بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان سے نمٹنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ریاست کی دو ٹوک اور واضح پالیسی ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر برملا اس امر کا اظہار کر چکے ہیں۔ دو روز قبل اورکزئی کے دورہ کے موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ قوم کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا امن ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا۔ ایسے حالات میں ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بظاہر ریاستی پالیسی کے خلاف کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ دہشت گردی قومی نوعیت کا مسئلہ ہے‘ اس سے نمٹنے کے لیے وفاق اور صوبوں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ صوبے وفاق کے برعکس پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا لیکن اگر وہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے تو مذاکرات کی ضرورت واہمیت پر بات کرتے۔ ظاہر ہے کہ مذاکرات کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں مگر انہوں نے وفاق کی پالیسی کے برعکس قدم اٹھایا جو دراصل پی ٹی آئی کی طالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے دیرینہ پالیسی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی علی امین گنڈاپور نے افغانستان سے مذاکرات کی بات کی خان صاحب نے جیل سے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی حوصلہ افزائی کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ علی امین گنڈاپور نے خان صاحب کے ایما پر یہ قدم اٹھایا۔ کون نہیں جانتا کہ خان صاحب کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں بسانے کی حکمت عملی تک ترتیب دے چکے تھے‘ اب شاید اس منصوبے کو صوبائی حکومت کے تعاون سے عملی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
علی امین گنڈاپور نے چند روز قبل بار کونسلز ایسوسی ایشنز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کا عندیہ دیا تھا۔ انہوں نے افغانستان سے بات کرنے اور وہاں وفد بھیجنے کا اعلان بھی کیا۔ علی امین گنڈاپور نے افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر سے ملاقات کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ انہوں نے جو اعلان کیا تھا وہ محض سیاسی اعلان نہیں تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت جرگہ تشکیل دے کر پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت کرے اور یہ کہ پاک افغان سرحد پر تجارتی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملاقات میں افغان مہاجرین‘ باہمی تجارت اور علاقائی امن و استحکام کے امور بھی زیرِ بحث آئے۔ علی امین گنڈاپور نے افغان قونصل جنرل سے ملاقات میں جو باتیں کیں وہ ہر پاکستانی کے دل آواز ہو سکتی ہیں لیکن انہوں نے جس طرح بڑا بننے کی کوشش کی یہ ان کا مینڈیٹ نہیں۔ اگر یہ ملاقات باہمی دلچسپی کے امور اور خیر سگالی تک محدود رہتی تو اس کی گنجائش موجود تھی کیونکہ سفارتی سطح پر اس طرح کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں‘ سو اس ملاقات پر بھی کسی کو اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر علی امین گنڈاپور قومی نوعیت کے اور انتہائی حساس مسئلے کو اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صوبوں کے پاس خارجہ امور کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
پاکستان کے آئین میں خارجہ امور کی ذمہ داری وفاق کو سونپی گئی ہے۔ یہ مرکزی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے‘ جو بین الاقوامی تعلقات کو برقرار رکھنے اور فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔ وفاقی حکومت خارجہ امور کا محکمہ‘ ملک کی بین الاقوامی پالیسیوں کو ترتیب دینے‘ بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرنے‘ سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو چلانے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اگر کسی ملک کے ساتھ کوئی تصفیہ طلب مسئلہ درپیش ہو تو وفاقی حکومت ہی اس کا حل تلاش کرے گی۔ صوبے اس طرح کے معاملات میں خود سے اقدام کرنے کے مُجاز نہیں۔ پوری دنیا میں خارجہ تعلقات وفاق کا شعبہ ہیں اور اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ خارجہ امور ایک پیچیدہ اور حساس شعبہ ہیں جبکہ بین الاقوامی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے داخلی ہم آہنگی اور یکجہتی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صوبوں کو خارجہ امور میں خود مختاری حاصل ہوتی تو ملک کی بین الاقوامی پالیسیوں میں تضاد اور تنائو پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ صوبائی حکومتوں کے برعکس وفاقی حکومت کے پاس خارجہ امور کے لیے ضروری وسائل اور ماہرین کی ٹیم موجود ہوتی ہے۔ سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں کام کرنے والے سفارت کاروں کو بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں وسیع علم اور تجربہ ہوتا ہے‘ صوبوں کے پاس اس طرح کے وسائل اور ماہرین موجود نہیں ہوتے۔ ہاں‘صوبے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشش ضرور کر سکتے ہیں‘ مثلاً صوبے اپنے اپنے علاقوں میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور تجارت کو راغب کر سکتے ہیں‘دیگر ممالک کے ساتھ ثقافتی تبادلے اور تعلیمی پروگراموں کا بھی انعقاد کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں دہشت گردی اور اس معاملے پر افغان قیادت سے بات چیت میں عسکری قیادت کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے حتیٰ کہ دفتر خارجہ بھی ان کی منشا کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتا۔ ایسے میں ایک صوبہ اتنا بڑا اقدام کیسے کر سکتا ہے؟ شنید ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے نچلے لیول کی عسکری قیادت کو اپنی خدمات کی پیشکش کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات پر اداروں کا ردعمل کیا آتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے اعلان کو وفاق پر حملہ اور زہرِ قاتل قرار دیا ہے۔ علی امین گنڈاپور جس برق رفتاری سے معاملات کو لے کر چل رہے ہیں اس سے شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کے مقتدرہ سے تعلقات اب کوئی راز کی بات نہیں رہے‘ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر بھی تفریق موجود ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان سمجھتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور خان صاحب اور مقتدرہ کے مابین ایک رابطہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ خان صاحب خود بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ 22 اگست کا جلسہ مقتدرہ کے کہنے پر ملتوی کیا تھا اور ذرائع کے مطابق اس میں بھی علی امین گنڈاپور کا کردار مرکزی تھا۔ اعظم سواتی کو ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ علی امین گنڈاپور سخت بیانات دیتے رہیں گے مگر مقتدرہ کی اجازت کے بغیر کسی عملی اقدام سے گریز کریں گے۔
جہاں تک ہماری معلومات ہیں‘ علی امین گنڈاپور کی حکومت فی الوقت نہ گرائی جائے گی اور نہ ہی صوبے میں گورنر راج لگے گا۔ خان صاحب اور ان کی اہلیہ چونکہ جیل میں ہیں اس لیے ان سے رابطے کے تمام ذرائع ختم نہیں کیے جائیں گے۔ علی امین گنڈاپور کو رابطہ کار کے طور پر باقی رکھا جائے گا۔ خان صاحب بھی یہی چاہتے ہیں۔ ایک عرصہ تک خان صاحب مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے انکاری رہے مگر 8 ستمبر کے جلسے اور علی امین گنڈاپور کی پُراسرار گمشدگی کے بعد انہوں نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب مقتدرہ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مطلب یہ کہ مذاکرات کی بات کہیں نہ کہیں کسی حد تک چل رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو خان صاحب کے ایما پر مذاکرات کر رہے تھے؟ شنید ہے کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے مگر 8 ستمبر کے جلسے میں جس طرح علی امین گنڈاپور نے سرعام نام لے کر تنقید کی‘ اس طرزِ عمل کی گنجائش نہیں ہو گی۔ ممکن ہے پُراسرار گمشدگی کے وقت انہیں تنبیہ کر دی گئی ہو کہ حد سے تجاوز نہ کریں‘ اس کے علاوہ انہیں سخت بیانات کے باوجود سپیس ملتی رہے گی۔