نئے بجٹ کا عمل دو بنیادی اور نہایت اہم مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے اپنی مالیاتی تجاویز اور منصوبوں پر مشتمل بجٹ کی ایوان میں پیشکش ہے۔ یہ مرحلہ حکومتی ترجیحات‘ متوقع آمدنی اور مجوزہ اخراجات کا مکمل خاکہ عوام اور پارلیمان کے سامنے جائزے کے لیے پیش کرتا ہے‘تاہم اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل دوسرا مرحلہ ہوتا ہے جس میں پیش کردہ بجٹ تجاویز پر ایوان میں تفصیلی بحث مباحثہ ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں حکومتی اراکین کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی کھل کر اپنی آرا‘ اعتراضات اور تجاویز پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بحث نہ صرف بجٹ کو مزید جامع اور عوامی ضروریات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دیتی ہے بلکہ حکومتی احتساب کو بھی یقینی بناتی ہے۔ درحقیقت بجٹ کی منظوری ہی اس پورے عمل کی آئینی حیثیت اور اصل طاقت کا مظہر ہے۔ محض بجٹ پیش کر دینا کافی نہیں ہوتا‘ اس کی منظوری ہی اسے قانونی شکل دیتی ہے اور حکومت کو عوامی وسائل استعمال کرنے کا اختیار فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ کی منظوری کا مرحلہ بجٹ کی پیشکش سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے‘ کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب منتخب نمائندے اپنے حلقوں اور عوام کے وسیع تر مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہیں۔
مالیاتی امور میں بجٹ کی منظوری کسی بھی حکومت کا بنیادی فریضہ اور ایوان کا اساسی اختیار ہے۔ ایوان کے اندر بجٹ پیش کرنا‘ اس پر تفصیلی بحث کرنا اور پھر اسے جمہوری طریقے سے منظور کرنا ہی آئینی اور پارلیمانی روایات کا حسن ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس وقت بجٹ کے معاملے پر جو صورتحال بنی ہوئی ہے‘ وہ ان بنیادی جمہوری اصولوں سے انحراف کی ایک مثال ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت نے 13جون کو 2119ارب روپے کا بجٹ پیش تو کر دیا تاہم بجٹ کی منظوری کا معاملہ ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا گورنر ہاؤس میں ہنگامی اجلاس طلب کرنا اور وزیراعلیٰ کے طرزِ عمل پر تشویش کا اظہار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محض انتظامی تاخیر کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے سیاسی پیچیدگیاں ہیں۔ صوبائی قائد حزبِ اختلاف ڈاکٹر عباداللہ کی قیادت میں وفد نے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سے ملاقات کی اور واضح کیا کہ صوبے کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے‘ انہوں نے ایوان کے اندر بحث کیلئے بجٹ پیش نہ کرنے کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔ ان کے یہ الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عوام کے مالیاتی مفادات کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ اس بحران کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے تئیں سمجھ رہی ہے کہ اسے صوبائی بجٹ پاس کرانے میں عددی اعتبار سے کوئی دقت نہیں ہو گی کیونکہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں دوتہائی اکثریت رکھتی ہے۔ اس کے باوجود بجٹ کو تعطل کا شکار کرنا اور اسے کسی غیرآئینی مرکز سے مشروط کرنا جمہوری روایات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں خود بجٹ پر بھرپور طریقے سے اپنی آرا کا اظہار کر رہی ہے‘ تقاریر کر رہی ہے اور سوالات اٹھا رہی ہے۔ یہ جمہوری حق ہر اپوزیشن کا ہوتا ہے اور اسے یہ حق ملنا بھی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی وفاقی سطح پر اپنے لیے اس جمہوری حق کا مطالبہ کرتی ہے تو صوبائی سطح پر اپوزیشن کو یہ حق دینے سے گریزاں کیوں ہے؟ جمہوری عمل کا تقاضا ہے کہ جس طرح وفاقی حکومت پی ٹی آئی کی تنقید اور تجاویز کو سنتی ہے‘ اسی طرح خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت بھی اپوزیشن کی آواز سنے اور بجٹ پر بحث کا آئینی حق فراہم کرے۔ اپوزیشن کی بات سننا محض اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ جمہوری طریقہ کار کا ایک لازمی جزو ہے جو قانون سازی کو زیادہ جامع اور عوامی مفادات کے مطابق بناتا ہے۔ ڈاکٹر عباداللہ کا یہ کہنا کہ ایک قیدی اجازت دے گا تو صوبے کا بجٹ پاس ہو گا‘ انتہائی تشویشناک ہے اور یہ صوبائی خود مختاری اور منتخب ایوان کی بالادستی پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ طرزِ عمل اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ صوبائی معاملات کو آئینی راستوں سے ہٹ کر کسی دباؤ کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ بجٹ شیڈول کے مطابق 24جون کو بجٹ منظور ہونا ہے۔ نئے مالی سال کا بجٹ 30جون تک منظور کروانا حکومتی ذمہ داری ہے۔ 30جون تک بجٹ منظور نہ ہونے پر یکم جولائی سے سرکاری فنڈز کا استعمال رک جائے گا جبکہ معاشی بحران پر آرٹیکل 234اور 235کے تحت وفاق صوبے میں ایمرجنسی لگا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی قیادت اگر بجٹ کے معاملے پر خان صاحب سے مشاورت کرنا چاہتی ہے تو اس ضمن میں کوئی ممانعت نہیں ہونی چاہیے‘ دیگر جماعتوں میں بھی پارٹی قائدین سے مشاورت کی جاتی ہے مگریہ کام بروقت کر لیا جاتا تو زیادہ بہتر نہ ہوتا؟ خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت نے باقاعدہ طور پر یہ مؤقف اختیار کر لیا ہے کہ عمران خان سے بجٹ پر مشاورت کی اجازت نہ ملنے پر اسمبلی میں بجٹ پاس کرانے کے عمل کو روکا جائے گا۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک وڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت عمران خان سے مشاورت کے بغیر بجٹ کسی صورت پاس نہیں کرے گی۔ یہ بیان نہ صرف آئینی طریقہ کار سے انحراف ہے بلکہ یہ صوبائی اسمبلی کے کردار کو بھی ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کہ وفاقی حکومت صوبے میں ایمرجنسی لگانا چاہتی ہے اور اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے‘ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے اور ایک غیریقینی کی فضا پیدا کر رہا ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن کا صوبائی اسمبلی کے بجائے گورنر ہاؤس میں بجٹ اجلاس منعقد کرنا صوبائی حکومت کی ناکامی ہے۔اگر یہ مسئلہ ایوان کے اندر حل کیا جاتا تو گورنر ہاؤس میں اجلاس طلب کرنے کی نوبت نہ آتی۔ خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے بجٹ کی منظوری کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت سے مشروط کرنا ایک ایسا اقدام ہے جو نہ صرف آئینی طریقہ کار سے انحراف ہے بلکہ پارٹی کے اندر فیصلہ سازی کی قوت کے فقدان کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ طرزِ عمل کسی صورت درست نہیں کہلا سکتا۔ پی ٹی آئی میں خان صاحب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن فعال قیادت کی موجودگی میں صوبائی بجٹ جیسے انتہائی اہم اور حساس معاملے پر فیصلے کو لٹکائے رکھنا کئی طرح کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ بات کئی مواقع پر ہو چکی ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اہم اور مشکل فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں جب مشکل وقت آتا ہے تو اس کی متبادل قیادت کو سامنے آنا پڑتا ہے اور بروقت فیصلے بھی کرنا ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس کہنے کی حد تک ایک متبادل قیادت تو موجود ہے مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس کے پاس فیصلہ سازی کی وہ قوت نہیں جو مشکل حالات میں درکار ہوتی ہے۔ جب فیصلہ سازی کی قوت سے محروم لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو اس کے نتائج اس بحران کی شکل میں سامنے آتے ہیں جو اس وقت خیبرپختونخوا میں در پیش ہے اور صوبے کے عوام کے لیے مالی اور انتظامی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔