"RS" (space) message & send to 7575

افغانستان علاقائی طاقتوں کیلئے توجہ کا مرکز

پاک بھارت کشیدگی کے دوران افغانستان اور بھارت کے درمیان اہم سفارتی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ طالبان حکومت کے اہم رہنما ابراہیم صدر کا دورۂ بھارت موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ افغان وزیر مملکت ابراہیم صدر کا بھارت میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ علاج کی غرض سے موجود ہونا اور ان کے دورے کو مخفی رکھنے کی کوشش‘ خطے میں ایک پیچیدہ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی جانب سے اس دورے کو دانستہ طور پر آشکار کرنا اور یہ تاثر دینا کہ افغان قیادت پاک بھارت کشیدگی میں بھارت کے ساتھ کھڑی ہے‘ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس تاثر کو اس وقت مزید تقویت ملی جب افغان حکومت نے پہلگام میں ہونے والے واقعے کی تو مذمت کی لیکن اس کے برعکس بھارت کی جانب سے پاکستان کی مساجد اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے اور کھلی جارحیت پر معنی خیز خاموشی اختیار کیے رکھی۔ افغان قیادت کی یہ دہری پالیسی پاکستان کے لیے سنگین نوعیت کے سوالات اور تحفظات کو جنم دیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بھارت اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت پاکستان کے لیے سکیورٹی مضمرات کی حامل ہے اور یہ صورتحال خطے میں عدم استحکام کا ایک نیا محور تشکیل دے سکتی ہے۔ اس اتحاد کے نتیجے میں پاکستان میں سرگرم علیحدگی پسند عناصر بالخصوص بلوچ لبریشن آرمی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش خراسان کی سرگرمیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان گروہوں کو مبینہ طور پر بھارتی حمایت حاصل ہے جس سے ان کی تخریبی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے موجودہ ماحول میں بھارت اور افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی غیراعلانیہ رابطوں کا منظر عام پر آنا پڑوسی ممالک کے لیے سفارتی تشویش کو جنم دیتا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے افسر جے پی سنگھ کی طالبان حکومت کے وزیر دفاع ملا یعقوب اور دیگر کلیدی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی خفیہ ملاقاتوں کی تصاویر کا لیک ہونا بھی ان پوشیدہ روابط کا واضح ثبوت ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے ان رابطوں کو نظر انداز کرنا یا ان کی تردید نہ کرنا پاکستان کے خدشات کو مزید تقویت بخشتا ہے۔
بھارت اور افغانستان کے درمیان بڑھتی قربتوں پر پاکستان اور چین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس طرح طالبان کی خارجہ پالیسی دو حصوں میں تقسیم ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کی مغربی سرحد پر سکیورٹی کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ طالبان کے اندر حقانی گروپ بھی ابراہیم صدر کے اس اقدام کو علاقائی استحکام اور کابل میں اپنی طاقت کے لیے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ اسی طرح چین کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اس کے اہم اقتصادی منصوبوں بالخصوص بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور وہ خاص طور پر پاکستان‘ ازبکستان اور افغانستان کے درمیان مجوزہ ریلوے لائن پر بھارتی اثراندازی سے پریشان ہے۔ ترکمانستان سے تاپی گیس منصوبے کو عملی شکل دینے کیلئے بھی افغانستان کے ساتھ حالات سازگار ہونا ضروری ہیں۔ اسی طرح پاکستان‘ تاجکستان‘ کرغزستان اور افغانستان کے درمیان جاری مشترکہ منصوبہ کاسا 1000تکمیل کے قریب ہے۔ یہ منصوبہ بھی افغانستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر پاکستان نے فوری طور پر سفارتی کوششیں شروع کر دی ہیں اور اپنے خصوصی نمائندے کو کابل بھیجا تاکہ طالبان قیادت سے دہشت گردی کے خلاف تعاون‘ تجارتی راستوں کی بحالی اور بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کو روکنے کے حوالے سے بات چیت کی جا سکے۔ اسی دوران چین کے خصوصی ایلچی نے بھی کابل کا دورہ کیا اور پاکستان کا ایک اہم پیغام طالبان تک پہنچایا جس میں انہیں چین کے اہم منصوبوں کے قریب داعش کی سرگرمیوں کو روکنے اور افغانستان میں بھارت کی مبینہ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی سے محتاط رہنے کی تلقین کی گئی۔ چین نے پاکستان اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
اس دوران بیجنگ میں پاکستان‘ افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات بھی دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب خطے کو متعدد پیچیدہ جیو پولیٹکل چیلنجز درپیش ہیں جن میں سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات‘ اقتصادی مواقع کی تلاش اور مختلف علاقائی طاقتوں کے اثر و رسوخ کے لیے جاری کشمکش شامل ہیں۔ تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی یہ بات چیت باہمی تجارت کو فروغ دینے‘ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر مرکوز ہو گی۔ اس سہ فریقی ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ دونوں ہی اس سٹرٹیجک محور کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد افغانستان میں اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرنا اور نئی دہلی کو کابل کی خارجہ پالیسی پر کسی بھی قسم کے اثر و رسوخ سے باز رکھنا ہے۔ پاکستان اور چین بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ افغانستان کا کسی بھی مخالف بلاک خاص طور پر بھارت کے قریب ہونا ان کے علاقائی سٹرٹیجک مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب افغان قیادت بھی اس نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی فضا مکدر ہوئی تھی‘ اس ملاقات کے ذریعے اسے بحال کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ کابل حکومت کے لیے یہ موقع اہم ہے کہ وہ خطے کے ان دو اہم طاقتور ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسرنو استوار کرے اور اقتصادی امداد‘ تجارتی شراکت داری اور سکیورٹی ضمانتیں حاصل کرے۔ بلاشبہ افغان قیادت اس موقع پر بڑی طاقتوں سے اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے پُرعزم ہو گی‘ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ افغانستان کا فطری اتحاد تاریخی‘ ثقافتی اور لسانی بنیادوں پر اپنے قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ استوار ہوتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے مذہبی‘ لسانی اور ثقافتی روابط ہیں جو ایک مضبوط اور دیرپا اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط مشترکہ تاریخ اور عوام کی سطح پر قریبی تعلقات اس فطری اتحاد کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔ طویل مدتی استحکام اور علاقائی تعاون کے لیے فطری اتحادیوں کے ساتھ مضبوط اور دوستانہ تعلقات استوار کرنا افغانستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ ان سہ فریقی مذاکرات کے نتائج نہ صرف ان تینوں ممالک کے باہمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کریں گے بلکہ پورے خطے کی مستقبل کی سیاسی اور اقتصادی حرکیات کا بھی تعین کریں گے۔ یہ ملاقات علاقائی طاقتوں کے درمیان ایک نئے توازن کو جنم دے سکتی ہے اور افغانستان کے مستقبل کے رُخ کا تعین کرنے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ حالات نے ایک بار پھر افغانستان کو علاقائی طاقتوں کیلئے توجہ کا مرکز بنا دیا ہے‘ تاہم افغانستان کا مستقبل اب بڑی حد تک ان علاقائی طاقتوں کے باہمی تعامل پر منحصر ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ بیجنگ میں ہونے والی یہ بات چیت کس نتیجے پر پہنچتی ہے اور کیا تینوں ممالک ایک مشترکہ وژن پر متفق ہو پاتے ہیں جو خطے میں دیرپا امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں