سرمایہ کاری کے لیے زیادہ سازگار ماحول کی اہم وجہ ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے چین مارکیٹ تک غیرملکی سرمایہ کاروں کی رسائی کو بڑھا رہا ہے تاکہ نئی ٹیکنالوجی اور مہارت سے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ اسی طرح تجارت کو آسان بنانے کیلئے تجارتی پابندیوں کو کم کرنا اور سرحدی کارروائیوں کو تیز کرنا عالمی منڈیوں کے ساتھ چین کے روابط کو مضبوط کرے گا اور نئی برآمدی منڈیوں تک رسائی فراہم کرے گا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری تعلیم یافتہ اور صحت مند افرادی قوت تشکیل دیتی ہے جو معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چینی حکومت ان شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے مستقبل کی افرادی قوت کی صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہے۔ آمدنی کی عدم مساوات کو کم کرنا چینی حکومت کا اہم ہدف ہے۔ یہ اقدام امیر اور غریب کے درمیان موجود خلیج کو کم کرے گا جو معاشی ترقی کو فروغ دے گا۔ چین صنعتوں کے ماحول پر منفی اثرات سے لاعلم نہیں ہے۔ اسی لیے الیکٹرک کاروں سے لیکر دیگر مشینوں تک سب ماحول دوست بنائی جا رہی ہیں کیونکہ ماحول دوست پالیسیوں پر عمل درآمد سے اخراجات کم ہوں گے اور نئی گرین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی۔
2023ء میں چین کی مجموعی ملکی پیداوار 126 ٹریلین یوآن سے متجاوز رہی جو 2022ء کے مقابلے میں 5.2 فیصد زیادہ تھی‘ جس سے چین دنیا کی تیز ترین ترقی پذیر بڑی معیشتوں میں شامل ہو گیا۔ اناج کی پیداوار ریکارڈ 695 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ گئی۔ 12.44 ملین ملازمتوں کا اضافہ ہوا اور اوسط بے روزگاری کی شرح 5.2 فیصد رہی۔ گزشتہ سال متعارف کرائے گئے اضافی ٹیکس اور فیس ریلیف کے اقدامات کے نتیجے میں 2.2 ٹریلین یوآن سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے۔ چین نے برقی گاڑیوں کی عالمی پیداوار اور فروخت میں 60 فیصد سے زیادہ کا حصہ لیا۔ چین نے 2024ء کے لیے کئی اہم ترقیاتی اہداف کا تعین کیا ہے جن میں معیشت کو مستحکم اور بلند معیار کی ترقی کی راہ پر گامزن رکھنا شامل ہے۔ ان اہداف میں پانچ فیصد کے قریب جی ڈی پی کی شرحِ نمو‘ 12 ملین سے زائد نئی ملازمتیں‘ تقریباً 5.5 فیصد بیروزگاری کی شرح‘ 650 ملین میٹرک ٹن سے زائد مجموعی اناج کی پیداوار اور فی جی ڈی پی یونٹ 2.5 فیصد کے قریب توانائی کی کھپت میں کمی شامل ہے۔
چینی قیادت کے یہ منصوبے معیشت کو مستحکم کرنے اور ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس منظر نامے میں ہمارے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ میں مغربی ممالک نے یوکرین کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا‘ یہی وجہ ہے کہ یوکرین ابھی تک روس جیسے طاقتور ملک کیلئے مزاحمت کا استعارہ بنا ہوا ہے۔ اگر ایران اسرائیل کی کشیدگی بڑھتی ہے تو یہ جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے جو مسلم اُمہ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان پر بھی اثرات مرتب کرے گی۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پیشگی بندوبست ضروری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دورۂ سعودی عرب اس ضمن میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمیں چین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید پختہ کرنا ہو گا۔