تحریک انصاف نے صوابی جلسے کو جرگے کا نام دے دیا ہے۔ اگرچہ جلسہ اور جرگہ ‘دونوں میں لوگ جمع ہوتے ہیں تاہم ان کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ سیاسی جلسہ ایک اہم سیاسی سرگرمی ہے جس کا اہتمام بالعموم لوگوں کو متحد کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ سیاسی جلسوں میں ہر خاص و عام شریک ہو سکتا ہے جبکہ جرگہ کسی اہم نوعیت کے مسئلے کے حل کیلئے طلب کیا جاتا ہے جس میں بالعموم بزرگ اور سمجھ دار افراد شریک ہوتے ہیں جو مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرگہ یکطرفہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں دو فریق شامل ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنا اپنا مؤقف پیش کر سکیں۔ پی ٹی آئی صوابی جلسے کو جرگہ قرار دے رہی ہے تو اس جرگے کا فریقِ ثانی کون ہے؟ اگر پی ٹی آئی کے تئیں کوئی فریقِ ثانی ہے بھی تو اس کی عدم موجودگی میں جرگے کے یکطرفہ فیصلے کی کیا اہمیت ہو گی؟ اس حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت بھی کنفیوژن کا شکار تھی۔ کچھ لوگ صوابی اجتماع کو جلسہ کہہ رہے تھے جبکہ کچھ اسے جرگے کا نام دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سیاسی جلسے کو جرگے کا نام دے کر عمران خان کی رہائی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ یہ اقدام وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے اس بیان کا تسلسل ہے جو انہوں نے آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا کہ اگر دو ہفتے میں عمران خان کو رہا نہ کیا گیا تو خود رہا کرا لیں گے۔ علی امین گنڈا پور دو ہفتوں میں خان صاحب کو رہا تو نہ کرا سکے البتہ صوابی جلسے کو جرگے کا نام دے کر انہوں نے اپنے کندھوں سے بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست جلسوں اور سوشل میڈیا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بشریٰ بی بی کی پشاور میں موجودگی کے بعد بھی اس سٹرٹیجی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایسے مواقع پر پارٹی کو جن بیک ڈور رابطوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ سیاست کے پیچیدہ کھیل میں کبھی کبھار رسمی راہداریاں ناکافی ثابت ہوتی ہیں‘ ایسی صورتحال میں بیک ڈور رابطے مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ بیک ڈور رابطے حساس معاملات کو رازداری سے حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کئی بار سیاسی مسائل اتنے نازک ہوتے ہیں کہ ان پر کھلے عام بات کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے میں غیر رسمی ملاقاتیں ایک محفوظ پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں جہاں حساس معاملات پر کھل کر بات کی جا سکتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے بیک ڈور رابطے کامیاب نہیں ہو سکے تو یہ اس کی قیادت کے لیے مقامِ فکر ہونا چاہیے کہ کس وجہ سے پی ٹی آئی بطور جماعت سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی جس وجہ سے سیاسی تنہائی کا شکار ہے‘ ہماری دانست میں جماعت کی قیادت کے لیے اس سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں۔
سیاسی تنہائی سے نکلنے کے لیے سیاسی اتحاد کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی نے پہلے کبھی سیاسی اتحاد کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ اب اسد قیصر جیسے رہنما اپوزیشن کو ایک پیج پر لانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ شاید اس بات کا ادراک کر لیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی تنہا مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے۔ پارٹی رہنمائوں میں اختلافات موجود ہیں۔ جب پارٹی کے اپنے لوگ ہی ناراض ہوں تو دوسری جماعتیں کیسے ساتھ دیں گی؟ پھر اپوزیشن اتحاد کا کوئی بڑا سیاسی مقصد ہونا چاہیے‘ مگر اپوزیشن کا الائنس خان صاحب کو جیل سے باہر لانے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے تو یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی نوجوانوں کی جماعت ہے‘ اس کا زیادہ تر ووٹر نوجوان ہے اور نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا سے منسلک ہے۔ پی ٹی آئی کو مقبول بنانے میں نوجوانوں اور سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔ بانی پی ٹی آئی بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں اقتدار تک پہنچانے میں نوجوانوں اور سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے‘ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پارٹی کو زوال سے دوچار کرنے کا سبب بھی سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی سیاسی رہنمائی نہ ہونا ہی ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کھلاڑی سماجی میڈیا پر پارٹی کے مزاحمتی بیانیے کے پرچار میں پیش پیش ہیں۔ کیا کوئی جماعت صرف مزاحمتی بیانیے کی بنیاد پر عوام کی نظر میں اچھی بن سکتی ہے؟ اگر پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی وجہ سے کچھ حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تو کیا یہ سلسلہ دیرپا ثابت ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سیاسی مخالفین کی ویڈیوز اَپ لوڈ کی جاتی ہیں مگر تھوڑے ہی وقت میں اس بات کا خلاصہ ہو جاتا ہے کہ یہ ویڈیو ایڈٹ شدہ ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے پاس سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لینے کے بجائے کوئی اور پروگرام یا ایجنڈا بھی ہے؟ انسان تبھی کردار کشی پر اترتا ہے جب اس کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی والوں کے پاس دلائل ختم ہو چکے ہیں؟
کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی نے سیاست میں جارحانہ رویے کو فروغ دیا مگر اب بات کہیں آگے نکل چکی ہے‘ اب دروغ گوئی بھی ان کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈب ویڈیوز ڈالنا بھی دورغ گوئی ہی کہلائے گا جس سے وقتی فائدہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے مگر جب یہی کسی کی پہچان بن جائے تو لوگ اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب سوشل میڈیا پر کی جانی والی درست پوسٹوں پر بھی آسانی سے یقین نہیں کرتے۔ من گھڑت حقائق پر مبنی ایک ویڈیو بنائی جاتی ہے‘ پھر ایک فیک اکاؤنٹ سے اپ لوڈ ہوتی ہے‘ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ زیادہ تر پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور کارکن ہی ایسی پوسٹوں کو شیئر کرتے ہیں؟ اول تو یہ کہ ایسی ویڈیوز پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ جعلی ہیں اگر سمجھنے میں دشواری ہو تو ٹیکنالوجی کے دور میں حقیقت تک پہنچنا کون سا مشکل کام ہے۔
مزاحتمی بیانیہ پی ٹی آئی کا حق ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں کامیاب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاحمتی بیانیے کو امریکی عوام نے سپورٹ کیا۔ کسی بھی ملک میں اگر دوسروں کے خلاف غیرشائستہ رویے کے بجائے ایک سیاسی مزاحمتی بیانیہ اپنایا جائے تو لوگ بھی اس طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی اسی فارمولے کی پیروی کرنی چاہیے‘ لیکن سیاسی مخالفین کی کردار کشی سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے نہ ہی سماج میں اسے پسند کیا جاتا ہے۔ خان صاحب کے جیل جانے سے پارٹی کی مشکلات میں یقینا اضافہ ہوا ہے مگر اس سے کہیں زیادہ مشکلات سوشل میڈیا کھلاڑیوں نے پارٹی کے لیے پیدا کی ہیں۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا میں مصروف طبقہ پارٹی کا سرمایہ افتخار بھی ہے اور کسی قدر پارٹی کی مجبوری بھی کیونکہ پارٹی کا ووٹ بینک اسی طرز سیاست کو پسند کرتا ہے‘ یوں یہ سوشل میڈیا کھلاڑی پی ٹی آئی کی مجبوری بن چکے ہیں۔
کچھ پی ٹی آئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ اب سوشل میڈیا کھلاڑیوں کی اصلاح کا مطلب اپنا ووٹ بینک کھونا ہے۔ دراصل یہ دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ‘ ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کھلاڑی جس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں‘ ویسا کسی اور کے لیے ممکن نہیں ۔ پی ٹی آئی سیاسی مخالفین کو اپنی سیاسی تنہائی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے لیکن اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو سیاسی تنہائی کے اصل محرکات اسے اپنی صفوں میں دکھائی دیں گے۔