پاک افغان سرحد پر کشیدگی کو معمول کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے مگر اس بات کا گمان کم ہی تھا کہ دو برادر اسلامی و ہمسایہ ملکوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپ کی نوبت آ جائے گی۔ یہاں تک کہ جب افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی اقتدار میں تھے اور بھارت کے درجنوں قونصل خانوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو پاکستان میں دراندازی کے مواقع حاصل تھے تب بھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے جو اَب ہو چکے ہیں۔ حالیہ پاک افغان کشیدگی کو سمجھنے کیلئے تین سال قبل کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
اگست 2021 ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد دیگر پاکستانیوں کی طرح ہم بھی خوش تھے کہ طویل خانہ جنگی کا خاتمہ ہونے سے خطے میں امن کا دور شروع ہو گا‘ لیکن ہماری توقعات کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اور اس وقت کی عسکری قیادت میں شامل دو بڑے نام ٹی ٹی پی کو پاکستان لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ جب خان صاحب ٹی ٹی پی کی واپسی کو اپنی اہم کامیابی کے طور پر پیش کرتے توہماری حیرت کی انتہا نہ رہتی۔ کئی تشنہ سوالات دماغ کو جکڑ لیتے‘ کئی منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے کہ جس گروہ کے کاندھوں پر ہزاروں معصوم لوگوں کی جانوں کی ذمہ داری عائد ہو کیا انہیں یکسر معاف کیسے کیا جا سکتا ہے؟ افغانستان سے امریکی انخلا سے چند برس پہلے تک پاکستان کو بھارت نواز افغان قیادت سے شدید قسم کے تحفظات تھے اور طالبان رجیم چینج سے یہ امید جاگی تھی کہ شاید اب ہمیں ایسا افغانستان دیکھنے کو ملے گا جہاں سے پاکستان مخالف سازشیں نہیں کی جائیں گی۔ اس وقت چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر تھی تو کسی نے یہ پوچھنے کی جرأت نہ کی کہ اس پالیسی کے آگے چل کر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔
ہماری طرح اکثر لوگ یہی سمجھتے رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ٹی ٹی پی پر بظاہر مہربانی کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آنے والی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے خان صاحب کی طالبان کی واپسی سے متعلق پالیسی کی حمایت بھی کی گئی لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب ٹی ٹی پی کی شرائط سامنے آئیں۔ مطلب یہ کہ ٹی ٹی پی واپسی بھی چاہتی تھی اور اپنی شرائط پر چاہتی تھی۔ ٹی ٹی پی کی شرائط کو یہاں بیان کی کرنے کی گنجائش نہیں‘ بس اتنا سمجھ لیں کہ وہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا انضمام سمیت ان علاقوں میں اپنی مرضی کے نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔ ظاہر ہے ریاست اتنی کمزور نہیں کہ شدت پسند گروہ کی ایسی شرائط کو تسلیم کیا جا سکتا۔ خان صاحب کی حکومت کیلئے بھی ان شرائط پر عمل کرنا آسان نہ تھا اور وہ ان پالیسی کو عملی شکل نہ دے پائے تھے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہو گئی۔ پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہو گئی اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کا مؤقف سامنے آ گیا کہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ یوں ٹی ٹی پی کی شرائط سے متعلق باب بند ہو گیا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کو جب یہ پیغام ملا کہ ان کی شرائط کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو پاکستان میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خیبرپختونخوا کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقے دہشت گردی کی اس نئی لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہونے لگے۔ ٹی ٹی پی کو خان صاحب کی طرف سے پاکستان واپس لانے کا محض اشارہ ملا تھا‘ ابھی کوئی حتمی فیصلہ یا وعدہ نہیں ہوا تھا مگر مسلح گروہ جیسے اشارے کے منتظر تھے ‘انہوں نے مزید انتظار کئے بغیر قبائلی علاقوں کا رخ کر لیا۔ معاملات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے افغانستان کی سرزمین پر مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علما کے وفد کو افغانستان بھیجا گیا تاکہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جا سکے‘ یہاں سے پاکستان کی خلوصِ نیت اور اس کے صبر و تحمل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ لیکن نہ صرف یہ کہ پاکستان کی اس پیشکش اور موقع کو ٹھکرا دیا گیا بلکہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والے امن کی کسی کوشش کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کا امن غارت ہو گیا‘ یہ گروہ پاک فوج پر حملے کرتے اور محفوظ پہاڑی علاقوں میں پناہ لے لیتے۔ اس دوران افغان قیادت سے ہر انداز سے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا مگر بے سود۔ الٹا ان مسلح گروہوں کی دیدہ دلیری کئی گنا بڑھ گئی کیونکہ انہیں افغانستان سے فنڈنگ سمیت ہر طرح کی حمایت میسر تھی۔
افغان قیادت کو کئی بار متنبہ کرنے کے باوجود جب پاکستان کے پاس کوئی آپشن باقی نہ بچا تو پاکستان نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس میں صرف شدت پسند عناصر کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ شدت پسندوں کے کئی ٹھکانے اور ہائی ویلیو ٹارگٹس کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ لیکن افغان فورسز نے اسے اپنے اوپر حملہ سمجھا اور اگلی رات یعنی ہفتہ اور اتوار کے درمیانی شب افغان فورسز نے شدت پسند عناصر کے ساتھ مل کر پاک فوج کی چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کر دی جس میں ہمارے دو درجن کے قریب جوان شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ظاہر ہے پاکستانی فورسز نے اس کا جواب دینا تھا اور اس بار جواب بھرپور اور روٹین سے اس قدر زیادہ تھا کہ افغان فورسز کی کئی پوسٹوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیے گئے۔
پاکستان کے حملے کے بعد بظاہر افغان فورسز نے پسپائی اختیار کی‘ سرنڈر کیا کیونکہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا‘ نہ ہی افغانستان فضائی سطح پر جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ جہاں تک ہم افغانوں کے مزاج اور نفسیات سے واقف ہیں وہ اس وقت بظاہر پسپا ہوئے ہیں کہ ان کے پاس مقابلے کیلئے نہ وسائل ہیں نہ فورس ہے۔ افغان گوریلا جنگ کے ماہر ہیں اس لیے اپنے ماضی کی طرح وہ اس جنگ کو طول دیں گے جیسا کہ سوویت یونین اور امریکہ کے ساتھ کیا۔ اگر افغان فورسز اس جھڑپ کو جواز بنا کر کشیدگی کو طول دیتی ہیں تو نقصان دونوں ملکوں کا ہو گا۔ لہٰذا سفارتی اور سیاسی راستہ نکالنا ہی دانشمندی ہے۔ ایسی شخصیات کو سامنے لا کر اور ان کی خدمات حاصل کر کے حالیہ کشیدگی سمیت دیگر مسائل کا دیرپا حل نکالا جا سکتا ہے جو شخصیات دونوں ممالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
افغان قیادت کے لیے یہ وقت کڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ وہ ایک گروہ کو بچانے کی خاطر اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا افغان قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نظرانداز کر کے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے؟ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی جانب سے اس سفارتی نزاکت کو نظرانداز کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ خاص طور پر جب بھارتی سرزمین پر کھڑے ہو کر کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا جائے‘ یہ اقدام پاکستان کے قومی بیانیے کے خلاف شدید نوعیت کی محاذ آرائی ہے۔ یہی کام ملا یعقوب نے کیا ہوتا تو تعجب نہ ہوتا کیونکہ ملایعقوب پاکستان مخالف اپنے سخت گیر مؤقف سے جانے جاتے ہیں‘ وزیر خارجہ کی جانب سے اس رویے کا اظہار قابلِ تشویش ہے۔ اگرچہ افغانستان کی قیادت بھارت سمیت کسی بھی ملک سے تعلقات استوار کرنے کا حق رکھتی ہے‘ مگر پاکستان کے بیانیے کے خلاف کھڑے ہونے کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے؟