پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں خطرناک اضافے‘ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں واپسی اور حالیہ سرحدی کشیدگی نے صورتحال کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ خطے میں بڑے تصادم کا خدشہ سر اٹھانے لگا ہے۔ ایسے میں یہ سوالات اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ اس کشیدگی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ افغانستان دہشت گردی کے ٹھکانوں کو کیوں تحفظ فراہم کر رہا ہے؟ پاکستان کی قیمت پر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ سب سے اہم یہ کہ طالبان رجیم کیا واقعی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے اور طالبان کے حقیقی مؤقف کو سمجھنے کی غرض سے ہم نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان اور عبوری حکومت کے کلیدی ابلاغی چہرے‘ ذبیح اللہ مجاہد کیساتھ ٹیلی فونک گفتگو کی۔ اُنکے جوابات موجودہ بحران کے سفارتی پہلوؤں کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے طویل عرصہ گمنامی اور زیرِ زمین رہ کر طالبان کے بیانیے کو دنیا تک پہنچایا۔ وہ جنوری 2007ء میں افغان طالبان کے سرکاری ترجمان کے طور پر منظر عام پر آئے‘ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کی موجودگی کے باعث طالبان پر سخت دباؤ تھا۔ وہ اس مشکل صورتحال میں بھی طالبان کی جنگی کارروائیوں اور مؤقف کو مسلسل عالمی سطح پر پہنچاتے رہے۔ افغانستان سمیت خطے کے ابلاغی حلقوں میں انہیں ان کی پیشہ ورانہ خوبیوں کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کی سب سے نمایاں خوبیاں ان کی آسان رسائی‘ بروقت جواب دہی اور مشکل سوالات پر بھی تحمل سے اپنا مؤقف پیش کرنا ہے۔ ان خصوصیات نے انہیں عالمی میڈیا کیلئے طالبان کے نظریات اور بیانات کی تصدیق کا قابلِ اعتماد ذریعہ بنا دیا۔ اگست 2021ء میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ پہلی بار منظر عام پر آئے اور اب براہِ راست حکومتی ترجمانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد سے ہونے والی گفتگو چونکہ سوال جواب پر مبنی تھی‘ اس لیے قارئین کی سہولت کیلئے اسے تین مرکزی موضوعات کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔ پاک افغان کشیدگی کی جڑ میں سب سے بڑا مسئلہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی افغان سرزمین پر موجودگی اور سرگرمیاں ہیں۔ اس حوالے سے کیے گئے سوالات اور مجاہد کے جوابات نے طالبان کے مؤقف کو اجاگر کیا۔ ہم نے ذبیح اللہ مجاہد سے استفسار کیا کہ اگر پاکستان حافظ گل بہادر اور مفتی نور ولی جیسے ہائی پروفائل ٹی ٹی پی رہنماؤں کی افغانستان میں موجودگی کے ٹھوس ثبوت فراہم کرتا ہے تو کیا افغان حکومت انہیں پاکستان کے حوالے کرے گی؟ ذبیح اللہ مجاہد نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا: ''اس مقصد کیلئے ہم باقاعدہ میکانزم بنانے کیلئے تیار ہیں اور انٹیلی جنس شیئرنگ پر پاکستان کیساتھ ہر ممکن تعاون کر سکتے ہیں مگر کسی صورت جنگ کی طرف نہیں جانا چاہتے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ دہشت گردی میں ملوث کوئی بھی عنصر‘ جو ہماری سرزمین استعمال کرے یا پاکستان میں پناہ گزین ہونے کے بعد اس کا ارتکاب کرے اور افغانستان میں پناہ لینے کی کوشش کرے‘ ایسے عناصر کو ہم پاکستان کے حوالے کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں‘ بشرطیکہ ثبوت فراہم کیے جائیں‘‘۔ہم نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے پوچھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے پانچ سے چھ ہزار لوگوں کو پاکستان کے حوالے کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ ذبیح اللہ مجاہد کا جواب اس معاملے کی ایک اور پرت کھولتا ہے۔ انکا مؤقف تھا کہ مذکورہ رپورٹ میں بتائی گئی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جنہیں افغان حکومت مہاجرین سمجھتی ہے۔ انہوں نے استنبول مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ''ہم نے متعدد بار یہ پیشکش کی کہ جو پانچ یا چھ ہزار لوگ ہیں وہ ہم پاکستان کے حوالے کر دیتے ہیں مگر ہمیں کوئی مثبت ردعمل نہ ملا‘ مطلب یہ کہ پاکستان انہیں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں‘‘۔ جب ہم نے استنبول مذاکرات میں افغان وفد کی بظاہر ناتجربہ کاری پر استفسار کیا تو مجاہد نے یقین دہانی کرائی کہ چھ نومبر کو ہونے والی اگلی مذاکراتی نشست میں افغانستان کا اعلیٰ سطحی وفد شریک ہو گا تاکہ اسے بامقصد اور بامعنی بنایا جا سکے۔
کشیدگی کے دوران پاکستان کو خدشات تھے کہ افغانستان پاکستان کی قیمت پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو بڑھا رہا ہے۔ اس حساس معاملے پر مجاہد کا مؤقف یہ تھا کہ افغانستان کبھی بھی پاکستان کی قیمت پر بھارت کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ بھارت کے ساتھ افغانستان کے تعلقات صرف سفارتی اور تجارتی نوعیت کے ہیں‘ جن کا مقصد افغانستان کی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی خصوصی اہمیت کو تسلیم کیا اور کہا کہ پاکستان کی اہمیت دوسرے تمام پڑوسیوں سے زیادہ ہے کیونکہ پاکستان ہمارے ثقافت و تمدن کے قریب ہے۔ شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ کا واضح بیان موجود ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جائے کیونکہ دونوں ممالک کا عوامی سطح پر محبت اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے۔
ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر ہمیں توقع تھی کہ ذبیح اللہ مجاہد افغان حکومت کے سخت گیر روایتی مؤقف کا اعادہ کریں گے مگر اُن کا جواب غیرمتوقع حد تک لچکدار اور مفاہمانہ تھا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن گڑا مردہ ہے‘ اسے دوبارہ اکھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ طالبان اسے ایشو نہیں بنانا چاہتے۔ دوسرا فریق بھی اسے تنازع نہ بنائے۔ جب ہمارا امن معاہدہ ہو جائے گا تو اچھے ماحول میں اگر کسی نے ڈیورنڈ لائن کی بات کرنی ہے تو کی جا سکتی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ سرحدی بندش اور افغان مہاجرین کی واپسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف افغان مہاجرین کو نکالا جا رہا ہے اور دوسری طرف بارڈر کی بندش بھی برقرار ہے۔ انکا کہنا تھا کہ راستے اور بارڈر ہم نے نہیں بلکہ دوسرے فریق نے بند کیے ہیں۔ افغانستان تو چاہتا ہے کہ آج ہی تمام سرحدی راستے کھول دیے جائیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا کہ پاکستان دہائیوں تک افغان مہاجرین کا میزبان ملک رہا ہے اور وہ اس احسان کو فراموش نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے طالبان کی سنجیدگی کی یقین دہانی کرائی کہ سپن بولدک میں جب ایک پاکستانی خاندان غلطی سے افغان طالبان کے مارٹر گولے کا نشانہ بنا‘ جس میں کچھ پاکستانی شہری شہید بھی ہوئے تو افغان طالبان کے سپریم لیڈر مُلا ہیبت اللہ اخونزادہ نے نہ صرف اس واقعے میں ملوث افراد کو جیل میں ڈالا‘ جو آج تک جیل میں ہیں بلکہ شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں کے لواحقین کو فی کس 25لاکھ روپے دیت بھی ادا کی۔ یہ بتاتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں‘ جواب میں ہم بھی پیار اور محبت چاہتے ہیں تاکہ باہمی امن اور بھائی چارے سے رہ سکیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے دوران پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان بہت بہتر تعلقات تھے لیکن اُن کے جانے کے بعد حالات بتدریج بگڑتے گئے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے ساتھ مفصل گفتگو میں کہیں ایسا محسوس نہیں ہوا کہ انہوں نے نفرت پر مبنی کوئی بات کی ہو یا اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہو۔ ان کی گفتگو کا حاصل یہ رہا کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئے گی۔ ذبیح اللہ مجاہد کی لفظی باتیں اپنی جگہ مگر پاکستان کے تحفظات بھی درست ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا براہِ راست تعلق افغانستان سے ہے جس کے شواہد موجود ہیں‘ دوطرفہ تعاون اور مشترکہ لائحہ عمل ہی ایسا راستہ ہے جس سے دیرپا امن قائم رہ سکتا ہے۔