سیاست کی راہ گزر پر مشکلات کا سامنا کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مشکلات ہر سیاسی جماعت کے سفر کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہیں مگر اصل کمال اور حکمتِ عملی یہ ہے کہ ان مصائب کا سامنا کس تدبیر اور حکمت سے کیا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہی جماعتیں کٹھن ادوار سے سرخرو ہو کر نکلتی ہیں جو حسنِ تدبیر اور مصالحانہ رویے کو اپنا شعار بناتی ہیں۔ اگر ہم ماضی قریب کے اوراق پلٹیں اور پرویز مشرف کے دور کا جائزہ لیں تو (ق) لیگ کو چھوڑ کر تقریباً ہر بڑی سیاسی قوت کے لیے وہ آزمائش کا دور تھا۔ مسلم لیگ (ن) نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئی بلکہ شریف خاندان کو جلا وطنی کی سختیاں بھی جھیلنا پڑیں۔ اس وقت کے منصوبہ سازوں کو گمان تھا کہ ان کا اقتدار دائمی ہے مگر بڑی سیاسی جماعتوں کی فہم و فراست نے لندن میں میثاقِ جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ یہ معاہدہ محض ایک سیاسی دستاویز نہیں تھا بلکہ ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا جس نے سیاسی قیادت کی ملک واپسی کی راہ ہموار کی اور بالآخر جمہوریت کی بحالی کا سبب بنا۔ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی بھی اسی نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہوئی تھی‘ مگر مشکل کا یہ مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مشکل کے مراحل کو گزارا کیسے جاتا ہے؟ ایسے نازک ادوار میں غلطیوں کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جب آندھی کی ہوا آپ کے مخالف سمت چل رہی ہو تو سینہ تان کر طوفان سے ٹکرانے کے بجائے‘ آندھی کے تھمنے کا انتظار کیا جائے۔ عین طوفان کے وقت سینہ سپر ہونا عقل مندی نہیں بلکہ جذباتیت کہلاتا ہے۔ بانی تحریک انصاف عمران خان نامساعد حالات میں بھی ڈٹ جانے اور اداروں سے ٹکراؤ کو اپنی سیاست کا مرکزو محور بنائے ہوئے ہیں۔ وہ تصادم اور محاذ آرائی کو ہی کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں چونکہ خان صاحب پچھلے دو سال سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لہٰذا ایسے وقت میں بنیادی ذمہ داری متبادل قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پارٹی کو بحران سے نکالے۔ حیرت ہے پی ٹی آئی کی متبادل قیادت اس مشکل مرحلے سے نکلنے کے لیے مفاہمانہ رویہ اپنانے کے بجائے‘ بظاہر خان صاحب کے نقش قدم پر چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے مواقع پر سیاسی بصیرت کا تقاضا یہ تھا کہ متبادل قیادت مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کرتی جیسا کہ ماضی میں دوسری جماعتوں نے کیا۔ مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ متبادل قیادت کوئی بھی فیصلہ خان صاحب کی مرضی کے بغیر لینے کو تیار نہیں ہے۔ اگر مرکزی قیادت تصادم پر مصر ہے تو پوری پارٹی میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نظر نہیں آتا جو صلح جوئی یا مفاہمت کی بات کرنے کی جرأت کرے۔
پی ٹی آئی کے پاس سیاسی بحران ختم کرنے کے کئی مواقع تھے۔ ایک بہترین موقع اس وقت آیا جب اسے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا اختیار ملا۔ صوبائی حکومت کی آڑ میں وفاق کے ساتھ رنجشیں اور تناؤ کم کر کے پارٹی کو بحران سے نکالا جا سکتا تھا‘ لیکن جب وزارتِ اعلیٰ کے لیے علی امین گنڈا پور کا نام سامنے آیا تو یہ واضح ہو گیا کہ خان صاحب تصادم کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بعد ازاں جب پارٹی کے اندرونی اختلافات کی بنا پر علی امین گنڈا پور کو ہٹایا گیا تو یہ دوسرا موقع تھا کہ صوبائی کارڈ کو استعمال کر کے پارٹی اور خان صاحب کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتیں۔ مگر خان صاحب ایک بار پھر بادِ مخالف کے سامنے ڈٹ گئے اور وزارتِ اعلیٰ کے لیے سہیل آفریدی کا نام پیش کر دیا۔ اب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سختی اور جذباتیت میں اپنے پیشرو سے بھی آگے دکھائی دیتے ہیں‘ کابینہ میں بھی اپنے ہم مزاج افراد کو شامل کر چکے ہیں۔ کور کمانڈر پشاور سے ملاقات کو غلط رنگ دینے‘ سیاسی بیانیے سے جوڑنے اور سیاسی فوائد کشید کرنے کی کوششوں کا مقصد کیا ہے؟ خیبرپختونخوا کو اس وقت دہشت گردی کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے‘ جہاں افغان سرزمین سے آئے روز شدت پسند عناصر مذموم کارروائیاں کر رہے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں وزیراعلیٰ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وفاق کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کے بھی مخالف سمت میں کھڑے ہوں؟ یہ رویہ صوبے کے امن و امان اور گورننس کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں پر جب مشکل وقت آیا تو انہوں نے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ مصالحت اور مفاہمت کی وجہ سے مشکل وقت گزر گیا‘ اس کے برعکس پی ٹی آئی کا مجموعی رویہ تصادم اور محاذ آرائی کا ہے۔
خان صاحب کے پیش نظر شاید یہ ہے کہ وہ اس سخت گیر بیانیے پر قائم رہ کر اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ تر ووٹر نوجوان ہے اور وہ سخت مؤقف کو پسند کرتا ہے۔ خان صاحب کے سخت گیر مؤقف کو پسند کرنے والوں کی تعداد محدود ہے‘ ایسے میں گورننس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی تقریباً پچھلے بارہ برسوں سے حکمرانی کر رہی ہے۔ دعوؤں کے برعکس زمینی حقائق ہر شعبے کی زبوں حالی کی داستان سناتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم پنجاب اور سندھ کو دیکھیں تو ان کے درمیان گورننس میں ایک طرح سے مسابقت چل رہی ہے۔ صوبوں میں یہی ہونا چاہیے تاکہ مقابلے سے عوام کو فائدہ ہو اور اگلے الیکشن میں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کارکردگی کی بنیاد پر کریں۔ اس تناظر میں جب خیبرپختونخوا کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید مایوسی ہوتی ہے۔ عوامی منصوبوں کو بھی پارٹی معاملات کی نذر کر دیا گیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پارٹی معاملات کو عوامی معاملات پر ترجیح دی جا رہی ہے۔
مفاہمت اور تصادم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پی ٹی آئی میں جو ذہن یہ سوچ رہے ہیں کہ تصادم کا راستہ اختیار کر کے وہ اپنے ووٹ بینک کو بچا رہے ہیں‘ دراصل وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اگلے الیکشن کے قریب عوامی مباحث کا بنیادی موضوع سیاسی جماعتوں کی عملی کارکردگی ہو گی۔ ہم نے ماضی قریب میں اس کا مشاہدہ کیا جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی وفاق میں اتحادی حکومت تھی اور توانائی بحران شدت اختیار کر گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے توانائی بحران کے خاتمے کو اپنی انتخابی مہم کا اہم حصہ بنایا اور نتیجتاً الیکشن جیت گئی۔ تدبیر یا تصادم؟ پی ٹی آئی کو اب فیصلہ کرنا ہو گا۔ صوبے کے عوام اب کارکردگی کے حوالے سے سوال کرنے لگے ہیں‘ وقت کے ساتھ ساتھ سوال اٹھانے والوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ الیکشن قریب آتے ہی کارکردگی ہی بنیادی سوال اور موضوعِ بحث ہو گا۔ پی ٹی آئی قیادت کے پاس اس کڑے سوال کا کیا جواب ہے؟ کیا یہ کہہ کر عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی تھی؟ ہرگز نہیں! عوام کو جذباتی بیانیے سے زیادہ روزمرہ کے مسائل کا حل چاہیے۔ اگر قیادت عوام کے اصل مسائل سے صرفِ نظر کر کے صرف تصادم کی سیاست کرتی رہی تو آنے والے وقت میں اسے عوامی احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہی وہ موقع ہو گا جب صرف بیانیہ نہیں بلکہ ٹھوس کارکردگی ہی ووٹر کا فیصلہ کرے گی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اقتدار کا حصول محض ایک مرحلہ ہے‘ اصل امتحان عوامی خدمت اور مؤثر گورننس ہے۔