میدانِ جنگ میں کبھی کبھی ایسے حالات بھی جنم لیتے ہیں جب میدانِ کارزار سے پسپائی اختیار کرنا اور اپنی سپاہ کو بچا لینا ہی دور اندیشی ہوتا ہے۔ یہ کسی شکست کا اقرار نہیں بلکہ جنگی حکمت ہوتی ہے‘ ایک نئی حکمت عملی کے تحت میدان میں اترنے کا فیصلہ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن فاتحین نے دنیا کو فتح کیا‘ انہوں نے بھی کبھی نہ کبھی پسپائی اختیار کی تھی۔ سکندرِ اعظم جیسے جری سپہ سالار کا جب ہندوستان میں راجہ پورس کی فوج سے مقابلہ ہوا تو اسے بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ یہ پسپائی اس کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی جنگی حکمت کی دلیل تھی۔ اس نے نئے سرے سے منصوبہ بندی کی اور اگلے حملے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح نپولین بوناپارٹ کو بھی روس کی مہم میں پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ یہ پسپائی اس کی فوج کی تباہی کا سبب بنی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نپولین نے اس تجربے سے سیکھا اور آئندہ جنگی حکمت عملیوں میں اسے مدنظر رکھا۔ پسپائی کا فیصلہ آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے جنگی حکمت‘ حالات کا درست اندازہ اور دشمن کی صلاحیتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ کبھی کبھی ایک چھوٹا سا قدم پیچھے ہٹنا دشمن کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے اور اسے کمزور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ پسپائی فوج کو دوبارہ منظم ہونے اور نئی قوت کے ساتھ حملہ کرنے کا موقع دیتی ہے۔
اختلافِ رائے‘ مفادات کا تصادم اور نظریات کی جنگ انسانی معاشرے کا لازمی حصہ ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور غصہ غالب آ جاتا ہے‘ وہیں صبر و تحمل ایک ایسا ہتھیار ہے جو نہ صرف پیچیدہ سیاسی مسائل کو سلجھانے میں بلکہ جارحیت کے زہر کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے جارحیت اور تصادم ہی واحد راستہ ہے؟ تحریک انصاف نے مارچ 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے وقت جو مزاحمتی بیانیہ اپنایا وہ بیانیہ شد ومد کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور اسی کا شاخسانہ ہے کہ تحریک انصاف کے معاملات حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ تحریک انصاف کی قیادت یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ نو مئی کو ان سے بڑی غلطی ہو گئی۔ قومی تنصیبات پر حملوں کو معمولی سمجھنا اور اس انتظار میں رہنا کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات ان کے موافق ہو جائیں گے‘ خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فروری 2024ء کے عام انتخابات میں عوام کے تحریک انصاف پر اعتماد کے بعد مزاحمتی بیانیے میں مزید شدت آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے عوامی مینڈیٹ کو اپنی مقبولیت سمجھا اور سخت ترین شرائط سامنے آئیں کہ ہم معافی کیوں مانگیں۔ کیا اس رویے کے ساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے؟
معاملہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نو مئی کو ہونے والی غلطی کو تسلیم کرے‘ اس ضمن میں بیک چینلز متحرک ہوئے مگر بانی پی ٹی آئی کے اکائونٹ سے ایک ایسا ٹویٹ کر دیا گیا جو ہمیشہ سے ہمارے ہاں متنازع رہا ہے۔ ایسے موقع پر‘ جب معاملات سلجھ رہے ہیں اس ٹویٹ کا مقصد کیا تھا؟ پی ٹی آئی کی آدھی قیادت اس ٹویٹ کے دفاع میں کھڑی ہے جبکہ کچھ یہ ثابت کررہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کا اس ٹویٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے میں ایک بار پھر 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فارمیشن فورم نے قرار دیا کہ قانون کی عملداری کو قائم کرنے اور 9مئی کے مجرموں کے خلاف فوری اور شفاف عدالتی اور قانونی کارروائی کے بغیر ملک ایسے سازشی عناصر کے ہاتھوں ہمیشہ یرغمال رہے گا۔ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ریاستی اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان کے خلاف جاری ڈیجیٹل دہشت گردی‘ مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بیرونی سہولت کاروں کی مدد کے ساتھ کی جا رہی ہے جس کا مقصد جھوٹ اور پروپیگنڈا کے ذریعے پاکستانی قوم میں مایوسی پیدا کرنا اور قومی اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنا ہے۔ کمانڈرز نے پائیدار اقتصادی ترقی اور غیر قانونی سرگرمیوں بشمول سمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی‘ بجلی چوری کو روکنے‘ وَن ڈاکیومنٹ رجیم‘ غیر قانونی غیر ملکی تارکین کی باعزت وطن واپسی سمیت قومی ڈیٹا بیس کی حفاظت کیلئے مختلف شعبوں میں حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کرنے کا بھی عزم کیا‘ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔
انہی سطور میں کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا تھا کہ اگلے چند برسوں تک معاشی بیانیے کے علاوہ کوئی بیانیہ کارگر ثابت ہو گا نہ ہی عوام کسی دوسرے بیانیے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ قارئین ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ انتخابات کے بعد حکومت قائم ہوئے تین ماہ گزر چکے ہیں‘ کیا ان تین مہینوں میں معیشت کے علاوہ کوئی سرگرمی دکھائی دی؟ حکومت کی توجہ کا مرکز بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ اس ضمن میں اہم پیشرفت بھی ہوئی مگر اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اندرونی حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش کرنے کی روایت رہی ہے‘ تاہم اس بار بجٹ کی تیاریاں ماضی کی طرح دکھائی نہیں دے رہیں۔ کچھ ہی روز پہلے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان سے مذاکرات کر کے واپس گیا ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف 4 جو ن کو چین کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کی واپسی کے بعد ہی بجٹ پیش کیا جا سکے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی توجہ کا مرکز معاشی سرگرمیاں ہیں‘ سو ایسے حالات میں اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ حکومت یا سیاسی جماعتیں فریقِ مخالف کی شرائط پر اس سے بات چیت کریں گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ معاملہ اگر اَنا اور پہل کا ہے تو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کو لچک دکھا کر پہل کرنا ہو گی‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ طویل انتظار ایک راستہ ضرور ہے مگر کیا پی ٹی آئی طویل عرصہ تک انتظار کر سکتی ہے؟
پی ٹی آئی قیادت کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جارحیت اور تصادم کا راستہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے غیر مؤثر اور نقصان دہ طریقہ ہے۔ یہ تقسیم اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔ اس سے ملکی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور عوام کا سیاسی عمل سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہم آہنگی اور تعاون کا ماحول مسائل کے حل کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ جب مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے جامع اور بہتر حل نکل سکتے ہیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی پیچیدہ ترین سیاسی مسائل کو حل کیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی میں نیلسن منڈیلا کی حکمت عملی اور مذاکراتی کوششوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون اور اتفاقِ رائے ہی سے وہاں مستحکم جمہوری نظام قائم ہے۔ اگرچہ سیاسی اختلافات ناگزیر ہیں مگر ان اختلافات کو جارحیت اور تصادم کے ذریعے حل کرنے کے بجائے‘ انہیں ایک موقع سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھنے اور مل کر بہتر حل تلاش کرنے کا موقع ہے‘ حکمت و بصیرت سے پیچھا ہٹنا پی ٹی آئی کو دوبارہ سیاسی زندگی دے سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جو یوٹرن نہیں لیتا‘ وہ اچھا قائد نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے مؤقف کی وضاحت میں ہٹلر اور نپولین کی مثال دی تھی کہ دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دونوں نے صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کی تھی جس کے نتیجے میں انہیں شکست ہوئی۔ آج جب پی ٹی آئی کو حکمت عملی تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے تو وہ اپنے ہی پرانے بیانات بھول گئے ہیں۔