"FBC" (space) message & send to 7575

محفوظ ترین شہر کا ٹوٹتا ہوا طلسم

ایک بائیس سالہ نوجوان محمد بلال خان کو فون کرکے گھر سے بلوایا گیا اور پھر اسے خنجروں کے پے درپے وار کرکے قتل کردیا گیا۔ اس نوجوان کے جسم کے بالائی حصے پر 17زخم تھے؛ اگر تصور کیا جائے‘ تو دبلے پتلے نوجوان پرتیز دھار آلے کے شاید چند وار ہی کاری ثابت ہوگئے ہوں‘ مگر پے در پے 17بار خنجر اتارنا ‘یقینی طور پر کسی درندے کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ اس وحشیانہ عمل سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ قاتل کو واردات کے دوران کسی قانون یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کا خوف نہیں تھا۔ایسا کیوں تھا؟ یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے۔قاتل نے بلاخوف وخطر اپنا کام پورا کیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ موٹر سائیکل پرفرار ہوگیا۔ یہ سانحہ ملک کے حساس ترین شہر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں پیش آیا۔ محمد بلال خان نامی نوجوان سوشل میڈیا پر سرگرم تھا اورمذہبی رجحانات رکھنے والے نوجوان کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا چکا تھا۔ وہ سیاسی‘ سماجی و مذہبی ہر قسم کے معاملات پر بے دھڑک اپنے خیالات کا اظہار اپنی ٹویٹس‘ فیس بک سٹیٹس اور وی بلاگ کے ذریعے کرتا تھا۔ محمد بلال خان کی ٹویٹر پر معروف سیاسی ‘سماجی شخصیات کے ساتھ اکثر نوک جھونک جاری رہتی تھی ۔ اس کے جارحانہ انداز کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے فالو کرنا شروع کر دیا تھا۔
محمد بلال خان کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا تو سوشل میڈیا پر اچانک بھونچال آگیا ‘جس کے بعد ٹویٹر پر ملکی سیاسی‘ عسکری‘ سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ شخصیات نے اس دل سوز واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ۔ٹویٹر پر ''جسٹس فار بلال خان‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ محمد بلال خان کا قتل یقینی طور پر معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت‘ تشدد اور ذہنی انتشار کا ثبوت ہے تو ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مخالفین کی لفظی لڑائی شہر کی گلیوں میں پہنچنے کے خطرے کی نشاندہی بھی کررہا ہے۔ اس معاملے پر اسلام آباد پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ تحقیقات جاری ہیں اور جلد ہی بڑی پیش رفت کا امکان ہے‘ جس کے بعد حقائق منظر عام پر لائے جائیں گے‘مگر جیسے جیسے اس کیس کے حل میں تاخیر ہورہی ہے ‘یہ تاثر پختہ ہوتا جارہا ہے کہ پولیس کا ابتدائی موقف وہی روایتی بیان تھا‘ جو اس سے قبل ہر واردات کے بعد دہرایا جاتا ہے‘ تاکہ عوامی ردعمل کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور پھر کیس فائلوں میں دب کر رہ جاتا ہے۔
بطورِ صحافی‘میں نے اس کیس کو مسلسل فالو کیا‘ مگر پولیس کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت اب تک سامنے نہیں آسکی۔ بیان کی حد تک تو بہت امید دلوائی گئی‘ مگر اس حوالے سے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔پولیس کی سستی اپنی جگہ‘ یہ بھی واضح ہے کہ سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والے ردعمل اور تاحال ''جسٹس فار بلال خان‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ جاری ٹوئیٹس ثابت کرتی ہیں کہ اس کیس کو کسی دبائو میں آکر پس پشت ڈالنے کی کوشش کو سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل کامیاب نہ ہونے دے گا۔
ہمارے وزیرا عظم عمران خان‘ وزیر اعظم بننے سے پہلے فرماتے تھے کہ ''جس مقتول کا قاتل نہ پکڑا جائے‘ اس کی قاتل حکومت ہوتی ہے‘‘۔ پتا نہیں خان صاحب اب بھی اس بیان پر قائم ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ اس بیان سے یوٹرن نہیں لے چکے ‘ تو انہیں یاد دہانی کروانی ہے کہ محمد بلال خان کا قتل ان کے اپنے شہر اسلام آباد میں کوئی پہلا قتل نہیں ؛خان صاحب کی حکومت کو ایک سال ہونے کو ہے اور اگر صرف چھ ماہ کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو اسلام آباد میں اب تک 54افراد قتل کیے جا چکے۔ اس کے علاوہ ؛اگر دیگر جرائم پر نظر ڈالیں تو زنا بالجبر کے 145 ‘چوری و ڈکیتی کے 463 واقعات ہوچکے‘ جبکہ 104گاڑیاں اور 144 موٹر سائیکلیں چوری ہونے کی وارداتیں ہوچکی ہیں۔ یہ ملک کے محفوظ ترین سمجھے جانے والے شہر میں صرف چھ ماہ کے دوران ہونے والے سنگین جرائم کے وہ اعدادوشمار ہیں‘ جو شہر اقتدار کے 22تھانوں میں رپورٹ ہوئے ہیں‘ جبکہ ایسے جرائم کی داستانیں الگ موجود ہیں‘ جن کا اندراج مختلف وجوہات کی بنا پر تھانوں میں کروایا ہی نہیں جاتا۔ 
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ قتل ایسے شہر میں ہوا ہے ‘جسے حکمران امن و امان کے حوالے سے مثالی شہر قرار دیاجاتا ہے ۔ ایسا شہر کہ جس کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہر شہری کی معمولی سی حرکت بھی نوٹ ہورہی ہوتی ہے۔ شہر کی انتظامیہ کو سکیورٹی پر اتنا یقین ہے کہ شہر کے داخلی راستوں پر قائم چیک پوسٹیں ختم کردی گئیں ہیں اور جواز دیا جاتا ہے کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت نصب کیے جانے والے کیمروں کی آنکھ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ایسا شہر ‘ جس کی سکیورٹی کے حوالے سے ایسی ایسی داستانیں پھیلائی گئیں ہیں کہ اب لوگ ہر ٹیکسی ڈرائیور‘ ریڑھی بان‘ مستری‘ موچی اور فقیر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کا فرد سمجھتے ہیں‘ جو شہر میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے حلیہ بدل کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اب‘ اگر ایسے شہر میں اس قدر دھڑلے اور بے باکی سے قتل ہوں گے‘ قاتل واردات کے بعد کیمروں کی موجودگی میں دارالخلافہ کی شاہراہوں سے بہت آرام سے فرار ہوجائیں گے اور اس پر پولیس صرف روایتی بیان بازی کرے گی توپھر جان لینا چاہیے کہ ''محفوظ ترین ‘‘ سمجھے جانے والے اس شہر کی سکیورٹی کا ''طلسم‘‘ بہت جلد ٹوٹنے والا ہے ۔
محمد بلال خان کے قتل کے بعد ایک اور پہلو جو سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ اس واقعہ اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والے ردعمل پر حکومت‘ پولیس اور مقامی میڈیا کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ سوشل میڈیا پر محمد بلال خان کی فین فالوئونگ بڑی تعداد میں موجود ہے۔ بلال خان کے بہیمانہ قتل کے بعد کسی حکومتی ذمہ دار کو سامنے آکر اس معاملے کو قابو کرنا چاہیے تھااور مقامی میڈیا کے ساتھ مل کر بلال کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہیے تھے ۔ اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت میڈیا کے ذریعے بھی سامنے لانے کے ساتھ ساتھ بلال کے اہل خانہ کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تھا‘ مگر پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی ایسا نہ ہوا‘بلکہ یوں لگا کہ ارباب ِاختیار بھنگ پی کرسورہے ہیں۔ اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''جسٹس فار محمد بلال‘‘ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا‘ جس سے عالمی میڈیا کی توجہ اس جانب مبذول ہوگئی ‘ پھر اس قتل کی خبر سے بے خبر مقامی انتظامیہ‘ پولیس اور مقامی میڈیا کو تب ہوش آیا‘ جب عالمی میڈیا نے اس خبر کو اپنے اپنے رنگ میں نشر کرنا شروع کردیا اور پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کی بنیاد بنا لیا۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو ارباب ِاختیار کی آنکھیں کھلیں اور وہ ٹوئیٹس کے ذریعے اپنا ردعمل دے کر فرض پورا کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ 
آخر میںحکمرانوں سے بس اتنی گزارش ہے کہ عوام بھولتی نہیں ؛ مولانا سمیع الحق ہوں‘ ایس پی طاہر داوڑ یا محمد بلال خان‘ کسی بھی کیس کو دبانے کی بجائے ‘انہیں حل کیا جائے ۔ بین الاقوامی میڈیا پر جو منفی پراپیگنڈہ کیا گیا ہے‘ اس کا بہترین جواب یہ ہی ہوسکتا ہے کہ محمد بلال خان سمیت قتل کے تمام مقدمات میں ملوث قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے‘ تاکہ منفی پراپیگنڈہ اپنی موت آپ ہی مرجائے اور اسلام آباد کے محفوظ شہر ہونے کا طلسم بھی نہ ٹوٹنے پائے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں