"RS" (space) message & send to 7575

بھارت دوبارہ جارحیت کی راہ پر

عسکری میدان میں جھڑپوں اور جنگوں کے دوران حقائق کو مسخ کرنے اور دشمن کے نقصانات میں مبالغہ آرائی کو نفسیاتی حربے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اپنے عوام کو جنگی برتری کی تسکین دینا اور حریف کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانا ہوتا ہے‘ تاہم ذمہ دار قیادتیں اس دعویٰ سازی میں بھی توازن برقرار رکھتی ہیں۔ وہ مبالغے کی حد کو پار کرنے سے گریز کرتی ہیں تاکہ ان کا بیان غیرجانبدار عالمی حلقوں کے سامنے قابلِ قبول رہے اور انہیں سفارتی محاذ پر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس مسلمہ اصول کی روشنی میں بھارتی قیادت کے حالیہ اشتعال انگیز بیانات خصوصاً ان کے عسکری حکام کے بے بنیاد دعوے ان کی اپنی صداقت پر سوالیہ نشان ہیں۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے ایک اور جھوٹا دعویٰ کر ڈالا کہ آپریشن سندور میں انہوں نے پاکستان کے دس جنگی طیارے تباہ کر دیے تھے۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جو مبالغہ آرائی کی تمام حدود کو پار کر جاتا ہے۔ اگر بھارت نے واقعی پاکستان کو اتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا تو وہ کئی ماہ تک خاموش کیوں رہا؟ ایک کامیاب فوجی آپریشن کا فوری اعلان کیا جاتا ہے تاکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یہ جھوٹا دعویٰ دراصل بھارتی قیادت کے اندرونی دباؤ اور آپریشن سندور کے نتیجے میں ملنے والی ذلت کے داغ کو مٹانے کی ایک کمزور کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح بھارتی آرمی چیف جنرل اوپیندر دویدی کی طرف سے آپریشن سندور 2 کی دھمکی اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا یہ دعویٰ کہ پاکستان سرکریک کے قریب فوجی بنیادی ڈھانچے کی توسیع کر رہا ہے اور اس پر ''تاریخ اور جغرافیہ‘‘ بدل دینے والا فیصلہ کن ردعمل دیا جائے گا‘ واضح طور پر بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزی ہے۔ نریندر مودی نے ایک عوامی جلسے میں یہ کہہ کر مظلوم بننے کی کوشش کہ بھارت نے چھ مئی کو پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا مگر پاکستان نے اس کے عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ مودی نے کہا کہ پاکستان کے ان اقدامات پر وہ آگ میں جل رہے ہیں اور یہ کہ بدلہ لیے بغیر انہیں سکون نہ آئے گا۔ نریند رمودی کا عوامی جلسے میں یہ بیان ان کے جنگی جنون اور عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اس کا دوٹوک جواب دیا جا چکا ہے مگر ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت سرکریک کے معاملے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف جارحیت کا نیا محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہاں سرکریک کی جغرافیائی حیثیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ سر کریک پاکستان کے صوبہ سندھ اور بھارت کی ریاست گجرات کے درمیان پھیلی ہوئی ایک پتلی آبی پٹی ہے۔ یہ بظاہر تو رَن آف کچھ کا ایک معمولی دلدلی نالا ہے لیکن درحقیقت دونوں ممالک کیلئے انتہائی سٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تقریباً 96 کلومیٹر لمبی پٹی بحیرۂ عرب کے کنارے جا کر ختم ہوتی ہے۔ چونکہ یہ علاقہ دلدلی ہے‘ اس میں پانی کا بہاؤ‘ مٹی کا جماؤ اور زمین کا نقشہ وقت کے ساتھ قدرتی طور پر بدلتا رہتا ہے جو اس سرحدی تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت انگریزوں نے اس علاقے کو زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن بعد میں یہ پٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک باریک سرحدی لکیر بن گئی۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ برطانوی سروے کے مطابق سرحد کریک کے مشرقی کنارے سے کھینچی جانی چاہیے جبکہ بھارت اپنے مؤقف کو ''تھل ویگ لائن‘‘ کے اصول پر مبنی قرار دیتا ہے جس کے تحت سرحد آبی راستے کے درمیان سے گزرنی چاہیے۔ اس معمولی جغرافیائی فرق کی وجہ سے سمندری حدود کی حد بندی‘ ماہی گیری کے حقوق اور تیل و گیس کے ممکنہ ذخائر سمیت کئی بڑے اقتصادی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ جس ملک کو سر کریک پر حق ملتا ہے‘ اسے سمندر میں اپنی اقتصادی زون کو توسیع دینے کا موقع ملتا ہے‘ جہاں سے اربوں روپے کے وسائل حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنازع ماہی گیری اور ساحلی تحفظ سے لے کر قدرتی وسائل تک کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی سطح پر ایسے تنازعات کے حل کیلئے اگرچہ اقوامِ متحدہ کے قانونِ سمندر (یو این سی ایل او ایس) سے رہنمائی لی جا سکتی ہے‘ لیکن پاکستان اور بھارت دونوں نے اسے ''دو طرفہ تنازع‘‘ تسلیم کیا ہے یعنی اسے براہِ راست بات چیت سے حل کرنا ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے کئی بار مذاکرات ہوئے مگر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ اب بھارت ایک بار پھر اس دیرینہ معاملے کی آڑ میں جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مئی کی جھڑپ میں شدید ذلت سمیٹنے کے بعد اگلے چند برسوں میں بھارت کے لیے پاکستان کے خلاف کسی بڑی جارحیت کی ہمت کرنا آسان نہیں رہا ہے‘ لیکن مودی حکومت کی داخلی سیاسی مجبوریاں اسے جارحانہ راستہ اختیار کرنے پر ابھار رہی ہیں۔ اس جارحیت کے تین بڑے محرکات ہو سکتے ہیں؛ اول یہ کہ مودی پر مئی کی فوجی ناکامی کے داغ کو مٹانے کا شدید دباؤ ہے۔ یہ شکست ان کے قوم پرست اور مضبوط رہنما ہونے کے امیج کو مجروح کر چکی ہے اور اس ذلت کو مٹانے کیلئے مودی حکومت ایک بار پھر پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کا خطرہ مول لے سکتی ہے۔ دوم‘ نومبر میں بھارتی ریاست بہار کا ودھان سبھا (قانون ساز اسمبلی) الیکشن مودی اور بی جے پی کیلئے انتہائی اہم ہے۔ آپریشن سندور میں پاکستان سے منہ کی کھانے کے بعد بہار میں ممکنہ شکست سے بچنے کیلئے نریندر مودی ایک بار پھر ''قومی جذبات‘‘ کو بھڑکا کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ تیسرا محرک یہ ہے کہ چونکہ نریندر مودی ماضی میں کشمیر‘ سندھ طاس معاہدے اور دیگر تنازعات سے کئی بار انتخابی فوائد حاصل کر چکے ہیں‘ اس لیے اب انہیں ووٹ سمیٹنے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے ایک نیا اور تازہ محاذ درکار ہے۔ اسی لیے اب سر کریک کو جواز بنا کر جارحیت کا خطرہ بڑھایا جا رہا ہے۔
بھارتی قیادت کے حالیہ جارحانہ بیانات اور عسکری دھمکیاں صرف شیخی نہیں ہیں‘ یہ اہم اور حساس معاملہ ہے جس کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ ماضی میں جب بھی بھارت کو فوجی یا سفارتی محاذ پر پیچھے ہٹنا پڑا ہے تو وہ فوراً ایسے دعوے یا دھمکیاں نہیں دیتا تھا۔ اس لیے اب اچانک بھارت کا یہ ''بڑھا ہوا اعتماد‘‘ شک پیدا کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی وجہ ضرور ہے۔ ہمیں اس بارے ضرور غور کرنا چاہیے کہ کیا بھارت کو اپنے بیرونی دوستوں سے خفیہ معلومات‘ مدد یا یقین دہانی ملی ہے؟ اس امکان کو نظرانداز کرنا بڑی بھول ہو گی۔ اس صورتحال میں بڑی سمجھداری اور ٹھنڈے دماغ سے کام لینا ہو گا۔ ہماری نئی حکمت عملی بھی معرکۂ حق کی طرح ذمہ دارانہ ہونی چاہیے تاکہ دنیا کو واضح پیغام ملے کہ ہمارا امن کا ارادہ ہماری کمزوری نہیں ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر رابطے مضبوط کرنے چاہئیں‘ لیکن ساتھ ہی جوہری ہتھیاروں کی دھمکیوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ جب روایتی اور جدید جنگ‘ جیسے سائبر‘ الیکٹرانک اور میزائل سسٹم میں پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہے اور معرکۂ حق میں بھی ہماری برتری ثابت ہو چکی تو اب ہمیں اپنی فوجی طاقت کے ساتھ بہترین سفارتکاری کا استعمال کرنا ہے تاکہ بھارت کی سازشوں اور چالوں پر نظر رکھی جا سکے اور دنیا کو ہماری ذمہ دارانہ قوت کا ادراک ہو سکے۔
معرکۂ حق کے بعد جہاں پاکستان عالمی سطح پر زیادہ باوقار اور دفاعی طور پر ثابت قدم کھڑا ہے‘ وہیں بھارت کو آپریشن سندور میں ناکامی کے بعد سیاسی اور عسکری سبکی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی فوجی اور انٹیلی جنس مشینری کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کیا نریندر مودی محض بہار کے الیکشن میں ممکنہ ناکامی سے بچنے اور اپنے قومی ایجنڈے کو زندہ رکھنے کیلئے ایک اور یقینی ذلت اٹھانے کی جسارت کریں گے‘ یا وہ اپنی داخلی سیاسی بقا کی خاطر نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن و استحکام کو داؤ پر لگائیں گے؟ مودی کی یہ جارحانہ روش خطے کو ایک ایسے غیرمتوقع اور خطرناک موڑ پر لے آئی ہے جہاں کسی بھی وقت ایک معمولی تنازع بڑے تصادم کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں