"RS" (space) message & send to 7575

انتظامی اکائیوں کی تشکیل

پاکستان کی آزادی کے 78 برس بعد بھی یہ احساس ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ ملک کے کچھ علاقے ترقی میں بہت آگے ہیں جبکہ دیگر شدید پسماندگی کا شکار ہیں۔ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقہ جات کی پسماندگی ‘ محرومی اور ان کے مسائل کا سبب یہ ہے کہ ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس عدم مساوات کی بنیادی وجہ ناقص گورننس اور انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی ہے۔ دنیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود صاحب نے اپنے ریسرچ پیپر میں اس مسئلے کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے ایک جامع حل پیش کیا ہے۔اور وہ ہے موجودہ بڑے صوبائی ڈھانچے کی جگہ متعدد چھوٹے اور مؤثر انتظامی اکائیوں کی تشکیل۔ یہ حقیقت ہے کہ ترقی اور عوامی فلاح کے خواب کی تعبیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انتظامی حدود میں بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں۔ فعال ریاست کا بنیادی مقصد اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود‘ ان کے حقوق کا تحفظ اور ایک پُرامن و منظم معاشرے کا قیام ہوتا ہے۔ ریاست کے افعال‘ جیسا کہ قانون و انصاف کا قیام‘ اقتصادی ترقی اور سماجی بہبود‘ سبھی اسی مرکزی مقصد کے گرد گھومتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ پاکستان میں ریاستی ادارے اور گورننس کا نظام فرسودہ ہو چکا ہے اور وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ اس ناکامی کا نتیجہ یہ ہے کہ شہریوں کی زندگی میں حقیقی بہتری نہیں آ سکی اور معاشرہ سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ طاقت اور وسائل کا ارتکاز اور غیر منصفانہ و غیر متوازن تقسیم ہے۔بہت بڑے انتظامی یونٹس کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتیں عوام سے دور ہو گئی ہیں اور فیصلے اوپر سے نیچے کی جانب مسلط کیے جاتے ہیں‘ جس میں عوامی نمائندگی اور ضروریات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں حکمرانی کا مروجہ نظام ان بنیادی فرائض کی انجام دہی میں غیر مؤثر ثابت ہوا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی میں حقیقی بہتری نہیں آ سکی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام کا فقدان رہا اور ریاستی ادارے کمزور ہوتے گئے۔ورلڈ بینک گروپ کی ایک رپورٹ میں بھی ناقص گورننس کو پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیاہے۔ ریاست کا یہ کمزور نظام ایک ایسی عمارت کی مانند ہے جس کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں‘ جہاں عوامی فلاح و بہبود کا ڈھانچہ بظاہر کھڑاہوا ہے لیکن در حقیقت اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ یہ کمزوری اس وقت مزید نمایاں ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر صحت‘ تعلیم اور غربت کے انڈیکس میں مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ یہ انڈیکس صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکمرانی کا نظام عام آدمی کو درکار سہولتیں اور مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق اور سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی تو یہ صورتحال ان کے مابین احساسِ محرومی اور عدم اعتماد پیدا کرتی ہے جو ملک کی مجموعی سلامتی اور استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔
موجودہ صوبائی ڈھانچے کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا بے ڈول اور دیو ہیکل حجم ہے۔ کئی دہائیوں کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بڑے صوبے اچھی اور مؤثر حکمرانی کے لیے بالکل بھی قابلِ عمل نہیں۔ ان کا حجم نہ صرف انتظامی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو بھی ناممکن بنا دیتا ہے۔ لاہور‘ کراچی اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں وسائل کا ارتکاز ہوتا ہے‘ جبکہ دور دراز کے پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ میاں عامر محمود صاحب نے نئے صوبوں سے متعلق اپنے ریسرچ پیپر میں بجا طور پر اس کی نشاندہی کی ہے کہ اس عدم توازن کی وجہ سے لوگوں میں احساسِ محرومی پنپتا ہے اور سیاسی اور سماجی بے چینی کو جنم دیتا ہے۔اس کا واضح ثبوت نئے صوبوں کے لیے اٹھنے والے تاریخی اور سیاسی مطالبات ہیں۔ پنجاب میں جنوبی پنجاب کے سرائیکی اور بہاولپور صوبے کا مطالبہ‘ سندھ میں کراچی کے لیے علیحدہ انتظامی یونٹ کا مطالبہ اور خیبر پختونخوا میں ہزارہ اور سابقہ فاٹا کے لیے نئے صوبے بنانے کا مطالبہ اسی عدم اطمینان ہی کا نتیجہ ہے۔ یہ مطالبات صرف سیاسی نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے انتظامی‘ مالی اور سماجی ضروریات کارفرما ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے مسائل کو بڑے صوبائی ڈھانچے میں مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ میاں عامر محمود صاحب اپنے ریسرچ پیپر میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں مزید تاخیر ملک کی داخلی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے ایک جامع اور مؤثر حل یہ ہے کہ موجودہ صوبائی ڈھانچے کو چھوٹے اور زیادہ قابلِ انتظام یونٹس میں تقسیم کیا جائے۔ جب صوبے چھوٹے ہوں گے تو حکمرانی شہریوں کے قریب تر ہو گی‘ جس سے مسائل کا حل زیادہ تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کیا جا سکے گا۔ اس سے نہ صرف انتظامی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی بھی زیادہ آسانی سے ہو سکے گی۔ اس تبدیلی سے وسائل کی تقسیم بھی زیادہ منصفانہ اور پسماندہ علاقوں تک پہنچ سکے گی‘ جس سے علاقائی عدم توازن کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ایک عام خیال جو نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے پایا جاتا ہے ‘یہ ہے کہ اس سے ملک پر مالی بوجھ بڑھے گا‘ تاہم نئے صوبوں سے متعلق مذکورہ ریسرچ پیپر میں اس مغالطے کو دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے اور یہ وضاحت کی گئی ہے کہ نئے صوبے مالی طور پر قابلِ عمل ہوں گے۔ انہیں اپنے علیحدہ بجٹ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ موجودہ صوبوں کے بجٹ کو ہی نئے صوبوں میں تقسیم کریں گے۔ اس طرح کوئی نیا مالی بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ وسائل کی تقسیم زیادہ مؤثر انداز میں ہو گی۔ اس کے علاوہ چھوٹی انتظامی اکائیوں میں اخراجات کی شفافیت اور احتساب کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے‘ جس سے مالی بدعنوانی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
مگر نئے صوبے بنانا کافی نہیں ‘ یہ ایک جامع حل کا صرف پہلا قدم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منتخب اور بااختیار مقامی حکومتوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ مقامی حکومتیں شہریوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کی سب سے بہترین اکائی ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اکثر مقامی حکومتوں کے دائرہِ کار میں مداخلت کرتی ہیں جبکہ مقامی حکومتوں کی طرف سے صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک مؤثر نظام کے لیے صوبائی اور مقامی حکومتوں کے کردار اور دائرہ کار کو واضح طور پر طے ہونا چاہیے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے اختیارات کا احترام کریں۔ چھوٹے صوبے اور بااختیار مقامی حکومتیں ‘دونوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں شہریوں کی بہترین فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکیں۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ پاکستان کو ایک مؤثر اور فعال ریاست بننے کے لیے اپنی گورننس کو نئے سرے سے منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا پہلا اور سب سے اہم قدم موجودہ صوبائی ڈھانچے کو نئے اور چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرنا ہونا چاہیے۔ یہ دلیل تاریخ‘ سیاسی حقائق اور انتظامی ضروریات پر مبنی ہے۔ اس تبدیلی سے نہ صرف انتظامی کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ لوگوں میں احساس ِملکیت بڑھے گا اور قومی اتحاد بھی مضبوط ہو گا۔ مذکورہ گزارشات پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی 78سالہ تاریخ کی ناکامیوں سے پیچھا چھڑا کر روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ گورننس کی اصلاح میں مزید تاخیر قومی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے‘ لہٰذا اس معاملے میں فوری اور سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اس بات کی گہرائی اور اہمیت کو سمجھنا وقت کا تقاضا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں