جب اقبال نے کہا تھا: ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔ یا جب میاں محمد بخش صاحب نے کمزور کے بے بس اختیارات پر بھرپور تبصرے میں کہا تھا: لِسّے دا کی زور محمدؔ نس جانا یا رونا (کمزورکے بس میں ہے ہی کیا‘ یا مقابلے سے بھاگ جانا یا رونا) تو انہوں نے تقدیر کے قاضی کا وہ فتویٰ ذکر کیا تھا جو روزِ ازل سے آج تک طاقتور اور کمزور قوموں کے مابین لاگو چلا آتا ہے۔ ہر دور میں برتر اور کمتر کے درمیان یہی کشمکش جاری ہے۔ سوداؔ نے کہا کہ قمار عشق میں اگر بازی نہ پا سکے تو کوہکن سر تو کھو سکتا ہے نا! مسئلہ یہ ہے کہ کوہکن کے سر کھونے سے طاقتور کو کیا نقصان ہے؟ وہ تو ایک حریف کے ختم ہو جانے پر مزید طاقتور ہو جائے گا۔ اسوقت تک یہ طاقت برقرار رہے گی جب تک کوئی بڑی دنیاوی طاقت یا قدرتی عوامل اسے کمزور نہیں کر دیتے۔
ابن خلدون اور ٹائن بی کو پڑھیں اور انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کل کی مہیب انسانی طاقتیں آج لوگوں کو یاد بھی نہیں ہیں۔ کوئی جانتا ہے کہ سکندر مقدونی کی قبر کہاں ہے جو اُس وقت کی کم و بیش پوری معلوم دنیا کا فاتح تھا؟ ساسانی اور رومی بادشاہتیں کہاں گئیں؟ منگولوں نے دنیا پر راج کیا‘ اب وہ کس گوشے میں ہیں؟ اموی اور عباسی خلافتوں کی عملداری اب کس خطے میں ہے؟ چنگ اور یوآن خانوادے چین میں کس جگہ پائے جاتے ہیں؟ اور یورپی اقوام کی پوری دنیا پر حکمرانی تو زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے۔ برطانیہ‘ جس کا سورج دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں نصف النہار پر رہتا تھا‘ اب کتنے علاقوں پر قابض ہے؟ پرتگیزی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘ ولندیزی‘ وہ سب اقوام جو جہاز بھر کر غلام اپنے محکوم علاقوں میں خدمت کیلئے بھیجا کرتی تھیں‘ اب کن جغرافیائی حدود میں ہیں؟طاقت کے مرکز ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں لیکن جب تک طاقت موجود ہے‘ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی دنیا کو عافیت لگتی ہے۔ دنیا کا طاقتور ترین مرکز اس وقت امریکہ میں ہے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ اسی عزم اور ارادے سے آئے ہیں کہ یہ طاقت مزید منوا کر رہیں گے۔ میں پہلے کالموں میں برکس ممالک‘ کینیڈا‘ پاناما‘ گرین لینڈ‘ میکسیکو اور ڈنمارک کا ذکر کرچکا‘ تازہ ترین محاذ جنوبی امریکہ کے کمزور اور چھوٹے سے ملک کولمبیا کا ہے جس سے امریکہ کا تنازع پیش آیا اور کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے ٹرمپ مخالفت میں سوشل میڈیا پر بیان بھی جاری کیے‘ لیکن جلد ہی اسے مقابلے سے دستبردار ہونا پڑا۔
ڈونلڈ ٹرمپ ابتدا ہی سے امریکہ میں نئے آباد کاروں پر پابندیاں لگانے کے حامی ہیں۔ جنوبی امریکہ سمیت وہ غریب ممالک جہاں سے لوگ بہتر مستقبل کیلئے امریکہ کا رخ کرتے ہیں‘ ان کا ہدف ہیں۔ ابھی انہیں وائٹ ہائوس میں چند دن ہوئے ہیں لیکن پہلے مرحلے میں وہ ان غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جن کے پاس امریکہ میں اقامت کے کاغذات نہیں۔ کولمبیا ان جنوبی امریکی ممالک میں سے ایک ہے۔ چند دن پیشتر دو C17 فوجی جہازوں میں کولمبیا کے غیر قانونی تارکین وطن ڈی پورٹ کرکے کولمبیا بھیج دیے گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان سب کے ہاتھ پائوں باندھے گئے تھے۔ کولمبیا نے فوجی جہازوں کو اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ کولمبین صدر گسٹاوو پیٹرو نے اشتعال میں ایکس (ٹویٹر) پر کہا کہ میں ان کولمبین شہریوں کو ایسے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا جو انہیں رکھنا نہیں چاہتا لیکن اگر وہ ملک انہیں واپس بھیجتا ہے تو وہ ان کے اور ہمارے ملک کے احترام کے ساتھ ہو‘ کولمبین لوگوں کیساتھ مجرموں جیسا رویہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پیٹرو نے‘ جو بائیں بازو کے نظریات رکھتے ہیں اور جدوجہد کا ایک پس منظر ان کے ساتھ جڑا ہے‘ کولمبین اجداد کی جدوجہد‘ قربانیوں اور محنت کا بھی ذکر کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے جواب میں کولمبین مصنوعات پر امریکی ٹیرف فوراً 25فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ نیز کولمبین شہریوں اور سرکاری افسروں کے ویزوں اور سفر پر فوری پابندی لگا دی۔ پیٹرو نے جواباً کہا کہ میں امریکہ کا سفر کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہ بہت بورنگ ہے۔ اس کے بعد پیٹر ونے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ پیٹرو کے ان بیانات اور اقدامات کی خود کولمبین انتظامی اور سیاسی افراد نے مخالفت کی اور امریکہ سے نہ بگاڑنے کی پالیسی کا مشورہ دیا۔ مسلسل ایک دو دن کی اس بیان بازی اور اقدامات کے بعد کولمبیا کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ہتھیار پھینک دے۔ رات گئے کولمبین وزیر خارجہ لوئیس گلبرٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے اور کولمبیا اپنے شہریوں کو واپس لینے کیلئے تیار ہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا کہ کولمبیا نے ٹرمپ کی ساری باتیں تسلیم کر لی ہیں جن میں غیر محدود تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو واپس لینے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ ترجمان نے کہا کہ دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ کا احترام کرنا پڑے گا۔ انجام کار دونوں ملکوں نے اپنے ٹیرف اور سفری پابندیوں کے اقدامات واپس لے لیے اور گویا معاملہ امریکی منشا کے مطابق طے پا گیا۔
کولمبیا امریکہ کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ امریکہ کولمبیا سے بڑی مقدار میں کافی درآمد کرتا ہے جو اس کی ضروریات کا 27 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ سونے‘ کیلوں‘ خام تیل اور پھلوں پھولوں کی درآمدات بھی ہوتی ہیں جبکہ کولمبیا مکئی‘ سویا بین اور تیل درآمد کرتا ہے۔ کولمبیا کیلئے امریکی برآمد 29 بلین ڈالر کے لگ بھگ جبکہ امریکہ میں درآمد 25 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ تجارتی پلڑا امریکہ کے حق میں ہے مگر اتنی بڑی برآمد کھونا کولمبیا کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا تھا۔ چنانچہ معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسے سنبھال کر سر تسلیم خم کر دیا گیا۔ لیکن تعلقات میں ایک دراڑ ضرور پڑ گئی ہے۔ ٹرمپ کے آتے ہی اور اس واقعے کے بعد امریکہ کے قریبی ہمسائے‘ جن میں میکسیکو سرفہرست ہے‘ تارکین وطن کو واپس قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو گئے ہیں۔ بات صرف ہمسایہ ممالک کی نہیں‘ تازہ ترین معاملہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ٹرمپ کی فون کال پر گفتگو ہے‘ جس کے بعد ٹرمپ نے کہا ''بھارت وہی کرے گا جو درست ہے‘‘۔ 2024ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 7 لاکھ 25 ہزار غیر قانونی بھارتی موجود ہیں۔ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی کل تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے‘ جن میں سب سے زیادہ تعداد میکسیکو کے افراد کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں اور آئندہ سالوں میں اس کے رخ کو متعین کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکی عدالتی نظام امریکی صدر کو مکمل باختیار نہیں رہنے دیتا جس کی ایک مثال ٹرمپ انتظامیہ کی پیدائش کی بنیاد پرامریکی شہریت پر پابندی کا اقدام تھا‘ جسے عدالت نے معطل کر دیا لیکن وہ معاملہ داخلہ پالیسی کا تھا‘ اس لیے خارجہ پالیسیاں‘ جن کی زد میں پوری دنیا آئے گی‘ عدالتوں کے دائرے سے باہر ہوں گی۔ تارکین وطن کی بے دخلی کا معاملہ صرف امریکہ سے باہر تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ تارکین وطن امریکہ میں سستے مزدور فراہم کرتے ہیں‘ انہیں قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا اس لیے وہ کم ریٹ پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بے شمار ریاستوں میں میکسیکن لیبر موجود ہے اور انکے چلے جانے سے امریکہ مزدوروں اور ورکرز کی بڑی تعداد سے محروم ہو جائے گا۔ ان کی جگہ لینے والے امریکی یا قانونی تارکین وطن مہنگے ہوں گے لہٰذا پیداواری لاگت بڑھ جائے گی جس کا اثر مصنوعات اور سروسز پر بھی پڑے گا۔ میں مختلف امریکی ریاستوں میں سفر کرتا رہا ہوں اور میرا مشاہدہ ہے کہ اس وقت بھی چھوٹے کاروبار اور دکانوں کیلئے ضروری ورکرز دستیاب نہیں۔ اب یہ کمیابی مزید بڑھنے والی ہے جس سے متوسط اور نچلا طبقہ شدید متاثر ہوگا۔ اسی لیے ٹرمپ کے ناقد کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امیروں کو فائدہ پہنچانے اور غریب کو شدید متاثر کرنے والی ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو‘ آئندہ چند سال کیلئے امریکیوں سمیت پوری دنیا کو ان کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔