"FBC" (space) message & send to 7575

فسوں شکن کی تلاش ہے…

یہ فسوں گری بھی عجب ہنر ہے ۔ ہزاروں لاکھوں سر‘ بس اشاروں پر جھومنے لگتے ہیں۔انہیں دیکھ کر محسوس ہوگا کہ مرگ شعور کا ماتم جاری ہے۔یہ فسوں ہے کیا؟ اس کے قیام کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟اسے جاننے کے لیے مرشد مثال دیتے ہیں کہ اگر آپ نے کبھی کسی میوزیکل کنسرٹ میں شرکت کی ہو تو آپ کو اس ماحول کا اچھی طرح اندازہ ہوگا۔ گلوکار کے سٹیج پر آنے سے قبل ہی ہال میں اندھیرا کردیا جاتا ہے‘خاموشی چھاتی ہے ‘ پھر ایک دم سے رنگ برنگی ناچتی روشنیوں کا سیلاب آتا ہے۔آلات موسیقی کے ذریعے ردھم بنایا جاتا ہے ‘ آہستہ آہستہ ان آلات کی آواز انتہائی بلند کردی جاتی ہے۔اسی دوران گلوکار کی انٹری ہوتی ہے‘ وہ سٹیج پر آتا ہے اور گانا شروع کرتا ہے ۔ کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوتا ہے کہ ہال میں موجود مجمع گلوکار کے اشاروں پر ناچ رہا ہوتا ہے ۔ یہ سارا ماحول بنانے میں صرف گلوکار کا کمال نہیں ہوتا ‘بلکہ اصل کمال اس مصنوعی ماحول کا ہوتا ہے‘ جو گلوکار کے آنے سے قبل ہی بنا دیا جاتا ہے ۔ اس ماحول کے باعث سامعین ''مخصوص کیفیت‘‘ میں آجاتے ہیں اور ہزاروں کا مجمع ایک گلوکار کی انگلیوں پر ناچ رہا ہوتا ہے ۔اب ذرا تصور کریں کہ جب یہ ماحول اپنے عروج پر ہو ۔روشنیوں کا سیلاب اور آلات موسیقی‘ سامعین کو ٹرانس میں لے چکے ہوں اور گلوکار اپنے ''جوہر‘‘ دکھا نے کی انتہا پر ہو کہ اچانک بجلی کی فراہمی منقطع کردی جائے‘ توکیا ہوگا؟ یقینی طور پر رنگ برنگی ناچتی روشنیاں گل ہوجائیں گی‘ آلات موسیقی پر خاموشی طاری ہوجائے گی ‘ میوزک سسٹم و سپیکر بند ہوجائیں گے‘ مجمع پر بھی سکوت طاری ہو جائے ۔ فسوں ٹوٹ جائے گا اور صرف گلوکار کی آواز رہ جائے گی۔ اب یہ بتائیں کہ یہ سب رک جانے کے بعد اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مجمع کو گرفت میں لینے کا دعویٰ کرنے والا گلوکار صرف اپنی آواز کے بل بوتے پر مجمع کو کنٹرول کرسکتا ہے ؟ کیا اس مصنوعی ماحول کے بغیر گلوکار اپنے تماشائی کو اپنے اشاروں پر نچا سکتا ہے؟ یقینی طور پر گلوکار ایسا نہیں کرسکتا‘کیونکہ مجمع کو قابو کرنے کے لیے اس کی آواز سے زیادہ اس مصنوعی ماحول کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ اس ماحول کے ذریعے سے ایک فسوں قائم کیا جاتا ہے اور پھر اس کے تحت ہزاروں لاکھوں کے مجمع کو ٹرانس میں لے لیا جاتا ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سیاسی تاریخ کے اوراق فسوں گروں کے حوالوں اور ان کی فسوں گری کی مہارت و اقسام سے سیاہ ہیں۔ورق گردانی کریں تو ایوبی سرمایہ دارانہ فسوں کا ذکر ختم ہوتے ہی بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کی رنگین روشنی میں لپٹے اشتراکی باب کا آغاز ہوجائے گا۔ اوراق پلٹنے کا سلسلہ جاری رکھیں تو دین اکبری کی طرز پر دین ضیائی کا باب اور پھر ان کے گدی نشینوں کے ابواب بھی نظر آتے جائیں گے۔ سیاسی تاریخ کے ان ابواب میں ایک باب'' سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کا بھی ملے گا۔ سب سے اہم پہلو یہ کہ واصف علی واصف نے پاکستان کو نور کہہ کر بات ہی ختم کردی اور ہمارا وطن تو ہمارے لیے مثلِ نور ٹھہرا کہ اسے زوال نہیں! ہاں‘ مگر فسوں گروں کو زوال ہے۔ سو‘انہوں نے نور کو بھی اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کیا۔ ''سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کا پرویزی فسوں اس وقت ٹوٹا جب غیروں کی جنگ اپنی سرحدوں میں داخل ہوگئی۔ خول اترا تو ظاہر ہوا کہ '' نور‘‘ کو صرف جذباتی طور پر استعمال کیا گیا اور سیاسی سٹیج پر پرفارمنس بیرونی اشاروں پر دکھائی گئی۔اس تاریخ کا مطالعہ ذہنی وسعت کا تقاضا کرتا ہے ؛بشرطیکہ مطالعے سے قبل شعور گروی نہ رکھوادیا گیا ہو۔ 
جب فسوں شکن میسر نہ آیا تو فسوں گری ناصرف پروان چڑھی‘ پھلی پھولی‘ بلکہ نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی ۔ ملوکیت کے قیام کا مسئلہ پرانا سہی ‘پر کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے ۔اور اب حالات وہاں آن پہنچے ہیں جہاں ہمت‘ استقامت‘ حق گوئی و بے باکی‘ استقامت ‘غرضیکہ مثالی رہنما کے تمام پیمانے قصہ ٔپارینہ ہوئے۔احساس زیاں ناپید ہو جائے‘ تو پھر قوم ریوڑ بن جاتی ہے اور رہنمائی کے بجائے ہانکے جانے کی حقدار قرار پاتی ہے‘پھر رہنما بھی ایسے ہی میسر آتے ہیں ‘جو دعوے تو کوہ کنی کے کرتے ہیں ‘مگر سر پھٹنے سے ڈرتے ہیں‘ یعنی وہ ثابت خود کو مجنوں کرتے ہیں ‘مگر پتھروں سے خوف کھاتے ہیں۔ 
اور پھر ایسا ہی ہوا‘ آنے والے نہ اشتراکی ہیں اور نہ سرمائی پیداوار‘ نہ تو اسلامی ہیں اور نہ ہی غیر اسلامی‘ نہ لبرل ہیں اور نہ ہی بنیاد پرست۔ بس‘ فسوں گروں کی مہارت کا شاہکار ہیں۔ جمہوری سٹیج پر کردار ادا کرنے سے قبل حقیقی روشنی کو منقطع کرکے جیسے ہی مہنگائی میں کمی‘ غریبوں کی غربت دور کرنے‘ بے روزگاروں کو روزگار دینے‘ عدالتوں میں انصاف مہیا کرنے جیسی ناچتی روشنیوں سے بصارت سلب کی گئی اور جب بھونپو گلوکار کے ہاتھ آگیا‘ تو پھر300 ڈیم اور ایک ہزار یونیورسٹیاں بنانے‘ ایک کروڑ نوکریاں دینے ‘دس ارب درخت لگانے‘ ڈالر نوے کا اور پٹرول ساٹھ کے جھوٹے دعوے اور پچاس لاکھ گھروں کے راگ اس زور اور تسلسل سے الاپے جانے لگے کہ پیروکار حقیقت کے گمان میں مبتلا ہوگئے ۔بس پھریہی ہوتا ہے اور ہوا بھی کہ سب کچھ گمان کے مطابق ‘ہی نظر آنے لگ گیا۔ مجمع ہے کہ سر دھنے جارہا ہے ‘ دھمالیں ڈالے جارہا ہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ فسوں اثر دکھا چکا ہے۔ مجمع کو گرفت میں لے چکا ہے۔
''ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ کے مصداق یہ بازی گر اپنی بازی گری میں تاوقت کامیاب نظر آرہے ہیں ۔ان کے دھوکے سے بچ جانے والوں میں صرف وہ شامل ہیں‘ جو مکر پر قائم اس ماحول میں داخل ہی نہیں ہوئے ۔ انہیں بھی ان کی سیر چشمی نے بچا رکھا ہے ۔ جیسے ہی یہ شکم سیری کے گھیرے میں آئیں گے‘ تو بصیرت کھودیں گے اور اسی مجمع کا حصہ بن جائیں گے۔ 
رب کی توفیق سے بصیرت و بصارت بچاجانے والے چھٹ گئے ہیںاورسردھنتے مجمع کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں ۔ یہ صنف منتظر ہے کہ کوئی فسوں شکن آئے اور مصنوعی چکاچوند کے اسیر اس مجمع کو ٹرانس سے نکالے۔ ان کے گمان کو درست کرے اور حقیقت کے قریب لائے ۔ مکرو فریب کے جال توڑے ۔ علامہ محمداقبال ؒ کے مطابق ؛احساس زیاںدیکر لہو گرمائے اور فقر کی سان چڑھائے۔علم و حکمت کے ساتھ تزکیہ نہ ہو تو پھر رہنمائی کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہوسکتا ہے‘ نہ تو نگاہ میں مردِ مومن کا اثر آسکتا ہے اورنہ زبان میں تسخیر قلوب کی تاثیر ۔رہنما کی شخصیت میں جھوٹ ‘مکر‘ فریب‘ نہیں ہونا چاہیے۔رہنما کے حوالے سے یہی تو آئین کہتا ہے ۔ آرٹیکل باسٹھ بتاتا ہے کہ اخلاق اعلیٰ ہوں‘ اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہو‘ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو‘ پارسا ایماندار صادق و امین ہو‘ پھر آرٹیکل تریسٹھ کہتا ہے کہ فاترالعقل اور ملکی سالمیت کا مخالف نہ ہو۔ انہی خوائص کا حامل یقینی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصل رہنما ہوگا اور قوم کی سمت کا درست تعین کرے گا ۔ ذمہ داری قوم کی ہے کہ اپنے قلب و ذہن کو مقید نہ ہونے دے اور انتخاب درست کرے‘ کیونکہ حالات نے مایوسی کی کیفیت طاری کردی ہے اور عوام بھی شعبدہ بازوں سے تنگی نظر آتی ہے۔
بقول اظہر عنایتی:؎
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہیں
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں