"RS" (space) message & send to 7575

نظریاتی قیادت کا فقدان

خیبرپختونخوا کابینہ میں دو گروپ ایک دوسرے کے خلاف میدان میں ہیں اور ہر فریق دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا قیادت میں اندرون خانہ اگرچہ کافی عرصے سے اختلافات چل رہے تھے لیکن یکم اگست کو شکیل خان کی جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد چیزیں کھل کر سامنے آنے لگیں۔ اس ملاقات کے اگلے روز شکیل خان نے مؤقف اختیار کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے وزرا کی کا رکردگی رپورٹ طلب کی ہے۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور کرپشن کی نشاندہی کے لیے عمران خان کی ہدایت پر خیبرپختونخوا حکومت نے گڈگورننس کمیٹی قائم کی۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی سفارش اور رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ وزیر کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی سمری گورنر ہاؤس بھیجی گئی۔ چونکہ شکیل خان نے استعفیٰ دے دیا ہے تو اب ڈی نوٹیفائی کرنے کی ضرورت نہیں‘ اب یہ کمیٹی کا استحقاق ہے کہ کب ثبوت سامنے لائے گی۔ کمیٹی کو پیش کیے گئے تحریری بیان میں شکیل خان نے مؤقف اختیار کیا کہ صرف ایک صوبائی وزارت نے سات ارب جاری کیے جس میں سے 77 کروڑ روپے کمیشن لیا گیا‘ جس میں سے 20 کروڑ وزیر اعلیٰ پر لینے کا الزام ہے۔ دس کروڑ مقتدر حلقوں کے نام پر لیے گئے‘ پانچ کروڑ وزیر کے لیے رکھے گئے‘ تین کروڑ ایک سیکرٹری نے اور ایک ایک‘ دو دو کروڑ کچھ اور سیکرٹریز کو دیے گئے۔ شکیل خان کی حمایت میں پارٹی کے دو رہنما بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں‘ رکنِ قومی اسمبلی عاطف خان اور سابق ڈپٹی سپیکر محمود جان کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے پر شکیل خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے شکیل خان کو منانے میں ناکامی پر ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ شکیل خان نے صوبائی حکومت کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کی تھی مگر وہ خود کرپشن کے الزام میں اپنی وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
سیاست کے میدان میں عام مشاہدہ ہے کہ جب کوئی جماعت اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو اس کے گرد لوگوں کا ایک وسیع حلقہ تشکیل پا جاتا ہے۔ یہ حلقہ صرف حامیوں پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ مفاد پرستوں‘ موقع پرستوں اور خواہش مندوں کا ایک بڑا گروہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے برسراقتدار جماعت سے قربت اختیار کرتے ہیں اس لیے کہ حکومت کے پاس وسائل‘ اختیارات اور فیصلہ سازی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جو لوگوں کو اس کی طرف کھینچتے ہیں۔ اقتدار کے ساتھ وابستگی‘ مالی فوائد‘ ملازمتیں‘ ٹھیکے اور دیگر مراعات حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جن کے لالچ میں لوگ اس جماعت کے ساتھ صف آراہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ہر سیاسی نظام میں دیکھنے کو ملتا ہے اور اسے مکمل طور پر ختم کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ اقتدار کی چکا چوند میں بہت سے لوگ اپنی نظریاتی وابستگی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ آیا یہ جماعت ان کے سیاسی نظریات کے مطابق کام کر رہی ہے یا نہیں۔ صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے وہ کسی بھی جماعت کا ساتھ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہی جماعت اپوزیشن میں چلی جاتی ہے تو اس کے ساتھ کھڑے لوگوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے کیونکہ اب اس کے پاس کوئی خاص مراعات یا وسائل نہیں ہوتے جن کی لوگ خواہش کریں۔اس صورتحال کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ وہ اپنی پالیسیاں اور فیصلے عوام کے فائدے کے بجائے اپنے حامیوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر تشکیل کرنے لگتی ہیں جس سے سیاسی نظام میں کرپشن اور نااہلی کے رجحانات کو فروغ ملتا ہے۔
ً سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی جماعت ہے یا فین کلب؟ جہاں بڑی تعداد میں لوگ ایک سحر انگیز شخصیت کے گرد جمع ہیں۔نظریاتی کارکن میں سیاسی نظریہ موجود ہوتا ہے۔ یہ نظریہ اُس کی شخصیت اور سوچ کا ایک اہم جزو بنتا ہے۔ وہ اس نظریے کی گہرائیوں کو سمجھتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے‘ اس لیے وہ اس نظریے کی ترویج اور عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی میدان میں کود پڑتا ہے۔ اس کے لیے یہ ایک جذبہ ہوتا ہے‘ ایک مشن جسے وہ پوری لگن اور دیانتداری سے انجام دیتا ہے۔ وہ صرف اپنے پسندیدہ رہنما یا جماعت کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ایک فکری اور روحانی وابستگی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ دوسری جانب فین کلب ہے جو کسی شخصیت یا گروہ کے صرف مداحوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کا تعلق اس شخصیت سے جذباتی ہوتا ہے۔ وہ اس شخصیت کی کارکردگی یا کسی اور خاص وصف کی وجہ سے اس کے مداح بن جاتے ہیں۔ ان کی وابستگی سطحی ہوتی ہے اور اکثر عارضی۔ وہ اس شخصیت کے ہر قدم کی تائید کرتے ہیں اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ درست ہے یا غلط۔ یہ ایک قسم کی عقلی جمود کی حالت ہوتی ہے جس میں فینز اپنی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں کسی بھی تنقید کو برداشت نہیں کر سکتے۔ نظریاتی کارکن اور فین کلب میں ایک اور اہم فرق یہ ہے کہ نظریاتی کارکن اپنی شخصیت یا گروہ کے ساتھ تنقیدی رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ وہ اس کی کمزوریوں کو دیکھ سکتا ہے اور ان پر تنقید بھی کر سکتا ہے۔ وہ اپنے نظریے کے تناظر میں اس کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے‘ نظریاتی کارکن ایک سوچنے سمجھنے والا فرد ہوتا ہے جو اپنے نظریے کی بنیاد پر کام کرتا ہے جبکہ فین کلب اپنی پسندیدہ شخصیت کی اندھی تائید کرتا ہے۔ عمران خان جب جیل میں گئے تو ان کے فین بے یارومددگار رہ گئے‘ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ اور احتسابی عمل کا سلسلہ بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ پارٹی میں نظریاتی کارکنوں کی کمی ہے۔
بانی پی ٹی آئی متعدد مقدمات میں جیل میں ہیں‘ عمران خان کے بعد ذہن شاہ محمود قریشی کی طرف جاتا ہے کیونکہ وہ پارٹی اور کارکنوں کو سنبھالنے کا فن جانتے ہیں‘ اس مشکل صورتحال میں پارٹی کا مقدمہ لڑنے والا کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جو پارٹی کو مشکلات سے باہر نکال سکے۔ان حالات میں ایک پیج کی علامت سمجھے جانے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری پی ٹی آئی کیلئے مشکلات میں اضافہ کر دے گی۔ فیض حمید کی گرفتاری بظاہر فوج کا اندرونی معاملہ ہے لیکن مزید گرفتاریاں کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ آئی ایس پی آر نے مزید تین فوجی افسران کو فیض حمید کے ساتھ رابطوں اور سیاسی جماعت کیلئے سہولت کاری کی بنیاد پر تحویل میں لیا ۔کہا جا رہا ہے کہ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی آرمی ایکٹ کے تحت کئی فوجی افسران کا کورٹ مارشل ہو چکا مگر آئی ایس پی آر کی طرف سے ان خبروں کو پہلی بار میڈیا میں لایا گیاہے۔ یہ اشارہ ہے کہ جب فوج کے سرکردہ لوگ احتساب سے بچ نہیں سکے تو سیاستدانوں کا احتساب سے بچ نکلنا بھی مشکل ہو گا۔فیض حمید اور ان کے شراکت دار احتساب کا نقطہ آغاز ہیں‘مگر لگتا ہے کہ کہانی کے دیگر کردار بھی ضرور سامنے آئیں گے۔ اس نیٹ ورک کے پیچھے عمران خان اور فیض حمید کا گٹھ جوڑ ہوا تو سخت احتسابی عمل کے ساتھ ساتھ خان صاحب سیاسی ساکھ بھی کھو دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں