کالج کے زمانے میں نیشنل کیڈٹ کور کے نام سے فوجی تربیت کا چلہ لگوایا جاتا تھا؛ اگرچہ یہ لازم نہ تھا‘ مگر 20اضافی نمبروں کی طلب طلباء کو اس چلے میں حصہ لینے پر مجبور کردیتی تھی۔اس تربیت کے دوران فوجی پریڈ‘ابتدائی طبی امداد‘ ہتھیار استعمال کرنے کی بنیادی مشقیں کرائی جاتی تھیں۔ پریڈ کے دوران ہوشیار‘ آسان باش‘دائیں مڑ‘ بائیں مڑ کے علاوہ ایک انتہائی دلچسپ کمانڈ ''پیچھے مڑ‘‘کی بھی تھی ۔ اس پر عمل کیلئے ایک پائوں کی ایڑھی اور دوسرے پائوں کے پنجے پرایک ہی جگہ کھڑے کھڑے پیچھے گھومنا ہوتا تھا۔کالج کے طلباء جو عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں‘ جہاں ایک ہی جگہ کھڑے رہنا ممکن ہی نہیں ہوتا‘اس کمانڈ پر عمل نہیں کر پاتے تھے اور یہ کمانڈ سنتے ہی پیچھے گھوم تو ضرور جاتے‘ مگر اپنی جگہ پر نہیں رہ پاتے تھے۔ اس کے بعد سزا کے طور پر یہ کمانڈ مسلسل دی جاتی اور پریڈ گرائونڈ کی فضا میں صرف پیچھے مڑ۔پیچھے مڑ۔پیچھے مڑکی گونج ہوتی ۔یہ حکم اتنی تیزی سے اور بار بار دہرایا جاتا تھا کہ پیچھے پھر کی صدا رک جانے کے باوجوداس کے ـ''طلسم‘‘ میں جسم مسلسل گھوم رہے ہوتے تھے۔جب چکراتے ازہان و اجسام سکون میں آتے تو پتا چلتا کہ پریڈ کی صف بندی ٹوٹ چکی ہوتی اورسب دائیں بائیں مشرق مغرب میں تتر بترکھڑے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔
جدید دور میں ''پیچھے مڑ‘‘ کی کمانڈ کو آکسفورڈی سند ''یوٹرن‘‘ کے نام سے ملی ۔ناصرف یہ سند ملی‘ بلکہ اسے عظمت کی نشانی بھی قرار دیدیا گیا۔موجودہ حکومت کے کپتان کی جانب سے عظیم رہنما کی نشانی یوٹرن بتائی گئی ہے؛ اگر ہم عظمت کی ان نشانیوں کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ حکومت کے ابتدائی100 دنوں کا ہر دن اس حوالے سے ایک نئی داستان رکھتا ہے‘ جسے ایک کالم میں مقید کرنا ناممکن بھی ہوگا اور ان ''عظیم رہنمائوں‘‘ کی شان میں گستاخی بھی۔اس لیے یہاں ہم چند مواقع کا ذکر کریں گے‘ حکومت میں آنے سے قبل عوام سے جو بھی وعدے کیے گئے تھے‘ ان میں سے ہر وعدے پر اچانک پیچھے مڑ کی کمانڈ آتی ہے اور پوری کابینہ ایڑھی اور پنجوں پر گھوم جاتی ہے اور عوام صرف سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے؛اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آئیں عظمت کی کچھ نشانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں:۔
شاہ نے اعلان کیا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ مصاحبین نے حق قصیدہ گوئی ادا کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم ‘سپیکر قومی اسمبلی کی رہائش گاہ استعمال کریں گے ‘ پھر صدا آئی کہ پنجاب ہائوس کو شرف بخشا جائے گا۔ آخر میں قرعہ فال پی ایم ہائوس میں ملٹری سیکریٹری کے گھر کے نام نکلا اور بتایا گیا کہ یہ گھر پی ایم ہائوس کی سٹاف کالونی میں ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ افتخار درانی صاحب کا یہ دعویٰ اسی حوالے سے غلط ہے کہ پی ایم سٹاف کالونی وزیر اعظم ہائوس سے باہر بری امام روڈ پر ہے‘ جبکہ ملٹری سیکریٹری کی رہائش گاہ وزیر اعظم کی رہائش کے لیے مختص جگہ کے ساتھ ہی ہے۔
اسی طرح الیکشن سے قبل وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے نعرے لگاتے ہوئے کہا گیا تھاکہ وزیر اعظم پروٹوکول نہیں لیں گے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو 57گاڑیاں کا قافلہ تو صرف ایک بار نوٹ کیا تھا ۔ عوام کو بتایا گیا تھا کہ آپ کا وزیر اعظم آپ کے پیسے بچائے گا اور حلف اٹھانے کے بعد ابتدائی تین مہینوں تک بیرون ملک سفر نہیں کریگا۔ مصاحب خاص جناب فواد چوہدری صاحب نے ایک بھرپور پریس کانفرنس میں بنفس نفیس یہ اعلان کیااور پھر ہوا یہ کہ سعودیہ‘ متحدہ عرب امارات‘ چین سمیت دورے ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ کابینہ کے دوسرے اجلاس میں وزراء کے بیرون ملک دوروں پر ابتدائی تین مہینوں کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی‘ مگر پھر پیچھے مڑ کی صدا کے ساتھ ہی سعودی عرب کے دورے پر وزیر اعظم کے ساتھ شاہ محمود قریشی‘اسدعمر‘ فواد چوہدری اور عبدالرزاق دائود بھی روانہ ہوگئے۔کابینہ کے اجلاس میں ہی اعلان کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ بیرون ملک دوروں کے لیے خصوصی جہاز استعمال نہیں کرے گی‘ اس کے برعکس وزیر اعظم سعودی عرب خصوصی طیارے میں گئے‘ جبکہ ان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دورہ افغانستان کے لیے عام جہاز استعمال کرنا گوارہ نہ کیا اور خصوصی طیارے کے زریعے روانہ ہوئے۔عظمت کی سب سے بڑی نشانی‘ یعنی سب سے بڑا اور فوری یوٹرن تو اس وقت سامنے آیا ‘جب عمران خان نے ایک رات افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا واضح الفاظ میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کا اضافی چارج ان کے پاس ہے اور وہ ہدایت کرتے ہیں کہ اس ضمن میں مربوط پالیسی تیار کی جائے‘ مگر کچھ اس طرح بیان سے پھرے کہ اس اعلان کے صرف 24 گھنٹے بعد ہی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانیوں اور بنگالیوں کی شہریت کے حوالے سے ان کا بیان حتمی فیصلہ نہیں تھا ‘بلکہ اس مسئلے پر سوچنے کی دعوت دینے کیلئے تھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کردیں گے ‘ مگر پھر عوام کو حقیقت میںکچھ مختلف مناظر دیکھنے کو ملے۔ سب سے پہلا جو معاملہ سامنے آیا وہ خاتون اول کے شوہر اوّل کا تھا۔ خاور مانیکا سے معافی نہ مانگنے پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کو ان کے عہدے ہٹا دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے معصوم وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو استعمال کیا گیا۔ وفاقی حکومت اس معاملے پر خاموش رہی ‘جبکہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا‘ اسی طرح حکومت میں آنے سے قبل عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ پیٹرولیم و گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائیگا اور جب اضافہ کیا گیا تو ابتدائی طور پر فواد چوہدری صاحب اضافے کا انکار کرتے رہے ‘ مگر جب وزیر پیٹرولیم نے قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تو فواد چوہدری صاحب ان کے ساتھ موجود تھے اور ان کے چہرے پرشرمندگی کی بجائے ایک ''عظیم رہنما‘‘کی ڈھٹائی کے اثرات ثبت تھے۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم صاحب نواز شریف حکومت پر من پسند افراد کو اہم عہدوں پر لگانے کے حوالے گرجتے برستے رہتے تھے ۔نجم سیٹھی کی بطور پی سی بی چیئرمین تقرری تو خاص طور پرانہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اور وہ تو چیئرمین پی سی بی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہونے کے ہی خلاف تھے‘ جبکہ مختلف منصوبوں کے نواز شریف کے ہاتھوں افتتاح پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ یہ افتتاح متعلقہ شعبے کے سربراہ کو کرنا چاہیے‘مگر پھر ہوا کچھ یوں کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے عمران خان نے احسان مانی کو پی سی بی چیئرمین تعینات کیا اور ساتھ ہی راولپنڈی- میانوالی ایکسپریس کا افتتاح کرکے اپنے دوسرے موقف سے بھی پیچھے مڑگئے۔
آگے چلئے؛ عمران خان صاحب نے بطور وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہی فرط جذبات میں فرمایا کہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے گا اور وہ کسی بھی حلقے کو دوبارہ گنتی کیلئے کھولنے کے لیے تیار ہیں ‘ مگر جب حلقہ 131کی دوبارہ گنتی کیلئے خواجہ سعد رفیق کی درخواست منظور ہوئی تواپنے بیان سے یوٹرن لیتے ہوئے عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپیل کرکے حق امتناعی لے لیا۔الغرض یہ کچھ مثالیں ہیں‘ جو عظیم رہنماؤں کے ابتدائی قریبا 100 دنوں میں سامنے آئی ہیں ۔ اب عوام اپنے رہنمائوں کی'' عظمت‘‘ کی کن کن نشانیوں کو جھٹلا سکتے ہیں۔ابھی تک تو حکومت کے حوالے سے عوام کی صورتحال یہ ہے کہ بقول جون ایلیا: ؎
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا تیری حمایت میں ہوں