قوموں پر جب کڑا وقت آتا ہے‘ چاہے وہ قدرتی آفات ہوں‘ معاشی بحران یا سلامتی کے مسائل‘ حکومت کے لیے قومی قیادت کو اعتماد میں لینا انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ وہ نازک لمحات ہوتے ہیں جب قوم کو متحد ہو کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے‘ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ تمام اہم سٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہوں۔ سلامتی کے امور کے مواقع پر اِن کیمرہ بیک گراؤنڈ بریفنگز کا اہتمام اس لیے کیا جاتا ہے کہ حکومت حساس معلومات اور صورتحال کی سنگینی سے قومی رہنماؤں کو آگاہ کرے۔ اختیار اگرچہ حکومت کے پاس ہوتا ہے لیکن قومی ایشوز میں تمام جماعتوں سے مشاورت سے ملکی مفاد میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔
اِن کیمرہ بریفنگ کا مقصد بجا طور پر سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا‘ انہیں متعلقہ معاملات کی سنگینی سے آگاہ کرنا اور ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات فراہم کرنا ہوتا ہے چونکہ ان بریفنگز میں اکثر حساس نوعیت کی معلومات‘ سکیورٹی کے خدشات اور حکومت کی حکمت عملیوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے اس لیے ان کی تفصیلات کو عام طور پر منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ اس احتیاط کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ایسی معلومات کے افشا سے بچا جا سکے جو قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتی ہو یا جس سے دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکیں۔ حکومت موقع فراہم کرتی ہے کہ ان بند کمرہ ملاقاتوں میں قائدین کھل کر اپنے تحفظات اور تجاویز پیش کر سکیں تاکہ حکومت کو جامع اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد ملے۔ اس رازداری سے اعتماد کا ماحول بھی قائم رہتا ہے جو قومی معاملات پر تعاون کے لیے ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے بھی یہ لازم ہے کہ وہ ایسے نازک وقت میں اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال دیں اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں کیونکہ قومی مفاد ہمیشہ پارٹی مفادات سے بالاتر ہوتا ہے۔ جب تمام سیاسی قوتیں مل کر کھڑی ہوتی ہیں تو قوم کا مورال بلند ہوتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام جاتا ہے۔ یہ اتحاد بحران سے نمٹنے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے تناظر میں ہونے والی بیک گراؤنڈ بریفنگ میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی بڑی تعداد کی شرکت ایک مثبت پیش رفت تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر بیشتر سیاسی جماعتیں سنجیدہ ہیں اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہشمند ہیں‘ تاہم پاکستان تحریک انصاف کا اس بریفنگ کا بائیکاٹ کرنا افسوسناک امر ہے۔ ایسے وقت میں جب قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے‘ پاکستان تحریک انصاف کے پاس ایک بہترین موقع تھا کہ قومی مفاد میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی۔ اس بائیکاٹ سے نہ صرف ایک اہم قومی معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو دھچکا لگا بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے قومی مفاد پر اپنی سیاسی ترجیحات کو مقدم رکھا۔ پہلگام واقعے کے فوری بعد پی ٹی آئی قیادت نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیانات دیے تو ہم نے اس کی تحسین کی مگر اِن کیمرہ بریفنگ میں عدم شرکت کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان تحریک انصاف کے اگر حکومت سے اختلافات ہیں تو اسے کسی دوسرے موقع کے لیے اٹھا رکھا جا سکتا ہے۔ حکومت سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بھی بریفنگ میں شامل ہوا جا سکتا تھا۔ 2019ء میں جب بھارت نے پلوامہ کی آڑ میں پاکستان پر جارحیت کا ارادہ کیا تھا تو اختلافات کے باوجود سیاسی قیادت حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف اس موقع پر آل پارٹیز کانفرنس کا مطالبہ کر رہی ہے‘ بظاہر اس کا مطالبہ درست ہے‘ عین ممکن ہے کہ حکومت اگلے چند روز میں آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لے لیکن اس موقع پر اِن کیمرہ بریفنگ میں نہ جانے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس بریفنگ میں شرکت نہ کر کے پاکستان تحریک انصاف نے اپنا قد کاٹھ کم کر لیا ہے‘ قومی نوعیت کے معاملات پر کیا طرزِ عمل اپنانا ہے پی ٹی آئی کو یہ سیکھ لینا چاہیے۔
پاک بھارت کشیدگی کے دوران ہمیں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ بیک وقت کئی محاذوں پر متحرک نظر آئے۔ وزارتِ اطلاعات اور آئی ایس پی آر کی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں ہم بھارت کو مؤثر جواب دینے میں کامیاب ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ دورِ جدید میں روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ معلومات کی جنگ بھی فیصلہ کن اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ کسی بھی ملک کے وزیر اطلاعات کا فعال اور بروقت کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ اور وزیر اطلاعات نے جس مستعدی اور مہارت کا مظاہرہ کیاوہ نہ صرف قابلِ ستائش ہے بلکہ قومی مفاد میں ایک گراں قدر خدمت کے مترادف ہے۔ انہوں نے ملکی اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے مؤقف کو جس مضبوطی سے پیش کیا اس نے بھارتی بیانیے کو مؤثر طریقے سے ناکام بنایا اور پاکستانی بیانیے کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر مستحکم کیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارتی میڈیا غیرذمہ دارانہ روش کے باعث اکثر من گھڑت اور پروپیگنڈا پر مبنی خبریں پھیلا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرتا رہتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں ایک دور اندیش‘ فعال اور بروقت ردِعمل دینے والے وزیر اطلاعات کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو حقائق کو فوری طور پر منظر عام پر لائے اور بھارتی پروپیگنڈا کا دندان شکن جواب دے سکے۔
آئی ایس پی آر اور وزیر اطلاعات نے موقع کی نزاکت کو بھانپ لیا اور اس اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ انہوں نے نہ صرف ملکی میڈیا کو مستند معلومات فراہم کیں بلکہ بین الاقوامی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے ساتھ بروقت رابطے استوار کر کے پاکستان کا واضح اور مبنی برحقیقت مؤقف پیش کیا۔ ان کی بروقت وضاحتوں اور مدلل بیانات نے بھارتی میڈیا کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور جھوٹے الزامات کا تدارک کیا۔ اگر آئی ایس پی آر اور وزیر اطلاعات اس صورتحال کی سنگینی کو بروقت نہ سمجھتے اور فوری ردِعمل نہ دیتے تو یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ بھارتی میڈیا اپنے وسائل اور پروپیگنڈا کی مشینری کے ذریعے کس قدر گمراہ کن معلومات پھیلا کر پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ پاک فوج اور وزارتِ اطلاعات کے بروقت جامع اور مؤثر بیانیے نے نہ صرف پاکستان کے مؤقف کو مضبوط بنیاد فراہم کی بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی حقائق سے آگاہ کیا۔
اس کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا کی مہم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا۔ اس کامیاب حکمتِ عملی کا کریڈٹ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ اور وزارتِ اطلاعات کو جاتا ہے جنہوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ معلومات کی جنگ میں بروقت‘ واضح اور مؤثر جواب دینا کسی بھی ملک کے دفاعی اور سفارتی حکمت عملی کا ایک لازمی جزو ہے۔ ان کا یہ فعال کردار موجودہ کشیدگی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور مستقبل میں بھی پاکستان کے لیے ایک روشن مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔