جب کوئی فرد یا قوم کامیابی کی بلندیوں کو چھوتی ہے تو ہر کوئی اس کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ناکامی کے وقت ساتھ چھوڑ جانے والے دوست اور رشتے دار بھی کامیابی کی چمک دیکھ کر دوبارہ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا انسانی رویہ ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے مگر تاریخ میں ایسے واقعات بہت کم ملتے ہیں جب ایک کامیاب اور طاقتور قوم اپنی کامیابی کو صرف اپنے تک محدود نہ رکھے بلکہ دوسری اقوام کا ہاتھ تھام کر انہیں بھی کامیاب بنانے کی کوشش کرے۔ یہ وہ نایاب رویہ ہے جسے ہم آج کے دور میں چین کی پالیسیوں میں دیکھ رہے ہیں۔ بلاشبہ دنیا چین کو ابھرتی ہوئی سپر پاور کے طور پر دیکھتی ہے۔ چین مشترکہ ترقی کا ماڈل پیش کرتا ہے۔ صدر شی جن پنگ کے اس تصور کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ دنیا کی حقیقی خوشحالی اور امن صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام اقوام ایک ساتھ ترقی کریں۔چین کا مشترکہ ترقی کا تصور صرف نظریاتی نہیں بلکہ اس کے عملی مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے بڑے منصوبے اس کی واضح مثال ہیں۔ ان منصوبوں کے تحت چین نے ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔ ان میں سڑکیں‘ ریلوے لائنیں‘ بندرگاہیں اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کا مقصد صرف چین کے تجارتی راستوں کو وسعت دینا نہیں بلکہ ان ممالک کی معیشتوں کو مضبوط کرنا بھی ہے۔
پاکستان کے تناظر میں چین کی مشترکہ ترقی کی سوچ کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری اس کی بہترین مثال ہے۔ سی پیک صرف ایک سڑک یا بجلی گھروں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل مدتی اور سٹرٹیجک شراکت کا عکاس ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں توانائی کے منصوبے مکمل کیے گئے جس سے توانائی کا بحران کم کرنے میں مدد ملی۔ سڑکوں اور موٹرویز کے جال بچھائے گئے‘ جس سے ملک میں سفر اور تجارت آسان ہوئی۔ گوادر کی بندرگاہ کو جدید بنایا گیا جو پاکستان کو عالمی تجارت کے ایک اہم مرکز میں تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ تمام منصوبے ملک عزیز کی معاشی ترقی کیلئے سنگِ میل ثابت ہو رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ چین نے ان منصوبوں کو صرف قرضوں کے بوجھ کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ اس نے مقامی آبادی کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کیے‘ پاکستانی انجینئرز اور ماہرین کو تربیت دی اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینے میں مدد کی۔ چینی قیادت کا یہ بیان کہ ''چین پاکستان کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے عوام کیلئے پسند کرتا ہے‘‘ محض ایک سفارتی جملہ نہیں بلکہ اس میں گہری فکری اور عملی حکمت پوشیدہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ چین اپنی ترقی اور خوشحالی کیلئے جن اصولوں اور حکمت عملیوں پر کاربند ہے‘ وہی اصول اور حکمت عملی وہ اپنے دوست ملک پاکستان کے ساتھ بھی بانٹ رہا ہے۔
چین کی مشترکہ ترقی کا ویژن صرف دو طرفہ تعلقات تک محدود نہیں بلکہ اس نے کثیرجہتی فورمز میں بھی نئی روح پھونکی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم‘ جو گلوبل ساؤتھ کے اتحاد کی علامت بن چکی ہے‘ کا حالیہ سربراہی اجلاس تمام رکن ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لاتا ہے تاکہ وہ مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔ صدر شی جن پنگ کا یہ نظریہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے رکن ممالک آپس میں اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں‘ مشترکہ تعاون میں نئی روح پھونک سکتے ہیں اور ایک ایسے عالمی نظام کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو صرف سکیورٹی پر نہیں بلکہ مشترکہ خوشحالی اور ترقی پر بھی مبنی ہو۔ ان کے الفاظ میں شنگھائی تعاون تنظیم بین الاقوامی تعلقات کی ایک نئی قسم اور انسانیت کیلئے مشترکہ مستقبل کی حامل کمیونٹی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یہ ویژن ظاہر کرتا ہے کہ چین اب علاقائی سلامتی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی معاشی ترقی کو بھی اپنے اہم ترین اہداف میں شامل کر چکا ہے اور وہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر ایک بہتر اور مستحکم مستقبل کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے نتیجہ خیز ملاقاتیں کیں اور علاقائی مسائل پر پاکستان کے مؤقف کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اس موقع پر خطاب میں انہوں نے دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو ایس سی او کے تمام رکن ممالک کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو بھی جرأت مندی اور مؤثر انداز میں بے نقاب کیا۔ اس اجلاس میں پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ملی جس کا ثبوت یہ ہے کہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں جعفر ایکسپریس اور خضدار حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے‘ جو علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی عکاس ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی شرکت سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی پیش رفت ممکن ہے؟ یہ قیاس آرائیاں فطری ہیں کہ ایس سی او اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہو گی یا نہیں۔ اس تناظر میں بعض حلقوں کا یہ مفروضہ کہ چین اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت پاکستان کیلئے خطرہ ہے‘ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگرچہ چین عالمی سطح پر بھارت سمیت کئی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے لیکن پاکستان اور چین کے تعلقات منفرد اور سٹرٹیجک نوعیت کے ہیں جو محض تجارت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ چین نے ہمیشہ ''آئرن برادر‘‘ کے طور پر پاکستان کی حمایت کی ہے اور پاکستان کی معاشی و سٹرٹیجک خود مختاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک طویل عرصے تک اس صورتحال کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ مستقبل میں اگر دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بہتری آتی ہے تو یہ چین جیسے اہم علاقائی اور طاقتور ملک کی معاونت سے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ چین کا مشترکہ ترقی کا تصور علاقائی استحکام اور تعاون پر مبنی ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کیلئے ایک مثبت محرک بن سکتا ہے۔
عالمی منظرنامے پر ایک نئی سوچ اور نئی امید کا چراغ روشن ہو رہا ہے اور یہ چین کے مشترکہ ترقی کے تصور سے وابستہ ہے۔ ایسے دور میں جب عالمی کشیدگی‘ مقابلہ بازی اور مفادات کا تصادم عروج پر ہے‘ یہ تصور محض معاشی ترقی کا ماڈل نہیں بلکہ امن‘ تعاون اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جو اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ کسی بھی قوم کی پائیدار کامیابی اس وقت ہی ممکن ہے جب اس کے ہمسایہ اور شراکت دار ممالک بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوں۔ اس تصور کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ دنیا میں ہر قوم کو آگے بڑھنے کا یکساں موقع ملنا چاہیے اور طاقتور ممالک پر لازم ہے کہ وہ کمزوروں کا ہاتھ تھام کر ان کی مدد کریں۔ یہ صدر شی جن پنگ کا وہ ویژن ہے جس کی تعبیر آج کئی ممالک کی ترقی کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے جو ہماری دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتا ہے۔
اس نئے عالمی ویژن کی عکاسی شنگھائی تعاون تنظیم اور اس کے متضاد نیٹو کے درمیان واضح فرق سے ہوتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسا اتحاد ہے جو تعاون‘ ترقی اور خوشحالی کی اقدار پر قائم ہے۔ اس کا فلسفہ باہمی عزت و احترام اور متوازن عالمی نظام کی تشکیل پر مبنی ہے‘ جہاں تمام ممالک کے مفادات کا تحفظ ہو۔ اس کے برعکس نیٹو اب بھی سرد جنگ کی سوچ کا عکاس ہے جو کہ امریکہ کے غلبے پر قائم ہے۔ یہ اتحاد اکثر جنگ‘ بدامنی اور کشیدگی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ نیٹو اپنے بوسیدہ نظریات کے باعث ماضی کا حصہ بن چکا۔ یوں یہ دونوں بلاک اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ ایک نئے‘ متوازن اور مربوط عالمی نظام کا مقابلہ سرد جنگ کی باقیات سے ہو رہا ہے۔