"SSC" (space) message & send to 7575

موتی و مرجان کی سرزمین … (آخری قسط)

دبئی کے ابنِ بطوطہ مال میں گھومتے ہوئے اب بہت دیر ہو گئی تھی۔ اچانک مجھے اپنے دائیں طرف ایک چائے خانہ نظر آیا۔ اس کی پیشانی پر لکھا تھا Kahve Dunyasi۔ یہ ایک نفیس چائے خانہ تھا۔ کچھ ہی دیر میں ٹرکش چائے آگئی۔ ٹرکش چائے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بغیر چینی اور دودھ کے کانچ کی چھوٹی خوبصورت پیالیوں میں چائے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ مَینا نے پوچھا: آپ پھر کبھی کراچی کے ملیر کینٹ نہیں گئے؟ میں نے کہا :ہاں ایک بار گیا تھا لیکن وہاں مجھے پرانا ملیر کینٹ نہیں ملا‘ اب وہاں بہت آبادی ہو گئی ہے۔ کئی شاپنگ پلازہ بن گئے ہیں۔ سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔ میں اس سٹریٹ میں بھی گیا جہاں کبھی ہمارے گھر ہوا کرتے تھے۔ میں کراچی کے بیتے دنوں کی بات کر رہا تھا اور مَینا کی آنکھوں میں روشنی سی ہو گئی تھی۔ اس نے کہا: یاد ہے جب ہم ملیر کینٹ کے اکلوتے ریستوران جایا کرتے تھے۔ شاکر کی کتابوں کی دکان کے سامنے چپلی کباب بنتے تھے۔ کتنی ہی بار ہم وہاں گئے تھے۔ ہمارے گھروں سے کچھ فاصلے پر ایئر پورٹ تھا اور ہم چھتوں سے آتے جاتے جہازوں کو دیکھتے تھے۔ آپ کو یاد ہے جب ہم لوگ مل کر ٹھٹھہ گئے تھے اور وہاں کی مسجد دیکھی تھی۔ میں نے کہا: ہاں‘ وہ شاہ جہاں کی مسجد جسے سترہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مسجد کی خاص بات اس میں خوبصورت ٹائلوں کا استعمال تھا۔ مَینا نے ہنستے ہوئے کہا: پھر آپ کی خواہش پر ہم مکلی کے قبرستان گئے تھے اور سچ پوچھیں وہاں قبروں پر بنے ہوئے دیوہیکل سٹرکچر کو دیکھ کر میں تو ڈر گئی تھی۔ مکلی سے نکلنے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ راستے میں ہم ایک ڈھابے پر رکے تھے جہاں ہم نے چارپائیوں پر بیٹھ کرگرم روٹیوں کے ساتھ فرائی دال کھائی تھی۔ اس ٹرپ میں ہماری آخری منزل کینجھر جھیل تھی جہاں ہم کتنی ہی دیر جھیل کے کنارے پر بیٹھے بہتے پانیوں کو دیکھتے رہے۔
مَینا کی زبانی ٹھٹھہ کے ٹرپ کا احوال سن کر مجھے وہ دن اور اس دن سے جڑی ساری باتیں یاد آ گئیں۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں اس وقت ملیر کینٹ میں نہیں بلکہ دبئی کے ابنِ بطوطہ مال کے ایک ٹرکش چائے خانے میں بیٹھا ہوں۔ چائے ختم ہو چکی تو ہم پیدل ہی گھر کی طرف روانہ ہو گئے‘ جہاں بچے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں مَینا کا شوہر طارق بھی آگیا‘ اس کے ہمراہ وقاص تھا۔ وقاص مَینا کا بھائی اور میرا بھانجا ہے۔ وہ کچھ عرصہ پہلے ہی دبئی آیا ہے۔ وقاص کہنے لگا: آج ڈنر ہم دبئی مرینہ میں کریں گے۔ دبئی مرینہ کا رات کا حسن جدا تھا۔ بلند و بالا عمارت کی رنگ برنگ روشنیوں کے عکس پانیوں میں تھر تھرا رہے تھے۔ ہوا میں خنکی گھل گئی تھی۔ ہم کسی لبنانی ریستوران کی تلاش میں تھے۔ چلتے چلتے ہم نے ایک ریستوران کی پیشانی پر ''حبیب بیروت‘‘ لکھا دیکھا۔ یہ ایک لبنانی ریستوران تھا۔ ہمیشہ کی طرح لبنانی کھانا بہت اچھا تھا۔ کھانے پر خوب گپ شپ رہی۔ رات گئے ہم گھر کے لیے روانہ ہوئے اور بستر پر پہنچتے ہی نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ صبح سویرے جاگا اور لاؤنج میں آیا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ شاید سب لوگ سو رہے تھے۔ میں لاؤنج کی بالکنی میں چلا گیا جہاں بارش کی ہلکی ہلکی پھوار نے میرا استقبال کیا۔ دبئی میں اس موسم میں بارش انہونی سی بات تھی لیکن کہتے ہیں دنیا بھر میں موسموں کا Patternبدل رہا ہے۔ سنا ہے اب پاکستان میں بھی زیادہ بارشیں ہوا کریں گی۔ آج دبئی میں میرا آخری دن ہے‘ سوچتا ہوں وقت کیسے پر لگا کر اُڑ گیا۔ یوں لگتا ہے کل کی بات ہے جب شاداب مجھے دبئی ایئر پورٹ پر لینے کے لیے آیا تھا۔ دو دن میں شاداب‘ سمیرا اور مناہل کے پاس رہا‘ جہاں سے طو بیٰ اور عمران مجھے عجمان اپنے گھر لے گئے‘ جہاں دو دن رہنے کے بعد مَینا اور طارق کے گھر آیا۔ یہاں کے دو دن بھی پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ میں واپس لاؤنج میں آگیا اور کچن سے ایک کپ چائے بنا کر پھر بالکنی میں جا کھڑا ہوا۔ بارشوں کا اپنا رومانس ہے۔ میں نہ جانے کتنی دیر وہاں کھڑا رہتا کہ لاؤنج میں چائے کے برتنوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ میں بالکنی سے لاؤنج میں آیا تو دیکھا مَینا اور طارق لاؤنج میں آگئے تھے۔ طارق نے کہا: دبئی میں ایسا موسم کم کم ہوتا ہے۔ طارق کو یونیورسٹی سے دیر ہو رہی تھی‘اس نے جلدی سے ناشتہ کیا اور مجھے گلے مل کر رخصت ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد بچے بھی جاگ گئے اور لاؤنج میں خوب رونق ہو گئی۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ عجمان سے طوبیٰ کا فون آیا کہ بارش کی وجہ سے وارننگ جاری ہوئی ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک میں رکاوٹ آسکتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں ایئر پورٹ کے لیے ایک ڈیڑھ بجے تک نکل جانا چاہیے۔ مَینا نے کہا: ہم ناشتہ ایک خاص جگہ پر کریں گے۔ آپ کو وہاں جا کر بہت اچھا لگے گا۔ یہ Shakespeare and Co. کیفے ہے اور ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ہے۔ بچے ناشتے کے ساتھ ساتھ کارٹون دیکھ رہے تھے۔ ہم باہر نکلے تو ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ یوں تو گھر سے فاصلہ زیادہ نہیں تھا لیکن بارش کی وجہ سے ہم گاڑی میں Shakespeare and Co. پہنچے۔ شیکسپیئر انگریزی زبان کا معروف ڈرامہ نگار شاعر اور اداکار تھا جس کے ڈراموں میں دانائی‘ حکمت اور زندگی کا فہم ملتا ہے۔ شیکسپیئر اینڈ کو کیفے کا آغاز دبئی میں 2001ء میں ہوا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دو دہائیوں میں اس کی تیس سے زیادہ شاخیں کھل چکی ہیں۔ کیفے میں داخل ہوتے ہی یوں لگتا ہے جیسے ہم سولہویں صدی میں داخل ہو گئے ہیں۔ دیواروں پر تصویریں‘ چھتوں پر نقش نگاری‘ فرنیچر اور مینیو کارڈ‘ہر چیز میں ایک خاص طرح کی انفرادیت تھی۔ ہم شیشے کی دیوار کے ساتھ والی میز پر بیٹھ گئے۔
ویٹر کی سفارش پر ہم نے بریک فاسٹ پیزا کا آرڈر دیا تھا۔ شیشے کی دیوار کے اُس طرف بارش اب تیز ہو گئی تھی۔ مجھے خیال آیا گورڈن کالج میں سجاد شیخ نے ہمیں شیکسپیئر کا ڈرامہ ہیملٹ (Hamlet) پڑھایا تھا۔ مَینا نے کہا: آپ نے بالی وُڈ کی فلم ''حیدر‘‘ دیکھی ہے جو ہیملٹ سے انسپائر ہو کر بنائی گئی ہے۔ میں نے کہا: ہاں یہ ایک خوبصورت فلم ہے۔ شیکسپیئر اینڈ کو میں بیٹھے ہم دیر تک شیکسپیئرکے ڈراموں کی باتیں کرتے رہے۔ تب میں نے کہا: اب ہمیں گھر چلنا چاہیے کیونکہ کچھ دیر میں ایئر پورٹ کے لیے نکلنا ہو گا۔ گھر پہنچ کر میں نے اپنے کمرے میں جا کر بیگ پیک کیا اور واپس لاؤنج میں آ گیا۔ مَینا نے مجھے ایئر پورٹ چھوڑنا تھا۔ میں نے بچوں کو خدا حافظ کہا اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہو گئے۔ سڑکوں پر بارش جاری تھی۔ آدھ گھنٹے میں ہم ایئر پورٹ کی عمارت کے سامنے تھے۔ باہر پارکنگ کی جگہ کم تھی۔ مَینا نے گاڑی روکی اور میں اسے خدا حافظ کہہ کر مین سڑک پار کرکے ٹرمینل کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ ٹرمینل میں داخل ہونے سے پہلے میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا‘ سڑک کے اس پار مَینا ابھی تک گاڑی میں بیٹھی تھی۔ اس نے مجھے ہاتھ ہلایا۔ میں نے جوابی ہاتھ ہلایا اور ٹرمینل میں داخل ہو گیا۔ مجھے وہ دن یاد آنے لگے جب میں اسے کراچی یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے اتارتا تھا اور اس وقت وہاں کھڑا رہتا تھا جب تک آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جاتی تھی۔ پھر میں نے سوچا زندگی بھی ایک سٹیج ڈرامہ ہے جس میں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے کردار بدل جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں