"RS" (space) message & send to 7575

مصالحت کے بغیر سیاست

کسی سیاسی جماعت کی سینئر قیادت کو اگر اپنی اعلیٰ قیادت سے بات چیت کے لیے خط و کتابت کا سہارا لینا پڑے تو یہ اعتماد کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں یہ خلیج اب نمایاں طور پر محسوس ہونے لگی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے 2024ء کے عام انتخابات سے قبل جماعت چھوڑ دی تھی مگر بہت سے ایسے تھے جو ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے ڈٹے رہے۔ انہوں نے جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں‘ کچھ لوگ آج بھی پابند سلاسل ہیں۔ شاید انہوں نے یہ سوچا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی مشکلات کم ہو جائیں گی لیکن ابھی ایسا نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے ان رہنماؤں نے اب خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خاموش رہنے کے بجائے اپنی آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے جیل میں قید سینئر رہنماؤں نے ایک خط کے ذریعے جماعت کے بانی کو یہ تجویز دی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے بھی مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔ اس خط میں شاہ محمود قریشی‘ سینیٹر اعجاز چوہدری‘ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید شامل ہیں۔ ان رہنماؤں نے ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا ہے۔ ان رہنماؤں کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ انہیں بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے اور حکومت انہیں اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے مشاورت کا موقع فراہم کرے تاکہ مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر غور و خوض کیا جا سکے۔
جیل سے پاکستان تحریک انصاف رہنماؤں کے خط کے سامنے آنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان کے مؤقف کے حامی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر خان صاحب اسی مؤقف پر قائم رہے تو شاید تنہا رہ جائیں گے۔ خان صاحب کا مؤقف ہے کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے ان سے بات کریں گے جن کے پاس اصل اختیارات ہیں۔ اس مؤقف کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پارٹی بکھر گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن میں بڑی تعداد میں ووٹ ملے مگر پارٹی کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کی کچھ اپنی غلطیاں تھیں مثلاً پارٹی فنڈنگ کا حساب نہ رکھا گیا اور نہ ہی انٹرا پارٹی الیکشن پر توجہ دی گئی نتیجتاً انتخابات جب سر پر تھے تو پارٹی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کا خیال ہے کہ انہیں ٹیکنیکل طریقے سے آؤٹ کیا گیا‘ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو کیا اس کا جواز پاکستان تحریک انصاف نے خود فراہم نہیں کیا؟ الیکشن کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف کے پاس سنہرا موقع تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف مل کر اتحادی حکومت بنا سکتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس مقصد کے لیے پاکستان تحریک انصاف سے رابطہ بھی کیا لیکن خان صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس موقع پر انہوں نے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ خان صاحب کے کچھ قریبی دوستوں نے انہیں مشورہ بھی دیا تھا کہ اقتدار میں آ کر بہت سے معاملات خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں اور سیاسی حل تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے‘ مگر خان صاحب اپنے مؤقف پر قائم رہے اور برملا یہ اعلان کیا کہ وہ کسی کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے۔ ذرا تصور کیجیے‘ کیا اس مؤقف نے انہیں فائدہ پہنچایا یا نقصان؟
سیاست کے میدان میں موجود رہنا ضروری ہوتا ہے‘ اس کی مثال مولانا فضل الرحمن ہیں‘ وہ حکومت کا حصہ نہ بھی ہوں تب بھی میدانِ سیاست سے باہر نہیں ہوتے۔ ایوان کی سیاست کیسے کرنی ہے یہ مولانا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہ اپنے ایک ایک رکنِ قومی اسمبلی اور سینیٹر کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ایوان کے اندر کس طرح اپنے مطالبات منوانے ہیں۔ ارکان اسمبلی کے ووٹ کی کیا اہمیت ہے اور ان ووٹوں کو کس موقع پر کیسے استعمال کرنا ہے‘ یہ ایک ایسا فن ہے جس سے پاکستان تحریک انصاف بظاہر ناواقف ہے۔ خان صاحب اکثر مواقع پر سخت گیر مؤقف اختیار کرکے براہِ راست تصادم کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ بالآخر اپنے ہی سیاسی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ لچک اور مصالحت سیاست کا لازمی جزو ہیں اور اس کے بغیر کسی پارٹی کا طویل مدتی کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اگر میدانِ سیاست میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنا ہے تو اسے بھی یہ فن سیکھنا ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاسی غلطیوں اور حکمت عملی کی خامیوں کی وجہ سے سیاسی منظر نامے پر کمزور ہوئی جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سیاسی منظر نامے سے تقریباً آؤٹ ہو چکی ہے‘ تاہم صوبائی سطح پر‘ خاص طور پر خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے حیران کن طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے۔ ایک خیال یہ تھا کہ اگر خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تو اس سے جماعت کے مجموعی امیج کو بہتر بنانے میں مدد ملتی اور مرکز میں بھی اس کے لیے راستہ ہموار ہوتا‘ لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جس طرح خان صاحب اپنے سخت گیر اور غیر لچکدار مؤقف کے لیے جانے جاتے ہیں ویسے ہی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی اپنے جارحانہ انداز کے لیے مشہور ہیں۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی تو ابھی تک خاص نہیں رہی الٹا ان کی حکومت گرائے جانے کی باتیں عام ہونے لگی ہیں۔ ایسے میں علی امین گنڈا پور کا یہ دعویٰ کہ ان کی حکومت نہیں گرائی جائے گی‘ ناقص کارکردگی کے باوجود اُن کے غیر معمولی اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ آخر انہیں یہ یقین دہانی کس نے کرائی ہے؟ اس اعتماد کی بنیادی وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ مقتدرہ اور کچھ مخالفین کو بھی پاکستان تحریک انصاف کی ایسی کمزور اور غیر مؤثر حکومت قبول ہے تاکہ اسے آسانی سے ناکام ثابت کیا جا سکے۔ علی امین گنڈا پور اس تلخ حقیقت سے بظاہر بخوبی واقف ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی کو ہمت ہے تو ان کی حکومت گرا کر دکھائے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ یہ بات کارکردگی یا عوامی حمایت کی بنیاد پر نہیں کہہ رہے۔ یہ صورتحال خیبرپختونخوا کے عوام کیلئے تشویش ناک ہے کیونکہ صوبائی حکومت کی ترجیحات عوامی فلاح و بہبود کے بجائے سیاسی بقا اور بیانیے کی جنگ میں الجھی نظر آتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں