سووینئر

اُنیس سال ہوتے ہیں‘ 30 ستمبر 1995ء کا دِن مجھ سمیت چند لوگوں کی زندگیوں پر گہرے نقوش ثبت کرتا گزر گیا تھا۔ اور اب یوں ہے کہ 30 ستمبر کا دِن ہر سال آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے‘ جیسے اِس سال بھی یہ دِن آیا اور حسبِ معمول گزر گیا‘ لیکن ہر سال یہ دِن چند لوگوں کی ایسے شخص سے تعلق کی کہانی دُہراتا ہے‘ جو مختصر وقت کے لئے اُن کا رفیق ہوا اور شہید جیسے انتہائی معتبر درجے پر فائز ہو کر منظر سے اوجھل ہو گیا۔ اِس دھرتی کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں مٹی مانگ لے تو جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا اور بدنصیبی یہ ہے کہ اِس دھرتی پر صبح شام دندناتے پھرتے، اپنی اپنی خوشیوں میں مگن، خواہشوں اور تمناؤں میں اپنی ذات کو ہی مرکوز کیے آزاد اور پُرسکون فضاؤں میں سانس لینے والے لوگ‘ اِس بات سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں کہ کبھی کسی شخص نے اُن کے لئے جان جیسی قیمتی چیز بھی قربان کر دی تھی۔ کبھی کسی نے فرض کو جان سے زیادہ عزیز رکھا اور کبھی کسی نے مادرِ وطن کے لئے زندگی جیسی نعمت کو بھی حقیر جانا۔ 30 ستمبر کو مجھے دِن کے کسی حصے میں کیپٹن اخلاق فاروقی شہید کی موجودگی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو اُس کی یاد خوشبو کے ایک جھونکے کی طرح آتی ہے اور فضا کو معطر کرتی چلی جاتی ہے۔ میں اور میرے جیسے چند لوگ جو اخلاق فاروقی کی طرح عظیم راہوں کے مسافر نہ ہو سکے‘ زندگی بھر کے لئے شہید سے اپنی رفاقت کو باعثِ فخر خیال کرتے ہیں۔
میں اور فاروقی سیاچن کے ایک محاذ پر خدمت پر مامور تھے۔ میں وہاں پہلے سے تھا اور فاروقی بعد میں ہماری صفوں میں شامل ہوا۔ میں ہیڈکوارٹرز میں تھا‘ جہاں نئے آنے والے افسران اگلے محاذ پر جانے سے پہلے موسم اور دُشمن سے نبٹنے کے لئے تربیت اور بریفنگ کے سلسلے میں قیام کرتے ہیں۔ فاروقی بھی اِسی طرح ہیڈکوارٹرز میں آ کر مختصر مدت کے لئے مقیم ہوا۔ میرا اور اُس کا تعلق بہت ہی مختصر وقت کے لئے تھا‘ لیکن یوں لگتا تھا کہ ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ وہ بہت ہی نفیس، ہنس مکھ، سمارٹ اور دِلوں میں گھر کرنے والا انسان تھا۔ کچھ دِن ہیڈکوارٹرز میں قیام کے بعد اُسے اگلے محاذ پر جانا تھا۔ پھر جب وہ صبح روانہ ہو رہا تھا تو میں حسب معمول اُسے الوداع کہنے کے لئے اُس کی گاڑی تک گیا اور اُس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا، خدا حافظ کہا اور پھر دُور تک گرد اُڑاتی گاڑی کو دیکھتا دیکھتا اپنے دفتر چلا گیا۔
مجھے اندازہ تھا کہ اُس کو پہلے ایک گھنٹہ گاڑی پر سفر کرنا ہے اور پھر قر یب قریب چار گھنٹے کا سفر پیدل طے کر کے منزل تک پہنچنا ہے۔ شام کو طویل سفر طے کر کے اپنی منزل پر پہنچا تو اُس نے مجھے فون کیا۔ پہلے سفر کی تھکاوٹ اور پھر بوریت کا ذکر کیا۔ کہا: دِن بھر تو چلتا پھرتا رہوں گا‘ رات بہت بور ہو گی۔ میں نے کہا: بوریت کے لئے ایک کام کرنا! میں کل تمھیں لائبریری سے اچھی سے کتاب بھیجوں گا۔ مطالعہ کی عادت ڈالو! کتاب بہترین دوست ہے۔ تمھاری تنہائی دور کر دے گی۔ اگلے دِن صبح صبح پھر فون آ گیا اور اُس نے کہا کہ کتاب کی یاددہانی کے لئے فون کر رہا ہوں۔ میں جلدی جلدی لائبریری گیا اور ایک کتاب کا انتخاب کیا۔ اُس دِن ایک اور قافلہ روانہ ہو رہا تھا۔ اُن کے ہاتھ کتاب روانہ کر دی۔ کتاب روانہ کرنے سے پہلے میں نے نوٹ پیڈ سے ایک پیپر لیا اور اُس پر لکھا with love from your brother ، دستخط ثبت کئے اور وہ پیپر کتاب میں رکھ دیا۔ شام کو قافلہ پہنچا تو فاروقی کا فون آ گیا۔ کہنے لگا کہ کتاب مل گئی ہے اور آپ کے ہاتھ سے لکھا ہوا پیپر بھی۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا: میں کتاب سنبھال کے رکھوں گا اور آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا پیپر بھی! یہ میری فاروقی سے آخری بات چیت تھی کیونکہ صبح اُس نے ایک اہم مشن کے لئے روانہ ہونا تھا۔ 
اگلی صبح پیغام پہنچا کہ کیپٹن فاروقی کے ساتھ حادثہ پیش آ گیا ہے اور وہ ایک برفانی چوٹی سے پھسل کر بہت گہری کھائی میں گر گئے ہیں۔ ہم سب لوگ‘ جو جائے حادثہ سے بہت دور بیٹھے تھے‘ بے بسی کی تصویر بن کے رہ گئے اور جو لوگ ساتھ تھے اُن کے لئے ریسکیو کرنا ناممکن تھا۔ جہاں جہاں سے بن پڑا ہم نے ریسکیو کے لئے مختلف امدادی ٹیمیں جائے حادثہ کی طرف روانہ کیں لیکن ہمیں اندازہ تھا کہ کوئی بھی امدادی ٹیم تین گھنٹے سے پہلے جائے حادثہ پر نہیں پہنچ پائے گی۔ موسم خراب ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا تھا۔ چار گھنٹے بعد نہ صرف ہم کسی اندوہناک خبر کے لئے تیار ہونا شروع ہو گئے بلکہ فاروقی کے بوڑھے والدین اور پانچ بہنوں کو بھی اِس خبر کے لئے تیار کرتے رہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کی متوقع شہادت کی خبر اُس کی ماں اور بہنوں کے ساتھ کیسے شیئر کی جائے۔ مجھے یاد ہے کہ اُس دِن ہمارے ایک سینئر آفیسر نے کہا کہ قدرت نے پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو اِس قربانی کے لئے کیوں چُنا؟ ہم پانچ بھائی ہیں‘ میری قربانی کا فیصلہ کر لیا ہوتا۔ 
پھر چار گھنٹے کے بعد کیپٹن فاروقی کی شہادت کی خبر آ گئی۔ تین دِن پہلے جہاں کھڑا میں فاروقی کو الوداع کہہ رہا تھا‘ وہاں کھڑے ہو کر اب میں فاروقی شہید کے جسدِ خاکی کا استقبال کر رہا تھا۔ مجھے اخلاق فاروقی کے جسد خاکی کو اُس کے گھر لاہور لے کر جانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ سکردو ایئرپورٹ پر ہم سب لوگ مغموم کھڑے تھے کہ ایک صوبیدار صاحب میرے پاس آئے اور میرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھماتے ہوئے کہنے لگے‘ یہ کاغذ کا ٹکڑا کیپٹن فاروقی کی اُس جیکٹ کی جیب سے ملا ہے‘ جو اُنہوں نے شہادت کے وقت پہن رکھی تھی۔ وہ کاغذ کا ٹکڑا وہی پیپر تھا‘ جو میں نے فاروقی کو کتاب میں رکھ کے بھیجا تھا۔ وہ پیپر جب بھیجا گیا تو ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا‘ لیکن جب مجھے واپس ملا تو وہ سووینئرتھا۔ قارئین کرام! میرے پاس آج بھی محفوظ یہ کاغذ کا ٹکڑا میری زندگی میں مجھے ملنے والا واحد سووینئرہے جو میں نے خود لکھا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں