ستیش کو لندن کے انڈر گراؤنڈ ٹیوب سٹیشن پر کھڑے کئی گھنٹے گزر گئے۔ اس کے کزن ہربنس سنگھ کا کوئی اَتا پتا نہ تھا۔ اچانک اس ہجوم میں ایک شناسا چہرہ نظر آیا۔ یہ بحری جہاز میں اس کا ایک ہم سفر تھا جس کا تعلق جنوبی ہندوستان سے تھا۔ ستیش اس کی طرف یوں لپکا جیسے کوئی مسیحا آگیا ہو۔ وہ دونوں ہربنس کے تمام ممکنہ ٹھکانوں پر گئے۔ بالآخر انہیں ہربنس کا گھر مل گیا جہاں پر ٹامس کُک ٹریولز کی طرف سے پیغام تھا کہ کل ہوائی جہاز میں ایک سیٹ کا بندوبست ہو گیا ہے۔ یوں اگلے روز ستیش ہوائی جہاز کے ذریعے نیویارک پہنچ گیا اور وہاں سے میکسیکو‘ جہاں کے لیے اسے سکالرشپ ملا تھا۔میکسیکو کا قیام اس کی زندگی میں ایک اہم موڑ تھا جہاں اسے آرٹ کی دنیا کے دو عظیم مصوروں کے ساتھ آپرینٹس شپ کا موقع ملا۔ ستیش نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا۔ میکسیکو میں اپنے قیام کے دوران اسے آرٹ کی دنیا میں مختلف امکانات کا اندازہ ہوا اور اسے پتا چلا کہ creativity کسی بھی فن کی روح ہوتی ہے۔ میکسیکو میں سیکھے اس سبق نے ستیش کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا اور وہ مختلف میڈیمیز کے ساتھ تجربے کرتا رہا‘ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ بیک وقت ایک مصور‘ مجسمہ ساز‘ آرکیٹیکٹ اور رائٹر تھا۔اس دوران اس نے بہت سی پینٹنگز بنائیں اور اس کی پینٹنگز کی نمائش بھی ہوئی۔ سکالر شپ کا عرصہ ختم ہونے کے بعد وہ میکسیکو سے نیویارک آگیا‘ نیویارک میں اسے کچھ دوست مل گئے۔وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ یہیں ٹھہر جائے یا واپس اپنے ملک چلا جائے۔ اس کے والد اور بھائی اِندر اسے واپسی کے لیے کہہ رہ تھے۔ آخر ستیش نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک واپس چلا جائے۔
یہ 1955ء کا سال تھا جب ستیش واپس دہلی پہنچا۔ اس کے دہلی پہنچنے سے پہلے ہی اس کی شہرت وہاں پہنچ چکی تھی۔ اس کی شہرت کو چار چاند لگانے میں اُس وقت کے آرٹ کے نقاد Fabri کا بھی ہاتھ تھا جو ایک معروف انگریزی اخبار میں آرٹ کے حوالے سے لکھا کرتا تھا اور اس کے لکھے کو سند سمجھا جاتا تھا۔ ستیش دہلی آیا تو اس شہر کے ساتھ اس کے پرانے راستے بھی زندہ ہو گئے۔ ستیش اپنے والد اور بھائی اِندر کے سیاسی رجحا نات سے متاثر تھا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شاعروں اور ادیبوں سے اس کا رابطہ تھا۔ ان میں علی سردار جعفری سرِ فہرست تھے۔ ستیش کے والد اوتار نارائن لالہ لاجپت رائے کی شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔ یوں ستیش کو لالہ لاجپت رائے کی شخصیت سے ایک جذبانی لگاؤ تھا۔ دہلی میں بائیں بازو کے کچھ رہنماؤں کی درخواست پر ستیش نے لالہ لاجپت رائے کا پورٹریٹ بنایا اور اس میں اپنے فن اور جذبے کو یکجا کر دیا۔یہ پورٹریٹ اب ہندوستان کی پارلیمنٹ میں آویزاں ہے۔ ستیش کا بنایا ہوا ایک اور اہم پورٹریٹ جواہر لال نہرو کا ہے۔ان دنوں ستیش اپنے فن کی بلندیوں پر تھا اور بطور فن کار اس کی شہرت دور و نزدیک پھیلی ہوئی تھی لیکن اس کے اندر ایک گہرا سکوت اور خاموشی تھی اور وہ بھری محفلوں میں بھی تنہا تھا۔ تب اس کی ملاقات کرن سے ہوئی۔ وہ آرٹس کالج میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی اور ستیش کے فن سے متاثر تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ عمر بتانے کا فیصلہ کیا اور شادی کرلی۔ ستیش کو یاد ہے کہ ایک بار فیض احمد فیضؔ جیل سے رہائی کے بعد دہلی آ گئے۔ جیل میں انہوں نے شاعری پر مبنی کتاب ''زنداں نامہ‘‘ لکھی تھی۔ انہوں نے ستیش سے کتاب کا سر ورق بنانے کو کہا یوں ستیش کو اپنے پسندیدہ شاعر کی کتاب کو سرورق بنانے کا موقع ملا۔
کہتے ہیں ایک تخلیق کار یکسانیت سے اُکتا جاتا ہے کچھ نیا کرنے کی خواہش اسے ہر دم بے قرار رکھتی ہے۔ اب ستیش نے Muralsکے میدان میں قدم رکھا۔ یہ ایک بالکل نئی دنیا تھی جہاں اس نے کبھی لکڑی‘ کبھی پتھر‘ کبھی لوہے اور کبھی سرامکس کا استعمال کیا۔ آرٹ کی دنیا میں نئے امکانات ستیش کے سامنے آرہے تھے۔ Muralsبنانے کے لیے اسے عمارتوں کے تعمیراتی فن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کئی بار تو اس نے عمارت کے ڈیزائن کو بھی بدل ڈالا۔ یہیں سے اس کے سامنے امکانات کا ایک اور در کھلا۔ یہ آرکیٹکچر کی دنیا تھی جس نے ستیش کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ یوں روایتی طور پر دیکھا جائے تو آرکیٹکچر کے فن کی روایت میں ابتدائی دور میں آرٹسٹوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ستیش کے پاس آرکیٹکچر کا پہلا پروجیکٹ نوجوان صنعت کار مودی کا تھا جس نے ستیش کو اپنا گھر ڈیزائن کرنے کا کہا تھا۔ یہ آرکیٹکچر کے میدان میں اس کا پہلا کام تھا۔پھر ایک ہوٹل کی عمارت کو ڈیزائن کرنے کا کام آیا اور پھر وہ پروجیکٹ جس نے ستیش کو بین الاقوامی شہرت دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ دہلی میں بلجیم کے سفارت خانے کی تعمیر کا پروجیکٹ تھا۔ جب بہت سے دوسرے ڈیزائنز میں سے ستیش کا ڈیزائن منتخب ہوا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا لیکن اس کے ساتھ یہ شرط بھی تھی کہ تعمیر کی نگرانی بھی ستیش نے کرنی ہو گی۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی‘ایسے میں ستیش کے بھائی اندر اور ستیش کی بیوی کرن نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ عمارت کی تعمیر شروع ہو گئی لیکن اسی دوران ایک حادثہ ہوا‘ستیش ایک تختے سے گرا اور اس کی داہنی ٹانگ فریکچر ہو گئی۔ یہ وہی ٹانگ تھی جو اس کے بچپن میں ایک حادثے میں زخمی ہوئی تھی‘ تب ڈاکٹر نے ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ سفارت خانے کی عمارت کی تعمیر شروع ہو چکی تھی‘ ایسے میں ستیش اپنی پلستر والی ٹانگ کے ساتھ ایک وہیل چیئر پر آتا اور صبح سے لے کر شام تک کام کی نگرانی کرتا۔ اس دوران اس ٹانگ کے چار آپریشن ہو گئے۔ ہر آپریشن کے بعد ستیش کئی دنوں تک کام کی نگرانی نہ کر سکتا۔ایسے میں اس کا بیٹا موہیت‘جو آرکیٹکچر کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور کالج کے چوتھے سال میں تھا‘نے کالج کو خیر باد کہا اور والد کی مدد کے لیے آگیا اور کام کی نگرانی میں ستیش کی مدد کرتا تھا اور آرکٹیکچر کے وہ اسرار و رموز جو شاید وہ دس سال میں سیکھتا اس نے کچھ مہینوں میں سیکھ لیے۔ دہلی میں بلجیم کے سفارت خانے کی عمارت تیار ہوئی تو اس کے حسن اور انفرادیت نے سب کو چونکا دیا۔ ستیش آرٹ کی دنیا کی بلند چوٹی سر کر چکا تھا۔ اس نے مصوری‘ مجسمہ سازی اور آرکیٹکچر میں خود کو منوا لیا تھا۔ ستیش اور کرن کا بیٹا موہیت آرکیٹکچر کا بڑا نام ہے ان کی دو بیٹیاں الپنا ا ور رسیل ہیں۔ الپنا انٹریئر ڈیزائنر ہے اور رسیل فرنیچر ڈیزائن کرتی ہے۔ یو ں تینوں بچوں نے اپنے فن میں نام پیدا کیا۔ ستیش نے ستانوے برس کی لمبی عمر پائی۔ زندگی کے آخری دنوں میں اسے یہ اطمینان تھا کہ اس نے اپنے سب خوابوں کی تعبیر پالی تھی۔ کبھی کبھار جب وہ اپنے کمرے میں تنہا ہوتا تو اسے جہلم میں اپنے بچپن کے گزارے وہ دن رات یاد آجاتے اور پھر وہ روشن دن یاد آ جاتا جب اس کے والد نے اسے ایک درخت پر بیٹھے پرندے کی تصویر بناتے دیکھا تھا اور اسے مصوری کی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستیش اکثر سوچتا معلوم نہیں اس کے جہلم والے گھر کے قریب وہ درخت اب بھی ہو گا یا نہیں اور اس درخت پر بیٹھنے والے پرندے کہاں ہوں گے ؟ اور ان پرندوں میں وہ پرندہ جس کی تصویر اس نے کاغذ پر بنائی تھی۔ وہی تصویر جس نے اس کی زندگی کا رُخ بدل دیا تھا اور اور وہ زندگی کی شاہراہ پر قدم قدم چلتا ہوا اس مقام تک آ پہنچا تھا جہاں دولت‘ عزت اور شہرت کی بلندیاں اس کے قدموں کے نیچے تھیں۔ (ختم)