"FBC" (space) message & send to 7575

سات سو کا اثاثہ

یارلگتا ہے کہ کراچی پھر بدلنے جارہا ہے ۔ جیل میں ہونے والی تبدیلیاں ایسا ہی ظاہر کررہی ہیں۔کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سرکاری دوست‘ فون پر یہ تفصیل بتا رہے تھا۔تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگا کہ سینٹرل جیل کا نیٹ ورک بہت مشکل سے توڑا گیا تھا۔اطلاعات ہیں کہ اسے دوبارہ سے قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ایم کیو ایم سے متعلقہ قیدیوں کو ایک دفعہ پھر نوازے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔بی کلاس کی بیرکس 17اور 18کی بڑی مشکل سے‘ ان سے خالی کرائی تھیں اور اب یہ جیل ہسپتال کی کھولیوں (کمروں) پر قبضہ جما رہے ہیں۔ان کا زور توڑنے اور رابطے ختم کرنے کیلئے جو قیدی اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں بھیجے گئے تھے‘ وہ قیدی آہستہ آہستہ سینٹرل جیل میں واپس جمع ہوچکے ہیںاور ان کی تعداد 700سے تجاوز کرچکی ہے۔جیل ہسپتال کی کھولیوں میں سے ایم کیو ایم کے بدنام زمانہ جرائم پیشہ نادر شاہ اور رئیس مما کھولی نمبر تین پر قابض ہیں ‘جبکہ عبید کے ٹو‘ عمیر صدیقی‘ سعید بھرم ‘طاہر لمبا اور فیصل موٹا دیگر کھولیوں پر تسلط جمائے بیٹھے ہیں۔رئیس مما کراچی کے علاقے چکرا گوٹھ میں پولیس وین پر حملے سمیت سو سے زائد قتل کا اعتراف کرچکا‘ جبکہ طاہر لمبا اور فیصل موٹا کراچی کے صحافی ولی خان بابر کو قتل کرنے کے مقدمے میں گرفتار ہیں۔ ہسپتال وارڈ کی ایک کھولی شاہ رخ قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی کے قبضے میں ہے‘ جومبینہ طور پر ماہانہ ایک لاکھ کی ادائیگی پر اسے فراہم کی گئی ہے‘ جبکہ اصل میں شاہ رخ جتوئی کا اندراج جیل کے زرداری وارڈ میں ہے ۔
دوست اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اب تک صرف قریباً 63مقدمات میں فیصلہ ہوا اور ان میں سے بھی بیشتر اپیل میں جاچکے ہیں‘ جبکہ ایم کیو ایم سے متعلقہ دیگر ملزمان کے مقدمات اچانک التواء کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کیا جارہا ہے۔ کسی موقع کا انتظار ہے اور پھر یہ افراد ضمانتوں پر رہا ہو کر ایک بار پھر کراچی کی سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہوں گے۔ دوست نے اپنے خدشات کے ساتھ ساتھ مستقبل کا بھیانک نقشہ کھینچنے کے بعد امید قائم رکھنے کا فریضہ بھی خود ہی انجام دیا ۔ کہنے لگا: یہ سب کچھ سابق آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن کے اختتامی دور سے جاری ہے۔ ہوسکتا ہے‘ میرے خدشات غلط ثابت ہوں اور موجودہ آئی جی جیل خانہ جات مظفر عالم صدیقی ‘ جن کی تعیناتی 16نومبر 2018ء کو عمل میں آئی ہے‘ وہ اس صورتحال کو کنٹرول کرلیں‘ صورتحال کا ٹھیک اندازہ تو آئندہ چند ماہ میں ہی ہوسکے گا۔ تفصیلات سے آگاہ کرکے دوست نے فون رکھ دیا۔ان معتبر دوست کی پریشانی بجا اور معلومات تشوشناک ہیں۔ 
ویسے تو ایک جیل سے دوسری جیل قیدیوں کی منتقلی اور اندرونی طور پر ہونے والی انتظامی تبدیلیاں بظاہر معمول کی کارروائیاں شمار ہوتی ہیں‘ تاہم کراچی سینٹرل جیل میں ہونے والی ایسی تبدیلیاں تشویش کا باعث کیوں بنتی ہیںاور کراچی آپریشن کے دوران سکیورٹی اداروں نے سب سے پہلے اس نیٹ ورک کو توڑنے کی ضرورت کیوں محسوس کی تھی ‘یہ سمجھنے کیلئے ماضی میں جیل میں قائم کراچی کے دہشت گردوں کے اس نیٹ ورک کو جاننا بہت ضروری ہے۔افریقا‘ سری لنکا اور بھارت میں تربیت کا نیٹ ورک بنانے کے ساتھ ساتھ کراچی کی جیلوں میں بھی نیٹ ورک بنایا گیا تھا‘ تاکہ گرفتار ہونے والوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جن ملزمان پر کیسز زیادہ ہوجائیں ‘انہیں خود گرفتار کرواکے ان پر سے کیسز ختم کرائے جائیں۔ اس دوران انہیں جتنا وقت بھی جیل میں رہنا پڑے ‘وہ بنا کسی پریشانی کے رہ سکیں‘ان کو جیل میں سہولیات فراہم کرنے کیلئے خاص طور پر اقدامات کیے گئے ۔ یہ افراد اس وقت تک جیل میں رہتے تھے‘ جب تک ان پر قائم مقدمات ختم نہیں کروا دیے جاتے تھے اور انہیں ''زیرو میٹر‘‘ حالت میں ایک بار پھر میدان میں اتار دیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے جیل میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم تھا۔ 2015ء میں کراچی آپریشن سے قبل حساس اداروں کی جانب سے اعلیٰ حکام کو جمع کرائی گئی ‘رپورٹ میں اس نیٹ ورک کا انکشاف کیا گیا تھا۔ 
کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے نیٹ ورک کے تمام معاملات کو آج بھی پوری تندہی کے ساتھ سنبھال رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم سے قبل بھی نادر شاہ ان بیرکس کا انچارج تھا۔ ان بیرکس میں ایم کیو ایم کے نامور شخصیات وسیم اختر‘ کنور نوید‘ رئوف صدیقی بھی وقت گزار چکی ہیں۔ اس کے علاوہ صولت مرزا‘ اجمل پہاڑی‘ عبید کے ٹو‘ طاہر لمبا سمیت بدنام زمانہ دہشت گرد بھی ان بیرکس کی سہولیات سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا‘ جب پھانسی گھاٹ کے سات متصل میدان میں رنگین محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔
سوشل میڈیا پر جیل کی وائرل ہونے والی ویڈیو‘ جس میں معروف قوال امجد صابری کی آواز میں ''دشمنوں کے سینوں پہ ایک الطاف بھاری ہے‘ اب جو سحر آئے گی وہ سحر ہماری ہے‘‘ پڑھ رہے ہیں‘ وہ بھی اسی میدان کی ہے؛ اگرچہ امجد صابری بھی ''نامعلوم سحر‘‘ کے انتظار میں ''نامعلوم افراد ‘‘ کے ہاتھوں مارے گئے‘اسی طرح جیل ہسپتال کی دس کھولیاں‘ جن میں ہر کھولی میں تین افراد رکھے جاتے تھے ۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کیلئے مختص تھیں ۔ کسی دوسرے کو اس کھولی سے ''مستفید ‘‘ ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کھولی میں موجود بستروں کے اصل حقدار بیمار قیدی تو بس دوران علاج ان کھولیوں میں آرام کی حسرت ہی کرسکتے تھے۔ جیل میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والوں کے پاس موبائل فونز موجود ہوتے تھے‘ جن کے زریعے شہر میں تمام کارروائیوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا ۔سانحہ 12مئی 2007ء کے حوالے سے بھی رپورٹ تھی کہ اس وقت کے چیف جسٹس کو ائیر پورٹ پر ہی روکنے کی مکمل منصوبہ بندی سینٹرل جیل کراچی میں کی گئی تھی۔ تین قیدیوں کو میڈیکل بنیادوں پر سول ہسپتال کراچی لایا گیا ‘جہاں سے انہوں نے 12مئی آپریشن مانیٹر کیا تھا۔
شہر میں جب 92ہزار جنازے اٹھ چکے‘ تو سکیورٹی اداروں نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے کے بعد سب سے پہلے جیل سے چلنے والے نیٹ ورک کو توڑنے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ جیل میں موجود خطرناک جرائم میں ملوث افراد کو اندرون سندھ کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ بیرکس اور ہسپتالوں کی کھولیوںپر قبضہ ختم کراکے عام قیدیوں کے درمیان منتقل کردیا گیا تھا۔ جیل انتظامیہ میں شامل جرائم پیشہ افراد کے ہمدردوں کو بھی معطلی ‘ تبادلے اور تنزلی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس طرح جیل میں جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بعد آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جرائم پیشہ افراد کو دوبارہ سہولتیں کون فراہم کررہا ہے؟‘کون انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے رہا ہے؟‘ کیا انہیں دوبارہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے؟کیا کوئی اس ''اثاثے ‘‘ کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہے؟۔بقول شاعر: 
اس کھیل میں تعینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں‘ میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں