"SSC" (space) message & send to 7575

شاعری‘ محبت اور مزاحمت

وہ ٹورونٹو میں اگست کی ایک خوش گوار سہ پہر تھی اور ہمارے دوست یعقوب ملک نے اپنے گھر چند دوستوں کو بلا رکھا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد میری پاکستان وا پسی تھی۔میں جون کے پہلے ہفتے میں یہاں آیا تھااور اب اگست کے مہینہ کا وسط تھا۔ دن‘ ہفتے‘ مہینے گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور اب واپسی کی گھڑی آگئی تھی۔ اورآج کی دعوت یعقوب ملک کے گھر چند دوستوں کا اجتماع تھا جن میں قدرِ مشترک کتاب سے محبت اور ادب کا ذوق تھا۔ ان میں سلمان حیدر بھی تھا جو تقریباً پانچ سال قبل پاکستان سے یہاں آیا تھا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ سلمان ٹورونٹو سے 40کلو میٹر دور Bramptonمیں رہتا ہے اورآج دوستوں سے ملنے کیلئے اتنی دور سے مصروف ہائی وے پر ڈرائیو کرتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ہم گھر کے پچھلے لان میں ایک قدیم درخت کے نیچے بچھی سفید کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی پُر کیف ہوا چل رہی تھی۔باتوںباتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ یہاں پر ڈنر سات بجے تک کر لیا جاتا ہے۔ پُرتکلف کھانے کے بعد شعرو شاعری کی باتیں شروع ہو گئیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہی سلمان کی شاعری کی کتاب ''حاشیے پر لکھی نظمیں‘‘ شا ئع ہوئی تھی جس نے ادب کے سنجیدہ قارئین کو چونکا دیا تھا۔ آج سلمان کی نظمیں اس کی زبانی سننے کا موقع تھا۔ میری فرمائش پر سلمان نے کرسی پر پہلو بدلا اور کہا: میرے پاس کتاب تو نہیں ہے کہ اس سے پڑھ کر سناؤں؛ البتہ اپنے فون پر دیکھتا ہوں شاید کوئی نظم مل جائے۔ سلمان کو موبائل پر اپنی نظم مل گئی۔ سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ سلمان نے نظم سنانا شروع کی۔ یہ ایک طویل خوبصورت نظم تھی جس کے رنگوں کی پھوار میں ہم سب بھیگ رہے تھے۔ کہتے ہیں ادب میںازل سے ابد تک گنے چنے موضوعات ہیں لیکن ان موضوعات کی Treatment ان میں تازگی کی مہک جگاتی ہے۔ سلمان کی شاعری میں یہ تازگی اس کی ڈکشن‘ اسلوب اور اندازِ فکر سے نمو پاتی ہے۔ اس کے امیجز سراسر اس کے اپنے ہیں۔ یہ امیجز سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے تصویریں اور منظر روشن کر دیتے ہیں۔ اس روز سلمان نے جو نظم سنائی اس کا نام'' فش اینڈ چیس‘‘ تھا۔ سلمان کی شاعری میں امیجز کیسے منظر تخلیق کرتے ہیں یہ تین سطریں ملاحظہ کریں:
سر پیچھے پھینک کر ہنسنے سے پہلے وہ بول اُٹھی؍ اس کی ہنسلی کی ہڈیوں کے بیچ قہقہہ؍ بندر گاہ پر ٹھہری کشتیوں کی طرح لرزہا تھا
سلمان کی کتاب کا عنوان ''حاشیے پر لکھی نظمیں‘‘ ہے۔سچ پوچھیں تو یہ واقعی حاشیے پر لکھی شاعری ہے جو مروجہ موضوعات‘ اسلوب اور ڈکشن سے بغاوت ہے۔ یہ وہ شاعری ہے جو روایت اور طاقت کے ترتیب کردہ صفحے کو رد کرتی ہے اور حاشیے میں اپنی Spaceخود تخلیق کرتی ہے۔ سلمان کی نظموں میں ناانصافی ایک مسلسل موضوع ہے۔ ناانصافی جہاں بھی ہو اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتی ہے۔ ایسے میں وہ چیخنا چاہے تو چیخ نہیں سکتا۔ رونا چاہے تو اونچی آواز میں رو نہیں سکتا۔ تب اس کی نظمیں اس کا سہارا بنتی ہیں لیکن نظم کی تخلیق کا یہ عمل آسان نہیں۔ کہتے ہیں تخلیق اور درد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پھر بھی نظم لکھنا اس کیلئے Catharsis کا سامان ہے۔ وہ نظم میں جیتا ہے‘ نظم کو اوڑھتا اور بچھاتا ہے اور اس سے باتیں کرتا ہے۔ وہ ہر نظم کی تہہ میں محبت دیکھتا ہے کبھی یہ محبت مزاحمت کا روپ دھار لیتی ہے اور کبھی بغاوت کا بسنتی چولا اوڑھ لیتی ہے۔
سلمان کی نظمیں بقول اس کے حاشے پر لکھی نظمیں ہیں لیکن کبھی کبھار اپنی انفرادیت‘ ندرت فکر اور غیر روایتی آہنگ کی وجہ سے صفحے کے حاشیے سے بھی باہر نکل جاتی ہیں۔ مروجہ فکر اور روایتی طریق اظہار سے روگردانی اس معاشرے میں جرم ہے جہاں بچوں کو گھر اور سکول کے ابتدائی دنوں سے تقلید کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ صفحے سے باہر جانے کا انجام اسے معلوم ہے۔ ''صفحے سے باہر ایک نظم‘‘میں وہ لکھتا ہے:
نظموں کا صفحوں سے باہر نکلنا جرم ہے
کتابوں کو الماریوں سے رہا کرنے کی طرح سنگین
سلمان کی نظموں کا مرکزی موضوع گمشدگی‘ ہجرت اور Displacement ہے۔ یوں سلمان نے شاعری کو مزاحمت کا ذریعہ بنالیاہے۔ محبت جو اس کے خیال میں مزاحمت کی قدیم شکل ہے جس کی پاداش میں اسے سخت ترین مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ایک دن وہ اپنے خوابوں کے نگر سے بہت دور کینیڈا کی کھلی فضاؤں کی پناہ میں آگیا۔ ہجرت کا یہ تجربہ Displacement کی اذیت سے جڑا ہوا ہے جس کا احوال ایڈورڈ سعید کی کتاب Out of Place میں ملتا ہے‘ لیکن اس اذیت کے ساتھ جڑا ہوا طمانیت کا وہ احساس بھی ہے کہ وہ اپنے حصے کا سچ بولنے کا حق ادا کر رہا ہے۔ اس کی نظم ''الوداعیہ‘‘ کی ان سطروں میں چھوڑی ہوئی راہوں کی کسک محسوس کی جا سکتی ہے:
آخری سکہ کل رات میں اس فوارے میں اچھال آیا تھا؍جس کے حوض میں کھڑا پانی؍ پہلا بوسہ لیتے ہونٹوں کی طرح کپکپاتا ہے؍ اور جس کی تہہ میں پرانے سکے؍ یا دنہ آنے والے مصرعوں کی طرح ؍ ایک لمحے کو جھلملا کر دھندلے پڑ جاتے ہیں
کہتے ہیں ہجرت اور Displacement کی اذیت عارضی نہیں مستقل ہوتی ہے۔ سلمان کی نظم ''ہجرت کا موسم‘‘ ہجرت کے اس کرب کا عکس ہے:
محبت کرنے والوں کے لیے گھر گھونسلوں ؍ اور شہر درختوں کی طرح ہوتے ہیں؍ تنکا تنکا یادوں سے بنے گھونسلے چھوڑنا؍ آسان نہیں؍ درختوں کی خوشبو بہت دور تک پرندوں کا پیچھا کرتی ہے
گئے دنوں اور بچھڑی رتوں کی خوشبو اسے ٹورونٹو کے اجنبی دیار میں بے چین رکھتی ہے۔ بقول اس کے :
یاد داشت سکوں کی کلیکشن ہوتی ہے
ہم اس کے لیے لمحوں کی ریز گاری جمع کرتے ہیں
اپنی مٹی کی مہک سے دور وہ ٹورونٹو کی وسعتوں میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اس کے خیال میں ''تنہائی کے بیچ یہ جگہ بہت اکیلا کر دینے والی ہے۔ یہاں کوئی آپ کی بات سننے والا نہیں نہ آپ کے ساتھ خاموش بیٹھا رہنے والا۔ یہاں آپ اکیلے بیٹھے مسکراتے ہیں اور اپنی سسکیاں سنتے سنتے سو جاتے ہیں ـ‘‘۔اس روز کینیڈا کی شام دھیرے دھیرے رات میں ڈھل رہی تھی۔ سلمان نے اپنی نظموں کے طلسم کا جال ہم پر پھینک دیا تھا۔ وقت دبے پاؤں گزر رہا تھا۔ تب اچانک ہمیں احساس ہوا کہ رات گہری ہو گئی ہے۔ اب مہمان ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے۔ میں بھی سلمان کے ہمراہ باہر نکل آیا۔ ہوا میں ہلکی خنکی بس گئی تھی۔ اس نے اپنے جیکٹ کے کالر اوپر اٹھا لیے‘ گرمجوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور آہستہ آہستہ اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ایک بار پھر گاڑی کا شیشہ اتار کرہاتھ ہلایا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔اورمیں گلی میں کھڑاسوچ رہا تھا۔ وہ اکیلے ڈرائیو کر کے واپس Brampton جا ئے گا جو یہاں سے لگ بھگ 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ سارا راستہ خود سے باتیں کرتا رہے گا اور پھر ہمیشہ کی طرح ایک اجلے سویرے کی آہٹ سنے گا۔ وہ سویرا جو اس کی زندگی میں نہ سہی اس کے بیٹے کی زندگی میں ضرور آئے گا۔ تب مجھے اس کی نظم کی یہ سطریں یاد آجاتی ہیں:
زندگی کٹھن ہے اور دوست دور
لیکن امید میرے بیٹے کی محبت بنے گی
اور خوف
اسے وہ میرے ساتھ زمین کے سینے میں اُتارے گا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں