حالیہ پاک بھارت جنگ کی گونج آنے والے کئی برسوں تک سنائی دے گی۔ بعض دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق سات مئی کی رات دونوں ملکوں نے جو فضائی جنگ لڑی وہ تاریخ کی سب سے بڑی جنگ تھی جس میں اندازاً 125جنگی جہازوں نے حصہ لیا۔ بعض کا کہنا ہے یہ 180 جہاز تھے۔ یہ جنگ ان جنگی جہازوں میں فٹ میزائلوں سے لڑی گئی جن کی رینج ڈیڑھ سو سے تین سو کلومیٹر بتائی گئی ہے۔ اس پورے معاملے میں اہم بات یہ تھی کہ یہ فضائی جنگ دونوں ملکوں نے اپنی اپنی سرحدوں کے اندر سے لڑی۔ تاہم پاکستانی جہازوں نے بھارت کے اندر کئی ٹارگٹس کو ہٹ کیا اور ان کے ایئر بیس تباہ کیے۔
انسان ہمیشہ سے یہ کوشش کرتا آیا ہے کہ وہ کیسے جدید جنگی آلات بنا کر دوسری قوموں کو محکوم بنا سکتا ہے۔ پھر جن قوموں کو بیرونی حملوں کے خطرات درپیش ہوتے تھے وہ بھی جدید جنگی آلات بناتی تھیں یوں جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ ہم تصور ہی کرسکتے ہیں کہ انسانی جنگوں کا پہلا ہتھیار کون سا ہوگا۔ شاید شروع میں انسان ہاتھوں‘ مکوں اور لاتوں سے لڑے ہوں گے۔ پھر کسی نے ڈنڈے تیار کیے ہوں گے‘ کسی نے درختوں کی لکڑی سے نیزے ایجاد کر لیے ہوں گے جو دور سے دشمنوں پر پھینکنے جاسکتے تھے۔ اُس دور میں نیزہ بھی بڑی ایجاد ہوگی۔ پھر کسی ذہین نے ان نیزوں کے آگے لوہے کا بھالا لگا کے اسے زہر میں ڈبو کر زہر آلود کر لیا تو کسی نے تیرایجاد کرکے ان کے اوپر آگ لگا کر مخالف فوج پر آگ اور تیروں کی بارش کر دی تو کسی نے تلوار ایجاد کر لی تاکہ جنگ میں مخالفین کو تیزی سے قتل کیا جا سکے۔ پھرکچھ قوموں نے اپنے دفاع کیلئے مضبوط قلعے بنا لیے تاکہ بیرونی فوجوں کے سامنے مزاحمت کر سکیں‘ جنہیں توڑنے کیلئے منجنیق بنا لی گئی جس سے قلعے کی دیواروں پر بڑے بڑے پتھر برسا کر ان میں شگاف کیے جاتے تھے اور وہاں سے فوج قلعے کے اندر داخل ہوجاتی تھی۔کسی نے توپ بنا کر مخالف فوج پر گولے داغے ہوں گے۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسان ایک دوسرے کو مارنے اور تباہ کرنے کے جدید طریقے سیکھتا گیا اور نئی نئی ٹیکنالوجی ایجاد کرتا گیا۔ پھر انسانوں نے گھوڑوں اور ہاتھیوں کو بھی جنگوں میں استعمال کرنا شروع کیا۔ تاہم جنگی ٹیکنالوجی میں بڑی تبدیلی ترک لائے جب انہوں نے بارود سے جنگیں لڑنا شروع کیں اور مخالفین کو چند دنوں اور گھنٹوں میں شکست دینے لگے۔ جیسے اب پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کو بھارت کے خلاف استعمال کیا ہے جو پوری دنیا کیلئے حیران کن ہے کہ کیسے پاکستانی پائلٹس نے چینی ٹیکنالوجی سے فرانسیسی رافیل طیاروں کو مار گرایا۔اسی طرح کا حیران کن واقعہ پانی پت کے میدان میں اپریل 1526ء میں بھی پیش آیا تھا۔ اُس وقت مغل حکمران ظہیرالدین بابر‘ جس کے پاس صرف بارہ ہزار سپاہی تھے‘ نے دلّی سلطنت کے بادشاہ ابراہیم لودھی کی سوا لاکھ فوج کو تین چار گھنٹے میں شکست دے کر ہندوستان کی تاریخ بدل دی تھی‘ جس پر پوری دنیا حیران رہ گئی تھی کہ آخر بارہ ہزار کی فوج سوا لاکھ کی آرمی کو کیسے شکست دے سکتی ہے۔ یہ ناممکن کام تھا جو بابر نے ممکن کر دکھایا تھا۔ یہ دراصل بابر کی فوج سے زیادہ اس کے توپچیوں کا کمال تھا۔ بابر ترکوں سے بارود لایا تھا اور اس کا پہلی دفعہ استعمال اس نے پانی پت کی جنگ میں کیا ۔ ہندوستان کیلئے یہ بالکل نئی اور خوفناک چیز تھی۔ ہندوستانی اب تک روایتی طریقوں سے جنگ لڑتے تھے۔ وہ دشمن کی فوج پر پہلے ہاتھیوں کی فوج لاتے تھے ۔ ہاتھیوں کو شراب پلا کر انہیں نیزے چبھوتے تھے جس سے ہاتھی بلبلا کر دشمن کے طرف دوڑتے تھے اور دشمن کے فوجیوں کو کچل دیتے تھے۔ ہندوستانی اسی پرانی جنگی ڈگر پر چل رہا تھا کہ ہاتھیوں کو شراب پلا کر دشمن فوج پر چڑھا دو۔ بچے کچھے فوجیوں کو ہمارے فوجی سنبھال لیں گے۔لیکن اس دفعہ بابر کے توپچی تیار تھے۔ جونہی بابر کے توپچیوں نے بارود فائر کرنا شروع کیا تو اس کی آواز سے ہاتھی دبک گئے۔ پھر ان توپوں سے آگ کے شعلے لودھی کے فوجیوں پر گرے تو وہ بھی خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ یوں ابراہیم لودھی کی سوا لاکھ فوج تین چار گھنٹے میں شکست کھا چکی تھی اور ہندوستان پر مغلوں کا زیر تسلط آ چکا تھا۔ سلطنت ِدلّی پر خاندانِ غلاماں‘ غوری‘ تغلق اور لودھی خاندانوں کے تین سو سال سے جاری اقتدار کا خاتمہ ہوچکا تھا اور اب ہندوستان کو نئے حکمران مل گئے تھے۔
اس جنگ میں لودھی کی شکست کی وجہ صرف بارود بنا تھا۔ بابر کی توپوں نے جنگ کا رُخ بدل دیا تھا۔ پھر بارود نے مختلف شکلیں اختیار کر لیں‘ بندوقیں بن گئیں‘ میزائل بنے‘ جنگی جہاز سامنے آئے۔ تباہیوں کی نئی نئی داستانیں رقم ہوتی گئیں۔ انسان مادی کے ساتھ جنگی ٹیکنالوجی میں بھی ترقی کرتا چلا گیا۔ آخر کار ایٹم بم ایجاد کر لیے اور لمحوں میں لاکھوں لوگ مار دیے۔ اب دنیا میں اتنے ایٹم بم ہیں کہ کہا جاتا ہے وہ اس پوری کائنات کو سات دفعہ ختم کرنے کیلئے کافی ہیں۔ لیکن انسان اب بھی خود کو جنگوں میں برباد کرنے سے باز نہیں آیا ۔ اب جو نئی جنگی ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہے وہ ناقابلِ یقین ہے۔ پہلے چونکہ جہازاور میزائل ریڈار پر نظر آ جاتے تھے تو ان کیلئے اینٹی میزائل سسٹم بنا لیے گئے۔پھر ایسے جہاز اور میزائل بنائے جانے لگے کہ وہ ریڈار پر نظر نہ آئیں۔ پھر بات ڈرون تک پہنچ گئی کہ اپنے پائلٹس اور جہاز بچائیں اور صرف ڈرون میں میزائل فٹ کر کے مخالف کے گھر بھیج دیں۔
کبھی ہم سنتے اور پڑھتے تھے کہ جنگیں ٹینکوں اور زمینی افواج سے لڑی جاتی تھیں لیکن اب پاک بھارت جنگ دیکھ لیں کہ اس جنگ میں کہیں آپ نے ٹینکوں یا زمینی فوج کا ذکر سنا؟ اس میں صرف جنگی جہازوں‘ سپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا ذکر ہوتا رہا۔ بھارت فرانس سے آٹھ ارب ڈالرز کے رافیل لے آیا کہ اب وہ پاکستان کو سبق سکھائے گا تو پاکستان چین سے J10-C لے آیا۔ ان جدید جہازوں میں PL-15 میزائل فٹ تھے جن کی رینج دو سو سے تین سو کلو میٹر تک تھی۔ یوں جب جنگ شروع ہوئی تو بھارت کا یہی خیال تھا کہ اس کے پاس جدید جنگی جہاز ہیں جو پاکستان کے پاس نہیں ہیں اوریہی غلط فہمی اسے لے ڈوبی اور اس نے اپنے تین رافیل ‘ ایک سخوئی اور ایک مِگ 29جہاز جنگ میں تباہ کرالیا جس پر پوری دنیا کو جھٹکا لگا۔ بھارتیوں کو جب تک احساس ہوا کہ پاکستان کے پاس بھی جدید ترین جہاز اور میزائل ہیں تو فوراً اپنے رافیل پاکستانی سرحد سے تین سو کلومیٹر دور لے گیا کہ کہیں سارے رافیل ہی تباہ نہ ہو جائیں۔ اس لیے نریندر مودی کے اپنی قوم سے خطاب میں کسی جگہ بھی رافیل کا ذکر نہ تھا۔ وہی مودی اور بھارت جو بات بات پر رافیل رافیل کرتے تھے۔ویسے مودی کی تقریر سے لگ رہا ہے کہ ابھی شاید جنگ دوبارہ شروع ہوگی۔ کچھ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ مئی کے آخر میں پھر جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ بعض تو کہہ رہے ہیں کہ پوراسال ہی مشکلات اور جنگ کا ہے اور پاکستان کو اب کی دفعہ بھارت سے زیادہ سمجھداری سے کام لینا ہے۔
اگرچہ ہر انسان جنگ کا دشمن ہے کہ اس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔جنگیں ماؤں کے بچے چیل کی طرح چھین کر لے جاتی ہیں اور وہ کبھی واپس نہیں آتے ‘ مائیں انتظار کرتی رہ جاتی ہیں۔ ہر جنگ اپنے پیچھے بربادی‘ یتیم بچے‘ بیوائیں اور ماؤں کی اجڑی گود چھوڑ کر جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مردوں کی اَنا اور مردانگی کی قیمت جنگوں میں ہمیشہ عورتوں اور بچوں کو ادا کرنا پڑتی ہے جن سے پوچھ کر یہ جنگیں شروع نہیں کی جاتیں۔