مرشد کہتے ہیں کہ وفاداری‘ بہادری اور استقامت اللہ کی دین ہوتی ہے اور یہ خون کے ساتھ نسلوں کو منتقل ہوتی ہے۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے آزمائشوں میں سرخرو ہوتے ہیں ‘ تاریخ کے اوراق پر زندہ و جاوید نظر آتے ہیں۔ اسی طرح غداری‘ ظلم و جبراور دھوکہ دہی جیسی خصلتیں بھی خون کے ساتھ ہی نسلوں کو منتقل ہوتی ہیں اوراس کے نتیجے میں ملنے والی لعنت و ملامت بھی‘ جبکہ ایسے گروہ تاریخ کا کوڑے دان بھرتے ہیں۔اس کا عملی مظاہرہ فرعون کے جدید مصر میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں موسیٰ علیہ اسلام اور فرعون کے پیروکاروں کے درمیان کشمکش کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے ۔
1924ء میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو مارچ 1928ء میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتدا میں یہ تحریک ایک دعوتی ‘تبلیغی اور اصلاحی تحریک کے طور پر متحرک ہوئی اور 1936ء میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔امام حسن البنا نے جب اسلامی نظام ِزندگی اپنانے کی دعوت دی تو سیکولر قوتوں کو اپنی موت نظر آئی۔ پھر 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو اخوانی دستوں کی قیادت امام حسن البنا نے خود کی تھی ۔ اس جنگ میں اخوانیوں کی ہمت‘ شجاعت اور صبرو استقامت دیکھ کر اسرائیلی سرپرستوں کی نیندیں حرام ہوگئیں تھیں۔ اس تنظیم کے بانی امام حسن البنا اس وقت عالمی استعماری قوتوں کو سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوئے جب انھوں نے دارالمرکزالعام میں فلسطین کی آزادی کے لیے ہونے والی ایک کانفرنس میں فلسطین کی آزادی کی جنگ میں اخوانی رضاکار دینے کا اعلان کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی استعماروں نے اپنے مہرے شاہ فاروق کو استعمال کیا اور مصر کی خفیہ پولیس نے اخوان کے مرشد عام امام حسن البنا کو 21فروری 1949ء کو شہید کردیا ۔اگرچہ 1954ء میں جمال عبدالناصر سے ڈیل کی گئی مگر اس کے رسمی اقدامات کو اسلامی تسلیم کرنے سے انکارکے بعد اخوان المسلمون اور جمال عبدالناصر میں سخت اختلافات ہوگئے ‘جس کے بعد جمال عبدالناصر نے ایک حملے کو جواز بنا کر اخوان کے خلاف کارروائیاں شروع کردی تھیں۔ یہیں سے اخوان المسلموں کی تاریخِ عزیمت کا دور شروع ہوا۔ جمال عبدالناصر کی حکومت نے عبدالقادر عودہ‘ شیخ محمد فرغلی‘ یوسف طلعت‘ ابراہیم الطیب‘ ہنداوی دویر‘ محمود عبدالطیف جیسی اخوان کی معزز ترین ہستیوں کو قتل کروا دیا۔ پھر 29اگست 1966ء کو سید قطب جیسے بے بدل ادیب‘ دانشور‘ ماہر تعلیم ‘ مضطرب داعی کو بھی تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔اس دوران ہزاروں اخوانی کارکنوں کی مظلومانہ شہادت ہوئی ۔بڑی تعداد قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی۔یہ اخوان کی اپنے کارکنوں کو تربیت ہی تھی کہ وہ آمروں سے زخم کھا کر گرتے‘ پھر اٹھتے اور آمریت کے خلاف جدوجہد شروع کردیتے۔ یہ توکل باللہ اور توکل علی اللہ ہی کی بدولت تھا کہ ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ پھر جب جنوری 2011ء کو حسنی مبارک جیسے ظالم کے خلاف عوام سڑکوں پر آئے تو اس نے بھی اپنی فرعونی خصلتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد ‘ آمرانہ قوانین‘ قتل و غارت سے اس مزاحمت کو کچلنا چاہا مگر ناکامی کے بعد 11فروری 2011ء کو استعفیٰ دیدیا۔ مصر میں انتخابات منعقد ہوئے تو جون 2012ء کو ڈاکٹر محمد مرسی کو پہلا جمہوری صدر منتخب کرلیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے مرشد عام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جب سر عام اعلان کیا کہ ''ہمارا مقصد حیات اللہ ہے‘ ہمارے رہنما محمد ﷺ ہیں‘ ہمارا آئین قران ہے‘ جہاد ہمارا راستہ ہے اور اللہ کی رضاکی خاطر جان دینا ہماری سب سے بڑی خواہش ہے‘‘۔تویہ وہ الفاظ تھے کہ جو ایک بار پھر عالمی استعماری قوتوں کے سینے پرسانپ بن کر لوٹنے لگے ۔
ڈاکٹر محمد مرسی امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی تھے اور اسرائیل مخالف نظریات رکھتے تھے۔2013ئمیں مغربی میڈیا نے ان کے اس بیان کا بہت پرچار کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''سرزمین فلسطین پر صہیونیوں کا کوئی حق نہیں‘‘۔ اس حوالے سے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ ''ہم نے محمد مرسی سے رابطے اور معاملات طے کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہمیں دشمن اور فلسطین پر قابض قرار دیتا رہا اور فلسطین کی آزادی چاہتا تھا۔اس لیے ہم اس کے خلاف انقلاب کا حصہ بن گئے‘‘۔ ڈاکٹر محمد مرسی حافظ قران ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹریٹ بھی تھے اور زگازگ یونیورسٹی کے انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہے۔ دوران حکومت انھوں نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی۔ڈاکٹر محمد مرسی نے کبھی تنخواہ نہیں لی۔ ان کی حکومت کے دوران جب ان کی بہن بیماری ہوئیں تو ڈاکٹروں نے بیرون ملک سے علاج کرانے کا مشورہ دیا مگر ڈاکٹر مرسی نے سرکاری خرچے پربیرون ملک علاج کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور ان کی بہن مصر کے سرکاری ہسپتال میں انتقال کرگئیں۔ڈاکٹر مرسی کی مصر سمیت مسلم دنیا میں بڑھتی مقبولیت کو عالمی استعماری قوتیں اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصری فوج نے 3جولائی 2013ء کو ان کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد مصری اخوان المسلمون پر ابتلا کا نیا دور شروع ہوا۔
مصری آمریت کا نیا فرعونی چہرہ عبدالفتاح السیسی کی شکل میں سامنے آیا اور خیر و شر کے کشمکش میں نئے خونی اوراق کا اضافہ ہونے لگا۔ مسجد رابعہ العداوعہ میں ڈاکٹر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف جمع اخوان کارکن‘ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے‘ پر بلڈوزر اور ٹینک چڑھا دیے گئے‘ اخوان کے رہنما محمد بدیع کا جواں سالہ بیٹا اور محمد البلتا جی کی جواں سالہ بیٹی ڈاکٹر اسما بلتا جی بھی اسی میدان میں شہید ہوئے۔ اخوان المسلمون کی قیادت اور ہزاروں کارکنوں کو تاریک کوٹھڑیوں میں بھیج دیا گیا ۔ پھر کٹھ پتلی عدالتوں سے رہنمائوں اور کارکنوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ معمر مرشد عام محمد بدیع کے ساتھ ساتھ سابق بزرگ مرشد عام مہدی عاکف کو سخت علالت کے باوجودجیل میں ڈال دیا گیا جہاں وہ انتقال کرگئے۔ دنیا حیران و ششدر ہے کہ امام حسن البنا شہید کے لگائے ہوئے گلشن کے پھول‘ اخوان کے تعلیم یافتہ نوجوان جیلوں سے پنجروں میں قید کرکے کٹھ پتلی عدالتوں میں لائے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے نومولود بچوں کی جانب ہوائوں میں بوسے اچھالتے ہیں ۔ سزائے موت پانے والے اہل خانہ کو مسکراتے ہوئے الوداع کہتے ہیں اور بخوشی پھندے پر جھول جاتے ہیں مگر سیسی سے ظالم سے مفاہمت کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کو بھی 6سال قید تنہائی میں رکھا گیا اور اس دوران گھر والوں کو صرف چار بار ملنے کی اجازت دی گئی۔ عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کیا گیا جب کوئی وار کارگر نہ ہوا تو سلو پوائزننگ شروع کردی گئی ‘جس کا نتیجہ عدالت میں ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی صورت میں نکلا۔انھیں 6سال قید تنہائی میں رکھا گیا جہاں انھیں اپنے اہل خانہ اور وکلا سے صرف چار بار ملنے کی اجازت دی گئی۔السیسی نے اپنے فرعونی خصلت کے مطابق ڈاکٹر مرسی کی لاش اہل خانہ کے حوالے نہیں کی۔فوج کی نگرانی میں تدفین کرائی تو ڈاکٹر محمد مرسی کے اہل خانہ نے بھی اپنے اجداد کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے السیسی سے لاش دینے کی درخواست کرنے سے انکا ر کردیا۔ محمد مرسی کی اہلیہ کے الفاظ کہ ''سیسی سے لاش مانگ کر اپنے شوہر کو شرمندہ نہیں کروں گی‘‘ اور بیٹے کا بیان کہ ''ابو حشر میں ملیں گے‘‘ تاریخ کا حصہ بن گئے۔پھر دنیا نے دیکھاکہ عرب و عجم کے تقریبا تمام خطوں میں ڈاکٹر مرسی شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔تاریخ شاہد ہے کہ جن کے دل رب کے نور سے منور ہوں‘ ایسے حکمران عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں اور دلوں کے حکمرانوں کو دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ اخوان المسلمون آج بھی مصر میں صبراور استقامت کی اپنی تاریخ دہرا رہے ہیں اور انشا اللہ سرخرو ہوں گے۔
مختلف ممالک کے مسلم رہنمائوں نے ڈاکٹر مرسی کو خراج تحسین پیش کیا ہے‘ مگر پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے ڈاکٹر مرسی کے یہ الفاظ کوٹ کرکے اپنی ٹویٹ میں انھیں خراج تحسین پیش کیا۔''تم اپنے شیروں کو قتل نہ کرو۔ ورنہ دشمن کے کتے تمہیں نوچ کھائیں گے۔ میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کی خبر گیری کرنے والا ہے‘‘۔