بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے دربار میں ستون سے ٹیک لگائے میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر دربار کے زائرین میں تقسیم کی جانے والی چُوری رکھی تھی۔مجھے حیرت کے عالم میں دیکھ کر وہ ہنستے ہوئے بولی :لگتا ہے آپ کی کوئی مراد نہیں۔ اسی لیے تو آپ نے دربا ر کی تبرک والی چُوری نہیں لی۔ میں نے کہا: میں دراصل یہاں اپنے دوست کا انتظار کر رہا ہوں‘ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ پانچ بجے تک آجائے گا۔ اس کا فقیروں کے خاندان سے تعلق ہے۔ وہ یہاں شاہ صاحب کا کلام سناتا ہے۔ بس کلام سننا ہے اور پھر کراچی کے لیے روانہ ہو جانا ہے۔اس نے کہا: میرا نام وِیرا ہے اور میرا تعلق جرمنی سے ہے۔ مجھے بھٹ شاہ کی کشش یہاں لے آئی ہے۔یہ کہہ کر وہ پھر ہنس پڑی اور ہر طرف گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ بشارت لوگوں کے ہجوم میں میری طرف بڑھ رہا ہے۔ آتے ہی وہ کہنے لگا: معاف کریں مجھے ذرا دیر ہو گئی۔ سماع کی محفل تو رات نو بجے شروع ہو گی لیکن آپ نے چونکہ جلدی واپس جانا ہے اس لیے میں نے آ پ کے لیے خاص اہتمام کیا ہے۔ یہیں دربار کے احاطے میں ایک کمرہ ہے وہاں میں اور میرے دوست آپ کو شاہ صاحب کا کلام سنائیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا‘ ویرا نے آگے بڑھ کر بشارت سے کہا‘کیا میں بھی کلام سن سکتی ہوں؟ بشارت بولا: کیوں نہیں‘ ضرور! ہم سب ایک چھوٹے سے کمرے میں چلے گئے جہاں فرش پر قالین بچھا تھا۔ وہاں بشارت کے دو اور ساتھی بھی تھے۔ ہم سب بوسیدہ قالین پر بیٹھ گئے۔ بشارت نے کبیر اور میراجی کے کلام سے آغاز کیا اور پھر شاہ صاحب کا کلام سنانے لگا۔ یہ شاہ صاحب کا کلام تھا ، تنبورے کی دھن تھی یا دلوں میں اترتی ہوئی بشارت کی آواز‘ ہم اپنے ارد گرد سے بے نیاز ہو گئے تھے۔ ایک گھنٹہ گزر گیا اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔محفل کے اختتام پر ویرا نے کہا: میری خواہش تھی کہ سماع کی محفل میں شرکت کروں لیکن یہ جان کر مایوس ہو گئی تھی کہ سماع کی محفل رات کے نو بجے ہو گی۔ یوں میری خواہش کاپورا ہونا معجزے سے کم نہیں۔ پھر وہ خود ہی ہنستے ہوئے بولیــ:میں نے کہا تھا نا کہ تبرک کی چُوری کھانے سے دل کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔اس کی بات سن کر ہم سب ہنس پڑے۔
جب ہم نے بشارت سے رخصت لی تو اس وقت شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے۔ ویرا نے بتایا کہ اسے اپنے دو ساتھیوں کا انتظار کرنا ہو گا جو رانی کوٹ کا قلعہ دیکھنے گئے ہیں اور آٹھ بجے اسے لینے آئیں گے۔ وہ کہنے لگی: کیا آپ آٹھ بجے تک مجھے کمپنی دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا: مجھے کوئی جلدی نہیں۔ ہم دونوں دربار کی بیرونی طویل سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ اس نے اپنے سر پر باندھا ہوا رومال اتار کر اپنے بیگ میں رکھ لیا اور بالوں کو دائیں بائیں جھٹکا دیا۔ اس وقت بھٹ شاہ کے گلی کوچوں میں اندھیرا اتر رہا تھا اور دکانوں کے قمقمے روشن ہو چکے تھے۔
یہ دسمبر کا مہینہ تھا‘ سورج غروب ہونے کے بعد ہوا میں ہلکی سی خوشگوار خنکی تھی۔ وہ کہنے لگی :اس وقت جرمنی میں تو ہر طرف برفباری ہو رہی ہو گی۔ گلیاں، سڑکیں، درخت اور مکانوں کی چھتیں سب سفید ہوں گی۔ اچانک خیال کی ایک لہر آئی اور میں نے اس سے پوچھا: آپ نے اپنے ہم وطن ہرمن ہیس(Hermann Hesse) کا ناول سدارتھا (Siddhartha) تو پڑھا ہو گا؟ میری بات سن کر وہ ہنسی اور کہنے لگی: اوہ کیا یاد کرایا آپ نے‘ یہ ناول مجھے میرے پسندیدہ استاد پروفیسر ریمی (Remy)نے تحفے میں دیا تھا۔ دراصل میں نے اس کے ابتدائی صفحات پڑھنے کے بعد اختتام پڑھ لیا تھا۔ پھر وہ خود ہی ہنس پڑی ''پتا نہیں کیوں لیکن میں ہر وقت ذرا جلدی میں ہوتی ہوں‘‘۔ میں نے کہا: تمہیں اپنے ملک سے نکلے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں موند لیں جیسے چشمِ تصور میں اپنا گھر دیکھ رہی ہو ''شاید ایک برس ہو گیا ہے‘‘۔ میں نے کہا: تم اپنے گھر کو مِس نہیں کرتی؟۔ ''میں اپنے وطن کو یاد کرتی ہوں۔ اپنے وطن اپنے گھر اور اپنے بوڑھے ماں باپ کو۔ وہ کچھ دیر کے لیے رُک گئی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور بولی: لیکن میں سب سے زیادہ جس شخص کو مِس کرتی ہوں وہ کالج میں میرے فرانسیسی ادب کے استاد تھے‘ان کا نام ریمی (Remy)تھا۔ میں کلاس کی بہت شرمیلی سی لڑکی تھی، چپ چپ، خاموش، اندر کی دنیا میں گم۔ پروفیسرریمی نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ مجھ میں تخلیق کار دریافت کیا۔بھٹ شاہ کی رات کے پھیلتے اندھیرے میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھامیں ویرا کی کہانی سن رہا تھا۔ پروفیسر ریمی کا یہ رویہ صرف میرے ساتھ نہیں تھا۔ وہ سب کے لیے ایک اِنسپریشن تھے۔ایک روز پروفیسر ریمی کی کلاس میں خوابوں پر بحث ہو رہی تھی۔میں نے پروفیسر ریمی کو بتایا کہ میں بہت کم خواب دیکھتی ہوں مگر اکثر ان خوابوں کی تعبیر سچی ہوتی ہے۔ پروفیسر ریمی نے کہا :کچھ لوگ روحانیت کے بلند درجے پر ہوتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے اپنا آپ بہت اہم نظر آنے لگا‘ یہی پرفیسر ریمی کا کمال تھا۔ دوسروں کو ان کی اہمیت کا احساس دلانا۔ پھر ایک دن اچانک خبر ملی کہ پروفیسر ریمی اگلے ہفتے کالج چھوڑ کر جا رہے ہیں۔یہ خبر سن کرمجھے ایک دھچکا سا لگا۔ میری زندگی میں تو ان کا بہت دخل تھا‘ مجھے لکھنے پر انہوں نے مائل کیا میرا حوصلہ بڑھایا۔ ہماری کلاس نے فیصلہ کیا کہ پروفیسر ریمی کو الوداعی دعوت دیں گے۔ مجھے خیال آیا کہ انہوں نے ہی مجھے سدارتھا ناول تحفے میں دیا تھا‘لیکن انہوں نے اس پر کچھ نہیں لکھا تھا۔میں نے سوچا تھا کہ یہ کتاب بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گی اور اس پرا ن کے دستخط کراؤں گی۔ میں نے ناول اپنے بیگ میں رکھ لیا اور گھر کا دروازہ بند کر کے یونیورسٹی جانے لگی لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ میرے قدم رکنے لگے اور میں الٹے قدموں اپنے گھر واپس آگئی۔آج بھی سوچتی ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتی میں نے ایسا کیوں کیا۔ پھر مجھے خیال آیا وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ زندگی بہت Unpredictableہے۔ کل کا بھروسا نہیں۔ اس دن کے بعد میں نے پروفیسر ریمی کی کو کبھی نہیں دیکھا، کبھی نہیں ملی۔ اب اس بات کو ایک مدت گزر گئی ہے لیکن مجھے یوں لگتا ہے وہ تصور میں اب بھی میری زندگی کا حصہ ہیں۔یہاں پہنچ کر اچانک اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا اور بولی: اوہو‘ آٹھ بج رہے ہیں۔ پارکنگ میں میرے دوست آگئے ہوں گے۔ اس نے اپنی کمر پر بیگ رکھا، جوتوں کے تسمے باندھے اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ہم پھولوں کی دکانوں والے راستے پر چلتے ہوئے چوک تک آگئے۔اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا جہاں سیاہ بادلوں نے چھاؤنی ڈال رکھی تھی اور تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ''اب میں چلتی ہوں۔ مجھے یقین ہے ہم ایک بار پھر ضرور ملیں گے۔ شاید کسی مزار پر، کسی درگاہ پر یا کسی ویران راستے پر۔ اس لیے کہ ہم دونوں تلاش کے نہ ختم ہونے والے راستے کے مسافر ہیں‘‘۔میں نے بلا سوچے سمجھے اقرار میں سر ہلایا اور اسے اپنی گاڑی کی جانب جاتے دیکھتا رہا۔ اب آسمان سے ہلکی پھوار برسنا شروع ہو گئی تھی اور ہوا میں تیزی آگئی تھی۔ بھِٹ شاہ کی رات میں ادھر ادھر چراغ جل رہے تھے اور میں تھکے تھکے قدموں سے پارکنگ کی طرف جا رہا تھا۔