"RKC" (space) message & send to 7575

انار کلی‘ سعد رفیق اور سرکاری بابوز

ہوسکتا ہے آپ کو یہ چھوٹی سی بات لگتی ہو جو میں سنانے لگا ہوں۔ شاید کالم کے اختتام پر آپ بھی حیران ہوں گے کہ یہ بھی کوئی واقعہ ہے جس کو موضوع بنایا جائے ‘خصوصاًجب پاکستان پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ایک چیز طے ہے جو مرفی لاء بھی کہتا ہے کہ اگر کوئی بُری چیز آپ کے ساتھ ہونی ہے تو وہ ہو کر رہے گی چاہے آپ کتنے بھی پریشان ہوں۔
لیہ کالج کے دنوں میں یونانی ڈراموں کا ترجمہ کیا تھا تو ایک بات آج تک ذہن میں ہے کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ یونانیوں کا اس بات پر ایمان تھا کہ ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ سوفوکلیز کے شاہکار ڈرامے ایڈی پس کو پڑھ لیں تو جہاں آپ کی آنکھیں دکھ اور غم سے برستی رہیں گی وہیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ یونانی کیوں تقدیر کے اتنے قائل تھے۔اپنی تمام تر خواہش کے باوجود کہ امن رہے اور دونوں ملکوں کے عوام سکون اور پیار سے رہیں‘ میرے آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا بعض دفعہ اپنی ذہنی کونسلنگ کرنی ہو تو خود کو وہی پرانی بات سنا لیا کریں کہ پاکستان کے مسائل آپ نے پیدا کیے ہیں یا آپ انہیں حل کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر پریشانی کس بات کی۔ آرام سے بیٹھیں اور چائے پئیں اور مرفی لاء کو یاد کریں کہ جو بُری چیز ہونی ہے وہ ہوکر ہی رہے گی ‘دل کو کیا جلائیں یا راتوں کو جاگتے رہیں کہ کیا بنے گا۔ جو سب کا بنے گا وہ ہمارا بھی بن جائے گا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں آپ جیسے دوستوں کی طرح انارکلی لاہور میں پرانی کتابوں کے اتوار بازار کا پرانا شیدائی ہوں۔ اتوار کو لاہور میں ہوں تو وہاں ضرور جاتا ہوں۔ اس وجہ سے پرانی کتابوں کے دکانداروں سے ایک طرح کی سلام دعا بھی ہوگئی ہے۔ چند ایک کو اپنا فون نمبر دیا ہوا ہے‘ اگر انہیں میرے مطلب کی کوئی پرانی کتاب ان کے ہاتھ لگے تو مجھے واٹس ایپ پر اس کی تصویریں بھیج دیتے ہیں اور میں ادائیگی کر کے بذریعہ ڈاک منگوا لیتا ہوں۔ میرے دوست حافظ ارسلان وہاں ہر اتوار بازار میں اپنا سٹال لگاتے ہیں اور ان کو پرانی کتابوں کی پرکھ ہے۔ کمال کولیکشن ہوتی ہے ان کے پاس۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ کتاب ہجرت کرتی ہے اور اپنا قاری خود چنتی ہے۔ ایک ایسا جملہ جس نے مجھے کئی ماہ سے سرشار کررکھا ہے کہ کتاب ہجرت کرتی ہے اور اپنا قاری خود چنتی ہے۔ حافظ ارسلان کے اس ایک جملے نے میری سوچ ہی بدل دی اور اب جب بھی کوئی پرانی کتاب خریدی ‘جو کوئی ایک سو سال پہلے چھپی تھی تو بعض لوگوں نے دستخط کے ساتھ تاریخ بھی ڈالی ہوئی تھی‘ کوئی لندن‘ نیویارک ‘ برلن یا دلی تو کوئی لاہور ۔
ایک دفعہ پرانی کتابوں کی دکان سے ایک کلاسک ناول خریدا ۔ایک بیٹے نے اپنی ماں کو سالگرہ کی مبارک دیتے ہوئے وہ ناول تحفے میں دیا تھا۔ اس پر دستخط کے ساتھ سال 1941ء لکھاتھا اور برطانیہ کے کسی شہر کا نام تھا۔ میں کئی لمحے تک وہ کتاب ہاتھ میں لے کر ماں بیٹے کا نام اور سال پڑھتا رہا۔ میں نے سوچا جب جنگِ عظیم دوم ہورہی تھی اُس وقت بھی کسی بیٹے کو اپنی ماں کی سالگرہ یاد تھی۔اس وقت بھی وہ کتابوں کی دکان پر جا کر اپنی ماں کے لیے ایک کلاسک ناول خرید کر لایا تھا۔ شاید اس شام گھر کے کسی کونے میں موم بتی جلا کر چھوٹا سا کیک کاٹا گیا ہو اور چند تالیاں بجی ہوں اور پھر کیک کاٹ کر سب نے کھایا ہو۔ اس ماں نے کیک کاٹ کر پہلے اپنے بچوں کو کھلایا ہوگا اور پھر اُس بیٹے نے ماں کو وہ ناول اپنے نام اور دستخط کے ساتھ پیش کیاہوگا اور ماں کتنی خوش ہوئی ہو گی۔ کئی روز تک اُس نے وہ ناول اپنے بستر کے قریب رکھا ہوگا‘اُسے پڑھا ہوگا۔ آج پچاسی‘ چھیاسی برس بعد وہی ناول میرے ہاتھوں میں تھا۔ اس ناول نے پتہ نہیں کتنے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا ہوگا۔ آج نہ وہ ماں زندہ ہوگی نہ اس کا بیٹا جس نے وہ ناول خرید کر ماں کو دیا تھا۔ سات سمندر عبور کر کے وہ ناول اب اسلام آباد کی پرانی دکان سے ہوتا ہوا میرے گھر کی لائبریری میں اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ اب پتہ نہیں یہاں سے اس کی ہجرت کا موسم کب آئے گا اور کس گھر کا مہمان بنے گا۔
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔دراصل میں کالم اس بات پر لکھنا چاہتا تھا کہ آج بھی سیاستدان عام آدمی کے کام آتا ہے‘ بابو نہیں آتا۔ مجھے ہفتے کے روز انار کلی اتوار بازار کے بٹ صاحب کا فون آیا کہ کل انہوں نے پرانی کتابوں کا سٹال لگانا ہے لیکن ان کے فولڈنگ سٹالز اٹھا کر لے گئے ہیں۔ آپ کچھ مدد کریں۔میں نے کہا: کچھ کرتا ہوں۔ میں اکثر عام لوگوں کے ایسے مسائل پر لکھ کر ٹویٹ کر دیتا ہوں اور حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو ٹیگ کر دیتا ہوں کہ وہ مہربانی کریں گے۔ میں نے یہی کیا۔ انار کلی بکس اتوار بازار کے ان دکانداروں کا یہ مسئلہ لکھ کر ٹویٹ کر دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب‘ وزیراعظم شہبازشریف‘ عظمیٰ بخاری صاحبہ‘ حکومت پنجاب‘ ڈپٹی کمشنر لاہور‘ ایل ڈی اے سب کو ٹیگ کیا کہ مہربانی فرمائیں ‘ہفتے میں ایک روز پرانی کتابوں کا میلہ لگتا ہے‘ یہ برسوں سے لاہور کی شان اور شناخت ہے‘ کسی کے سر پر جوں نہ رینگی۔
حیران کن طور پر مجھے سابق وفاقی وزیرسعد رفیق کا فون آیا کہ آپ کا ٹویٹ پڑھا ہے اور میں نے ڈی جی ایل ڈی اے کو فون کیا ہے وہ کہتے ہیں یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ علاقہ ہماری حدود میں نہیں ہے۔ بعد میں ایل ڈی اے نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر لاہور موسیٰ رضا میونسپل کارپوریشن لاہور کے ایڈمنسٹریٹر ہیں اور چیف ایگزیکٹو شاہد کاٹھیا صاحب ہیں‘ میں نے بتایا جی غلطی لگی تھی یہ کام لاہور میونسپل والوں کا ہے۔ سعد رفیق نے فون بند کیا اور پھر ان کی کال آئی کہ انار کلی اتوار بازار والوں کا فون نمبر انہیں دیں۔ کچھ دیر بعد اُن بک سٹال والے دکانداروں کا فون آیا کہ ان کے اتوار بازار کے لیے فولڈنگ سٹالز واپس کر دیے گئے ہیں۔ کسی سرکاری افسر کے کان پر جوں نہیں رینگتی جو عوام سے تنخواہ لیتے ہیں۔اب بھی سیاستدان خود کو کسی حد تک جواب دہ سمجھتے ہیں جن پر ہم دن رات تبرہ کرتے ہیں۔ سعد رفیق یہ کال یا مدد نہ بھی کرتے تو اُن کا یہ کام نہیں تھا‘ لیکن وہی بات کہ کوئی کمشنر‘ ڈی سی یا MCL کا چیف ایگزیکٹو خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا۔کبھی شہباز شریف جب وزیراعلیٰ تھے تو کوئی خبر یا ایشو ہائی لائٹ ہوتا تو لاہوری بیوروکریسی کی دوڑ لگ جاتی اور فوراً ردِعمل آتا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا میں بہت ساری چیزوں کا ناقد رہا ہوں۔ ان پر کئی دفعہ لکھا اور بولا لیکن ایک بات ان کی وزارتِ اعلیٰ میں اچھی تھی کہ اگر آپ عام بندے کا کوئی ایشو یا ویسے ہی کوئی سکینڈل سامنے لاتے تو ان کے آفس کی طرف سے فوری ایکشن ہوتا تھا۔ پوری بیوروکریسی الرٹ ہوجاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کئی دفعہ لاہور سے سیکرٹریز فون کر کے کہتے تھے کہ آپ کا پروگرام یا کالم انہیں شہباز شریف نے بھیجا ہے اور اس پر جو رپورٹ انہیں بھیجی گئی تھی انہوں نے کہا ہے کہ آپ کو بھی بھیجیں کہ آپ نے ہائی لائٹ کیا تھا۔ اس اپروچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیوروکریسی میڈیا پر آنے والے ایشوز پر نظر رکھتی تھی۔ انہیں علم تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس سے جواب طلبی ہوگی‘ لیکن اب بیوروکریسی بھی پنجاب کو ایزی لینا شروع ہوگئی ہے۔
اندازہ کریں جس ٹوئٹ پر ایک سابق وفاقی وزیر کو فکر پڑ گئی کہ ان کی حکومت کا امیج خراب ہوگا کہ سرکاری اہلکار برسوں پرانے کتابوں کے بازار کا سامان اٹھا کر لے گئے وہیں‘ ڈپٹی کمشنر لاہور یا میونسپل کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو کو پروا تک نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بہت چھوٹی بات ہو لیکن سعد رفیق کا شکریہ کہ آج لاہور انارکلی کی رونق بحال رہے گی۔وہی حافظ ارسلان والی بات کہ جو پرانی کتابیں سات سمندر عبور کر کے لاہور پہنچتی ہیں وہ اپنے قاری خود چنیں گی۔صدا آباد رہے لاہور اور شہزادہ سلیم کی انارکلی کی رونق اور شان۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں