"SSC" (space) message & send to 7575

چکوال کا عبد الخالق: ایشیا کا تیز رفتار پرندہ… (آخری قسط)

عبدالخالق کی کامیابیوں کا سلسلہ 1954ء سے جاری تھا۔ اور اب 1960ء کا سال آ گیا تھا۔ اس سال ٹرائی اینگولر کھیلوں میں عبدالخالق نے ایک بار پھر 100میٹر میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 200میٹر کی دوڑ میں ملکھا سنگھ جیت گیا اور 4x100ریلے ریس میں پاکستان کی ٹیم کو کامیابی ملی‘ جس کا ایک ممبر عبد الخالق بھی تھا۔ چھ برس تک 100میٹر میں پہلی پوزیشن کو برقرار رکھنا آسان کام نہ تھا لیکن عبد الخالق کے جذبے اور جنون نے یہ کام ممکن بنا دیا۔ یوں عبدالخالق نے اپنے کیرئیر میں 36 انٹرنیشنل گولڈ میڈل‘ 15 سلور میڈل اور 12کانسی کے میڈل حاصل کیے۔ یہ میڈلز اس نے 100‘ 200 اور 4x100 میٹر میں حاصل کیے۔
عبد الخالق اس کے بعد دو سال تک مقابلوں میں حصہ لیتا رہا۔ پھر اس کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا جب 1971ء کی جنگ میں اسے جنگی قیدی بنا کر باقی لوگوں کے ساتھ بھارت کے ایک جنگی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان اس کی زندگی کا ایسا واقعہ تھا جسے وہ آخری دم تک بھلا نہ سکا۔ اب وہ اپنے پیاروں سے ہزاروں میل دور بیٹھا تھا۔ آزاد ہواؤں میں اُڑنے والا پرندہ تھا جو جنگی کیمپ کی خاردار دیواروں میں بند تھا۔ کیمپ میں رہنے والے قیدیوں کے رات دن بے یقینی میں گزر رہے تھے۔ کہتے ہیں وزیراعظم اندرا گاندھی اسے رہا کرنے کو تیار تھی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اگلے ہی برس دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہائی مل گئی۔ عبد الخالق بھی واپس آگیا۔ واپس آکر اس نے محسوس کیا کہ بہت کچھ بدل گیا ہے‘ باہر بھی اور اس کے دل کے اندر بھی۔ پتا نہیں کیوں اب اسے اپنا گاؤں‘ اپنا گھر اور گھر کے لوگ شدت سے یاد آنے لگے تھے۔ اب وہ نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ 1978ء میں وہ آرمی سے ریٹائر ہوا لیکن کھیل سے اس کی وابستگی اسی طرح رہی۔
عبد الخالق کا نام میں نے پہلے پہل اپنے عزیز دوست اور ایتھلیٹ میجر حسین سے سنا تھا جو عبدالخالق کو اپنا Mentorمانتا ہے۔ لیکن عبدالخالق کہاں کا رہنے والا تھا؟ اس کے بعد اس کے گھر میں کون ہے جس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات ابھی باقی تھے۔ تب مجھے ڈاکٹر آفتاب کا خیال آیا جس کا تعلق چکوال کے گاؤں پاد شاہان سے ہے۔ ڈاکٹر آفتاب نے بتایا کہ عبدالخالق کا ایک بیٹا عبدالرزاق اپنے گاؤں جند اعوان کے سکول میں پڑھاتا ہے۔ جند اعوان چکوال کے نواح میں واقع ہے۔ چکوال کے ذکر سے دو مہربان ہستیوں کا خیال آتا ہے‘ ایک ڈاکٹر عابد کیانی ہیں جو اپنی تعلیمی خدمات کی وجہ سے چکوال کے خاص و عام میں مقبول ہیں اور دوسرے احسان مغل جن کا تعلق بھی شعبۂ تعلیم سے ہے۔ میں نے ان سے رابطہ کیا تو دونوں نے گرم جوشی کا اظہار کیا۔ طے ہوا کہ میں لاہور سے موٹروے پر سفر کرتے ہوئے چکوال کے گورنمنٹ سکول نمبر 1 پہنچوں جہاں ڈاکٹر عابد کیانی اور احسان مغل صاحب میرے منتظر ہوں گے۔ لاہور سے میں نے سات بجے سفر کا آغاز کیا۔ موٹر وے پر ٹریفک بہت کم تھی اور میں وقتِ مقررہ پر گورنمنٹ سکول پہنچ گیا۔ یہاں سے ڈاکٹر عابد کیانی اور احسان مغل صاحب میرے ہمراہ ہو گئے۔ چکوال سے جند اعوان کا فاصلہ پچاس کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ باتوں باتوں میں سفر کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا اور ہم جند اعوان کے سکول پہنچ گئے۔ جہاں عبدالخالق کا بیٹا عبدالرزاق ہمارا منتظر تھا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا اور اصرار کر کے اپنے گھر لے گیا۔ اب ہم ان کے گھر کی بیٹھک میں بیٹھے تھے وہیں عبدالخالق کے چھوٹے بھائی الطاف صاحب بھی آگئے۔ الطاف صاحب نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ تین بھائی تھے‘ عبدالخالق سب سے بڑے تھے۔ دوسرے نمبر پر عبد المالک تھے جو فوج میں آنریری کپتان تھے اور 110ہرڈل ریس کے چیمپئن تھے اور 1956ء میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1954ء میں 4x100میٹر ریس کے ایونٹ میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ تیسرے نمبر پر الطاف صاحب ہیں جو محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے اور اپنے زمانے میں کبڈی کے نامور کھلاڑی تھے۔ عبدالخالق کے بیٹوں میں بھی کھیلوں کا شوق ہے۔ سب سے بڑا بیٹا غلام عباس والد کے قدموں پر چلتے ہوئے آرمی میں چلا گیا جہاں اس نے والی بال اور دوڑ کے مقابلوں میں نام کمایا۔ غلام عباس کبڈی کا بھی اچھا کھلاڑی تھا۔ دوسرے نمبر پر محمد اشفاق تھا جس نے نو عمری میں ہی دوڑ اور کبڈی میں نام بنا لیا تھا۔ وہ کم عمری میں ہی ایک حادثے میں جان کی بازی ہار گیا۔ تیسرے نمبر پر محمد اعجاز نے ایم فل کیا ہے اور آج کل پنجاب سپورٹس بورڈ سے وابستہ ہے۔ اعجاز کا ایک کریڈٹ یہ بھی کہ اس نے پاکستان میں بلائنڈ آرچری کی بنیاد رکھی۔ بیٹوں میں سب سے چھوٹا عبدالرزاق ہے۔ رزاق بھی اپنے علاقے میں کبڈی کا نامور کھلاڑی رہا‘ اس نے فزیکل ایجوکیشن میں ایم ایس سی کی اور آج کل اپنے گاؤں جند اعوان میں پڑھا رہا ہے۔
عبدالخالق کی کہانی کے بہت سے حصے مجھے الطاف صاحب‘ اعجاز اور عبدالرزاق نے سنائے۔ عبدالرزاق نے اصرار کیا کہ ہم دوپہر کا کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتے۔ یہ پوٹھوہار کا کلچر ہے جہاں مہمان کو برکت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کھانے کے بعد میں نے عبدالرزاق سے کہا: کیا میں عبدالخالق صاحب کی قبر پر جا سکتا ہوں؟ اس نے کہا: ضرور‘ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ قبرستان قریب ہی تھا‘ ٹیڑھی میٹری گلیوں سے ہوتا ہوا میں عبدالخالق کی قبر تک پہنچا۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد میں قبر کے گرد ریلنگ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر کھڑا ہو گیا اور میری نظروں کے سامنے عبدالخالق کی زندگی کے سارے منظر ایک ایک کر کے گزر نے لگے۔ میں جانے کب تک ان منظروں کے تحیر میں گم رہتا کہ اچانک بادلوں کے گرجنے کی آواز آئی اور پھر ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی۔ تب مجھے احساس ہوا میں نجانے کب سے عبدالخالق کی قبر کے گرد لگی ریلنگ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے کھڑا ہوں۔ میں نے عبدالخالق کی قبر کو آخری بار دیکھا اور آہستہ آہستہ بلندی سے نیچے اُترنے لگا۔ لیکن پھر ایک آواز نے میرے قدم روک دیے۔ مجھے یوں لگا یہ عبدالخالق کی آواز ہے۔ اس آواز میں اداسی تھی اور زمانے کی بے مہری کا گلہ بھی۔ ایک ایسے شخص کا گلہ جس نے اپنی پوری زندگی اپنے وطن کے لیے وقف کردی تھی۔ جس نے کھیلوں کے ایشیائی اور اولمپک مقابلوں میں پاکستان کا پرچم بلند رکھا۔ پاکستان میں نوجوان نسل کو اپنے ہیرو کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے اپنے ایتھلیٹ ملکھا سنگھ پر فلم بنا کر اسے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ملکھا سنگھ نے جن مقابلوں میں 200میٹر کی ریس جیتی تھی اسی ایونٹ میں عبدالخالق نے 100میٹر کی ریس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اور پاکستان کی اس ٹیم کا بھی اہم رکن تھا جس نے 4x100 ریلے ریس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ تیز ہواؤں کی سیٹیوں میں وہ پُراسرار آواز کہیں کھوگئی۔ شاید یہ سب کچھ میرا وہم تھا۔ میں پھر قبرستان کی بلندی سے نیچے اترنے لگا۔ آسمان پر ہلکی دھوپ اور بارش نے عجیب رنگ بکھیرے تھے۔ کہتے ہیں جس دن جند اعوان کے کھلے میدان میں عبدالخالق کی نمازِ جنازہ پڑھائی جا رہی تھی اس دن بھی ایسی ہی پھوار اتر رہی تھی اور جند اعوان کے آسمان پر یہاں سے وہاں تک قوسِ قزح کے دلربا رنگ بکھر گئے تھے۔ یوں لگتا تھا خوش رنگ آسمان کی وسعتیں پرندے کو اپنی آغوش میں لینے کے لیے بے قرارہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں