"RKC" (space) message & send to 7575

کابل سے بہاولپور تک

ہم بہادر کسے سمجھتے ہیں۔ ہر کسی کی بہادری کی اپنی اپنی تعریف ہے۔ کچھ لوگ ٹرمپ کو بہادر سمجھتے ہیں جو یوکرین میں جاری جنگ رکوانا چاہتا ہے جس نے کہا کہ انسانی جانیں اہم ہیں جو جنگ میں ضائع ہورہی ہیں۔ بعض لوگ زیلنسکی کو بہادر سمجھتے ہیں جو پہلے پوتن تو اب ٹرمپ کے سامنے ڈٹ گیا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو جب رنجیت سنگھ کی فوجیں 1818ء میں ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو نواب مظفر خان ڈٹ گیا اور اپنے سات بیٹوں کے ساتھ اُس کے خلاف جنگ لڑی ۔ اس جنگ میں پورا ملتان تباہ ہوا اور جو قتل و غارت ہوئی اس کاذکر آج بھی کتابوں میں پڑھیں تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ نواب مظفر کو مزاحمت کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ یہی کچھ ملتان کے آخری حکمران مولراج کے بارے بھی کہا جاتا ہے جو انگریزوں کے خلاف ڈٹ گیا تھا۔ بعد میں اس کا بھی ٹرائل لاہور میں ہوا اور عمر قید سنائی گئی۔ جب اسے ہندوستان کی ایک دوردرازریاست کی ایک جیل بھیجا جارہا تھا تو راستے میں ہی دنیا سے رخصت ہوگیا۔
یہ تو چلیں بہادروں کی مثالیں ہیں۔ ہم عام انسان ایسے لوگوں کو ہیرو مانتے ہیں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اُس دورمیں جب کابل کے حکمران اور بہاولپور کے نواب نے رنجیت سنگھ سے لڑے بغیر اسے اپنا حکمران مان کر تاوان دینے پر رضامندگی ظاہر کی تو انہیں بہادر کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ کیا کابل کے حکمران نے رنجیت سنگھ کے لاہور دربار کی وفاداری کا حلف اٹھا کر اپنے افغان شہریوں کی جان بچا کر کوئی غلط کام کیا تھا یا نواب آف بہاولپور کو لگا کہ سکھ افواج نے جو کچھ ملتان میں کیا وہ بہاولپور کے عوام کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کابل کے حکمران کو کیا سمجھتے ہیں‘ بزدل یا بہادر جس نے رنجیت سنگھ کو اٹک ‘ پشاور اور قبائلی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد کابل کا رخ کرتے دیکھا تو پیغام بھیجا کہ یہاں آنے کی تکلیف نہ کریں‘ اپنی شرائط بتائیں۔ یہی کام نواب آف بہاولپور نے کیا اور رنجیت سنگھ کو تاوان دے کر اپنے علاقے اور لوگ بچا لیے۔ لیکن مزے کی بات ہے جن عوام کو رنجیت سنگھ کی افواج کے ہاتھوں لوٹ مار اور قتل و غارت سے بچایا کیا‘ وہ عوام انہیں اپنا محسن مانتے ہیں؟ تاریخ ایسے حکمرانوں کو کیسے یاد رکھتی ہے ؟ ملتان کے حکمران نواب مظفر کو آج بھی ہمارے سرائیکی علاقوں میں شہید کا درجہ دیا جاتا ہے جس کی بہادری پر نظمیں اور فوک قصے‘ کہانیاں لکھی گئیں۔ نواب مظفر بھی اپنے سات بیٹوں اور ملتانی عوام کو قتل و غارت سے بچا سکتا تھا‘ جیسے کابل کے حکمران اور بہاولپور کے نواب نے بچایا کہ رنجیت سنگھ کی فوجوں کا ان کی افواج مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں۔ کچھ حکمرانوں کے لیے ان کی رعایا کی جان بچانا اہم ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب حکمرانوں نے قلعے کے باہر محاصرہ کرنے والی فوج سے مذاکرات کر کے قلعے کے دروازے تاوان سے بھری بوریاں پیش کر کے یہ کہہ کر کھول دیے کہ شہریوں کے جان و مال کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ایسی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں لیکن پھر ایسی مثالیں بھی ہیں جو نواب مظفر خان نے ملتان میں قائم کی تھی کہ جان دے دو لیکن اپنی عزت اور غیرت پر کمپرومائز نہ کرو۔ دنیا ہر قسم کے خیالات کے لوگوں سے بھری پڑی ہے اور ان کے ہم خیال اور مخالفین کی بھی کمی نہیں ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نواب مظفر کو ٹھیک سمجھتے ہیں یا کابل اور بہاولپور کے حکمرانوں کو‘ جنہوں نے سوچا کہ نہیں ہم نے اپنی رعایا کو نہیں مروانا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ کے خلاف آپریشن کیا تو اس کے بعد ہیلری کلنٹن جو اُس وقت امریکہ کی وزیرخارجہ تھیں‘ نے اپنی یادداشتیں لکھی تھیں۔ وہ بھی اُس وقت وائٹ ہاؤس میں موجود تھیں اور اس آپریشن کو لائیو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس وقت اوباما کی وہاں آپریشن روم میں موجود ٹیم میں بحث ہوگئی کہ آیا پاکستان کو اعتماد میں لے کر آپریشن کیا جائے یااکیلے کریں؟ ہیلری کلنٹن کا خیال تھا کہ امریکہ کو پاکستان کو اعتماد میں لے کر آپریشن کرنا چاہیے تاکہ وہاں حکومت کے لیے مسائل پیدا نہ ہوں۔ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا (بعد میں وہی ہوا)۔ ہیلری کا اس میٹنگ میں کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان مشترکہ آپریشن کریں لیکن وہاں موجود دیگر عہدیداروں نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی تھی کہ اگر ہم نے پاکستان کو بتا دیا تو یہ خبر اسامہ کو لیک کر دی جائے گی اور ہمارے کمانڈوز کے لینڈ کرنے سے پہلے اسے فرار کرا دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھی یہی ہو چکا تھا کہ جب بھی پاکستان کو ایڈوانس اطلاع دی اور موقع پر پہنچے تو ٹارگٹ فرار ہوچکا تھا۔ اس لیے بہتر تھا کہ آپریشن کی اطلاع پاکستان کو نہ دی جائے۔ خیر جب آپریشن مکمل ہوا تو ہیلری ی کلنٹن کے ذمے لگایا گیا کہ وہ پاکستانی صدر زرداری کو اس آپریشن کی اطلاع دیں تاکہ جو کچھ امریکی کرچکے تھے اس کا ازالہ ہوسکے اور دونوں ممالک کے تعلقات اور تعاون خراب نہ ہو۔ ہیلری کلنٹن لکھتی ہیں کہ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھیں کہ صدر زرداری شدید ردعمل دیں گے تاہم زرداری نے سکون سے وہ خبر سنی کہ امریکی فورسز نے اسامہ بن لادن کو ختم کر دیا ہے۔ ہیلری کہتی ہیں کہ صدر زرداری نے فلاسفی بھرے انداز میں گفتگو کی جس کا مفہوم یہی تھا کہ ان کے کندھوں پر کروڑوں پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ اسامہ کے نام پر امریکہ سے نہیں لڑ سکتے۔ اسامہ یا خودمختاری سے زیادہ پاکستانیوں کے مفادات زیادہ اہم تھے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کا مفاد اس میں تھا کہ اسامہ کے آپریشن پر امریکہ سے ٹکر نہ لی جائے اور اس معاملے پر ایک روایتی احتجاج کر کے معاملہ ختم کر دیا جائے۔ سی آئی آے چیف لیون پینٹا کی بھی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا سے اس سے ملتی جلتی گفتگو ہوئی جو پینٹا نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھی ہے۔ اگرچہ ہیلری کے برعکس سی آئی اے چیف کا لہجہ سخت تھا۔ اس طرح کا فون جنرل کیانی کو بھی سینٹ کام چیف نے کیا تھا بلکہ آفر کی تھی کہ پاکستان چاہے تو کریڈٹ لے سکتا ہے کہ ہم نے آپریشن کر کے اسامہ کو مارا لیکن جنرل کیانی نے کہا وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘ امریکہ خود ہی یہ بھاری پتھر اٹھائے اور ہمارا ذکر نہ کیا جائے۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو طالبان حکومت نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے چاہے ان کی حکومت ختم ہو جائے‘ ہزاروں لوگ مارے جائیں‘ لاکھوں دربدر ہو کر پاکستان اور ایران میں پناہ لیں۔ افغان عورتیں اور بچے مشکلات کا شکار ہوں۔ ان کے نزدیک یہی بہادری تھی‘ چاہے کتنی ہی انسانی جانوں کا ضیاع ہو جائے۔ اسامہ نے خود بھی خیال نہیں کیا تھا کہ بے چارے عام افغانوں سے اتنی بڑی قربانی لینا مناسب ہے؟
وہی بات کہ یہ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہوتا ہے کہ انسانی انا انسانی لہو سے زیادہ اہم ہے۔ وہی بات جو ٹرمپ کررہا تھا کہ جنگ میں لوگ مر رہے ہیں۔زیلنسکی کو لگانہیں ابھی جنگ نہیں روکنی ‘اسے کچھ گارنٹی درکار ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ٹرمپ جو جنگ روکنا چاہتا ہے‘ اس کی مقبولیت یوکرین اور یورپ میں نیچے گر گئی ہے جبکہ زیلنسکی کی مقبولیت بڑھ گئی ہے۔اب ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ ٹھیک ہے زیلنسکی بھائی جائو پھر جنگ لڑو‘ پورا یورپ زیلنسکی کا ساتھ دے رہا ہے۔ ہمارے سامنے بہادری یا سمجھداری کے کئی ماڈلز ہیں۔ کابل سے بہاولپور تک کا بھی ماڈل ہے اور ملتان کے نواب مظفر کا ماڈل بھی ہے۔ مولراج کا ماڈل بھی ہے۔ اب آپ کی مرضی کہ آپ کو کون سا ماڈل سوٹ کرتا ہے۔ انسانی اَنا اہم ہے یا انسانی لہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں