خیبر پختونخوا میں گزشتہ گیارہ برس سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ صوبے کو ترقی سے ہمکنار کرنے کیلئے یہ عرصہ کم نہیں مگر گیارہ برسوں پر محیط حکمرانی کے بعد بھی خیبر پختونخوا میں وہ خوشحالی دکھائی نہیں دیتی جس کی تمنا اس دھرتی کے باسیوں کے دلوں میں تھی۔ حیرت ہے وقت کی اتنی فراوانی بھی اس صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن نہ کر سکی۔ 2013ء کے بعد وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو خیبر پختونخوا میں تعمیر و ترقی کی نت نئی داستانیں سننے کو ملتی تھیں۔ جلسوں میں کے پی پولیس کی ستائش سے لے کر ہر شعبے کی کارکردگی کی مثالیں پیش کی جاتیں۔ سوال یہ ہے اگر اُس دور میں صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا تو پھر یہ ترقی ریورس کیسے ہو گئی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ترقی میں کئی گنا اضافہ ہوتا کیونکہ اس کے بعد صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی۔ پی ٹی آئی قیادت نے جلسوں میں صوبے کی تعمیر و ترقی کی جو داستانیں سنائی تھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کی ریت پر محض نقش کھینچے گئے تھے جو پائیداری سے عاری رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طویل حکمرانی کے باوجود صوبے کے عوام آج بھی احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ انہوں نے ایک ہی پارٹی کو سپورٹ کیا اور اسی سے امیدیں وابستہ کیں مگر ان کی امنگیں کسی سراب کی مانند دور ہوتی چلی گئیں۔ خیبر پختونخوا آج ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جہاں ترقی کے دعوے اور زمینی حقائق میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست میں کرپشن ہمیشہ ایک اہم موضوع رہا ہے مگر اس کی اپنی حکومت میں بھی کرپشن سرایت کرتی رہی اور اربوں روپے کے سکینڈلز نے نہ صرف مالی وسائل کو ضائع کیا بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ ریاست مدینہ کے بلند و بانگ دعوے ان حقائق کے سامنے بے معنی نظر آتے ہیں جہاں بدحالی‘ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور کرپشن کا راج عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔
حیرت ہے کہ مالی بدعنوانی ایک ایسی جماعت کے دور میں پروان چڑھی جس نے کرپشن کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ صورتحال اس جماعت کی ساکھ پر ایک بد نما داغ ہے اور ان دعوؤں کو خاک میں ملا دیتی ہے جو وعدے اس نے وقتاً فوقتاً عوام سے کیے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ طویل عرصے تک اتنی بڑی بدعنوانی ہوتی رہے اور حکومتی ایوانوں کو اس کی خبر نہ ہو؟ یا پھر جان بوجھ کر اس پر پردہ ڈالا گیا؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جو خیبر پختونخوا کے عوام کے ذہنوں میں کانٹوں کی طرح چبھ رہے ہیں اور جن کا تسلی بخش جواب دینا پی ٹی آئی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والا کوہستان میں ترقیاتی فنڈز میں اربوں روپے کی کرپشن کا معاملہ اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل خیبرپختونخوا کی جانب سے محکمہ خزانہ کے دس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش اور مشکوک بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی اس کا ثبوت ہے کہ کرپشن کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ایسے سینکڑوں چیکوں کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں جن کے ذریعے اربوں روپے نجی اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے۔ اس مشکوک سرگرمی میں نیشنل بینک اور سی اینڈ ڈبلیو جیسے اداروں پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ کوہستان ترقیاتی منصوبے میں 36ارب روپے کی کرپشن کا سکینڈل صرف ایک ضلع کی کہانی ہے‘ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ برملا کہہ رہے ہیں کہ مجموعی کرپشن کا حجم 500سے 600ارب روپے بنتا ہے۔ اگر پورے صوبے میں باریک بینی سے تحقیقات کی جائیں تو شاید کرپشن کے مزید پردے فاش ہوں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے تحقیقات کا حکم ایک ابتدائی قدم ضرور ہے لیکن کیا محض تحقیقات اس کیلئے کافی ہیں؟ خیبرپختونخوا میں ہر کچھ عرصہ کے بعد کرپشن کا ایک نیا سکینڈل سامنے آجاتا ہے اور کچھ ہی دنوں بعد تحقیقات کی چادر ڈال کر اس پر ہمیشہ کیلئے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔اس سال مارچ میں نوشہرہ میں ایک تشویشناک واقعہ پیش آیا جہاں سرکاری گودام سے بڑے پیمانے پر گندم کی گمشدگی کا انکشاف ہوا۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کی غفلت یا انتظامی کوتاہی نہیں تھی بلکہ 1700 میٹرک ٹن گندم کا پُراسرار طور پر غائب ہو جانا ایک بڑا سکینڈل بن کر سامنے آیا۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد صوبائی حکومت میں ہلچل مچ گئی اور فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گوداموں کے اہلکار یا تو خود اس غبن میں ملوث تھے یا پھر ان کی غفلت کے باعث کسی اور کو اس واردات کا موقع ملا۔بہرکیف1700 میٹرک ٹن گندم کی گمشدگی سے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا۔ یہ سکینڈل نہ صرف مالی بدعنوانی کی ایک بڑی مثال ہے بلکہ یہ سرکاری اداروں میں نگرانی اور احتساب کے ناقص نظام کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں گندم کا بغیر کسی روک ٹوک کے غائب ہو جانا سوال اٹھاتا ہے کہ گوداموں کے انتظام اور سٹاک کی جانچ پڑتال کا کیا طریقہ کار تھا اور کیا اس پر صحیح طریقے سے عمل کیا جا رہا تھا؟عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں ایک سابق صوبائی وزیر پر 50ارب روپے کی خرد برد کا الزام ہے۔ پانچ ماہ قبل خیبر پختونخوا کے سرکاری سکولوں کے لیے نصابی کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکوں کی من پسند افراد کو الاٹمنٹ اور اس عمل میں شفافیت کے فقدان کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ نصاب میں تبدیلی کے بعد نئی کتابوں کی خریداری میں بھی مبینہ بے ضابطگیوں کی شکایات سامنے آئی ہیں‘ جہاں غیر ضروری طور پر مہنگی کتابوں کو شاملِ نصاب کیا گیا یا خریداری کے عمل میں شفافیت کا فقدان رہا۔ ان انکشافات نے صوبے کی مالیاتی نگرانی اور احتساب کے نظام کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور عوام ان تحقیقات کے شفاف اور بروقت نتائج کے منتظر ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں کرپشن ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔
صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم کے بقول اس وقت صوبہ 679.5 ارب روپے کے قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ یہ صورتحال صوبے کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈاور دیگر اداروں کے ساتھ جو معاہدے طے پائے ہیں ان کے تحت 2030ء تک اس قرض میں چار گنا اضافہ متوقع ہے۔ یہ بڑھتا ہوا قرض صوبے کی معیشت کیلئے خطرہ بن سکتا ہے‘ جس سے نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست ہو جائے گی بلکہ صوبے کے مالیاتی وسائل کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی میں صرف ہو گا۔ خیبر پختونخوا کے عوام معاشی بدحالی کی چکی میں پس رہے ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘ وہیں دوسری جانب صوبے پر قرضوں کا حجم تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ کرپشن کے قصے زبان زدِ عام ہیں اور وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کے باعث ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ اس کے باوجودسیاسی قیادت کا یہ دعویٰ کہ صوبہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے‘ ایک تکلیف دہ مذاق سے کم نہیں۔ یہ دعویٰ ان تلخ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے جن کا سامنا صوبے کے عوام اپنی روزمرہ زندگی میں کر رہے ہیں۔