کنٹرول لائن پر کشیدہ صورتحال کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایک نجی ٹی وی چینل نے بریکنگ نیوز کا ڈبہ گھماتے ہوئے عوام کو اطلاع پہنچائی کہ ''بھارت نے شہری آبادی پر تو پخانے سے بمباری شروع کردی‘‘۔ توپ بم بھی پھینک سکتی ہے اس صلاحیت کا علم تو شاید توپ بنانے والے کو بھی نہ ہو مگر نجی چینل میں تشریف فرما جس توپ چیز نے یہ بریکنگ نیوز تخلیق کی ان سے بس اتنی گزارش ہے کہ آپ توپ سے گولہ پھینکیں یا بم ‘ ہم آپ کو نہیں روک سکتے‘ مگر براہ مہربانی اتنا ضرور کیجئے کہ توپخانے کو علیحدہ کرکے ''توپ خانہ‘‘ لکھ دیا کریں ورنہ ہم جیسے اکثر کم علم اسے الگ کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ پھر اسی چینل میں ایک نیوز اینکر بڑے جذباتی انداز میں کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے پاکستانی سپہ سالار کے دورہ امریکہ کا حوالے دیتے ہوئے فرمانے لگیں کہ '' پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے امریکہ کا دورہ کیا تھا‘‘۔ ان سے بس اتنی سی عرض ہے کہ سپہ سالار کے ساتھ فوج اضافی ہے اور فوج کے ساتھ سپہ سالار۔''پاکستانی فوج کے سربراہ ‘‘ یا پھر ''سپہ سالار‘‘ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں یقین مانیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ چند روز قبل فکس اِٹ اور پیپلز پارٹی کے کارکنان میں تصادم ہوا تو ایک اینکر فرما رہی تھیں کہ ''تصادم روکنے کیلئے پولیس نے لاٹھی چارج کا استعمال کیا‘‘۔ پہلے تو یہ خبر لکھنے والے کو لاٹھی کا استعمال کرتے ہوئے سمجھایا جائے کہ لاٹھی چارج کا استعمال نہیں کیا جاتا ‘ لاٹھی چارج تو بس عوام پر کردیا جاتا ہے کہ یہی ہے طریق میرے حکمرانوں کا۔
جب ہم شعبہ صحافت میں آئے تو کراچی کے معروف اردو روزنامہ کے چیف ایڈیٹر استاد محترم اطہر ہاشمی صاحب کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہاشمی صاحب اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں۔ ان کی محفل کی چند ساعتیں میسر آجائیں یا شب بیداری ‘ طالب علم اپنے ظرف کے مطابق دامن بھر لے جاتا ہے۔ ہماری بدنصیبی ٹھہری کہ میدانِ صحافت میں آنے کے بعد صحافتی سیاست کے خاردار راستوں میں دامن الجھا بیٹھے اور ایک اچھا شاگرد ثابت نہ ہوسکے۔ تاہم اطہر ہاشمی صاحب کا فیض ''خبر لیجئے ‘ زبان بگڑی ‘‘ کی صورت آج بھی جاری ہے‘ جس سے باقاعدگی سے اپنا حصہ سمیٹنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ اس صورتحال میں سوچا کہ آج کا کالم استاد ِمحترم اطہر ہاشمی صاحب کے مضامین کے اقتباسات کے لیے وقف کردیتے ہیں تاکہ ہمارے صحافی بھائیوں کی کچھ مدد ہی ہوسکے۔آغاز خود سے ہی کردیتے ہیں‘ ہوا کچھ یوں کہ استاد محترم نے تصیح کی کہ ''لمحہ فکر‘‘ درست ہے اور ''لمحہ فکریہ‘‘ درست نہیں ہے‘ سو ہم نے بھی اس کے لیے لغت دیکھی پھر گزشتہ کالم کا عنوان رکھا ''صحافیوں کے لیے لمحہ فکر‘‘ مگر کیا کیجئے کہ جب کالم ایڈٹ ہو کر آیا تو انکشاف ہوا کہ عنوان بدل کر ''صحافیوں کے لیے لمحہ فکریہ‘‘ کردیا گیا ہے اب یہ عمل میرے لیے لمحہ فکر تھا۔ خیربات آگے بڑھاتے ہیں‘ برقی و ورقی ذرائع ابلاغ پر خاص طور پر استاد محترم کی نظررہتی ہے‘ حال ہی میں جب ایک اینکر نے ''مودی کی پول‘‘ کھلنے کا تذکرہ کیا تو ہمیں استاد محترم یاد آگئے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ 'پول کھل گئی‘ یا 'پول کھل گیا‘۔ اب تک ہمارے صحافی بھائی اس پر متفق نہیں ہوسکے۔ کچھ دن پہلے ہی ایک اخبار کی سرخی تھی ''دھاندلی کی پول کھل گئی‘‘۔ ممکن ہے دھاندلی 'پولی‘ ہو ورنہ پول کھلتا ہے‘ کھلتی نہیں۔ بڑا مشہور محاورہ ہے ''ڈھول کا پول کھل گیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ پول مذکر ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ڈھولک کا پول مونث ہو۔ اب یہ ایسی غلطیاں ہیں جو چند برس پہلے تک اخبارات میں نہیں ہوتی تھیں کہ صحافی بھی پڑھے لکھے ہوتے تھے اور نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر غلطیوں پر نظر رکھتے تھے‘‘۔اسی طرح جب ایک نجی چینل پرعید الاضحی کے حوالے سے رپورٹ میں قساب اور مذبح خانوں کی تعداد بتائی جارہی تھی تو ہمیں استاد محترم کی یاد پھر ستانے لگی فرماتے ہیں کہ ''مذبح خانہ اور مقتل گاہ۔ ان میں خانہ اور گاہ نہ صرف غیرضروری بلکہ بالکل غلط ہیں‘ لیکن اخبارات میں یہ ''مقتل‘‘ کھلا ہوا ہے۔قصائی کی جانب پہلے بھی توجہ دلائی جا چکی ہے کہ یہ لفظ 'قسائی‘ ہے‘ قصائی نہیں۔ قسائی عربی کا لفظ ہے‘ اسی سے قساوت ہے یعنی سنگ دلی۔ گویا قسائی کا مطلب ہوا سنگ دل‘ ظالم۔ گوشت فروش مسلمان کو قسائی اور ہندو کو کھٹیک کہتے ہیں۔ شوق کا شعر ہے:
جو بچے تجھ سے تو خدائی ہے
آدمی کاہے کو ہے قسائی ہے
ایک محاورہ ہے ''قسائی کے پالے پڑنا‘‘۔ (بول چال میں پلے پڑنا) یعنی ظالم کے قابو میں ہوجانا۔ پھر ایک اور جگہ صحافیوں کی اصلاح کچھ یوں کرتے ہیں کہ ''اب تک تو 'تعینات‘ (تعی نات) ہی سنتے اور پڑھتے آئے تھے‘ تاہم اب ٹی وی چینلوں پر اس کا مختلف تلفظ سننے میں آرہا ہے‘ یعنی 'ی‘ پر تشدید کے ساتھ ''تعیّنات‘‘ (تعیونات) کہا جارہا ہے۔ نوراللغات کے مطابق تعینات بروزن رسیدات ہے۔ تعیّن عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ مطلب ہے: مخصوص ہونا‘ مقرر ہونا‘ تقرر‘ مطلق کے خلاف۔ لغت کے مطابق تعیناتی (تعی ناتی) اردو کا لفظ ہے‘ کرنا‘ ہونا کے ساتھ آتا ہے‘ اور مطلب وہی ہے یعنی تقرر‘ تعین۔ اردو میں یہ مونث ہے۔ ایک اور لفظ ہے 'تعیین‘۔ اس میں دو 'ی‘ آتی ہیں۔ عربی کا یہ لفظ مونث ہے اور مطلب ہے: مقرر کرنا‘ معین کرنا۔ دو 'ی‘ کے ساتھ ایک اور لفظ ہے 'تغییر‘۔ تغیر عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ اس کا مطلب ہے: پلٹنا‘ بدلنا انقلاب‘ پہلی حالت سے دوسری حالت میں جانے کا عمل۔ اردو میں ایک مرکب ''تغیر کرنا‘‘ ہے‘ یعنی الگ کرنا‘ بدلنا۔ اور دو 'ی‘ والی 'تغییر‘ کا مطلب ہے: حالت بدل دینا‘ تبدیل کرنا‘ پلٹا‘ انقلاب۔ 'تغیر‘ اردو میں عام ہے‘ اور عام لوگ کب سے کسی مثبت تغیر کے منتظر ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
یعنی تغیر ایک مستقل شے ہے۔ تاہم 'تغییر‘ عام نثر میں تو نہیں البتہ شاعروں نے ضرور استعمال کیا ہے‘ مثلاً:
میرے تغییر حال پر مت جا
انقلابات ہیں زمانے کے
ہم عرصے تک یہ سمجھتے رہے کہ شاعر کو صحیح تلفظ نہیں معلوم‘ اور تغیّر کو تغییر کہہ رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں کو صحیح تلفظ نہیں معلوم تھا‘‘۔اسی طرح ریڈیو پاکستان کی گرفت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان سے ایک دینی پروگرام نشر ہوتا ہے۔ پروگرام پیش کرنے والے قاری اور ''قرات‘‘، کہیں تو یہ اْن کی مجبوری ہے یا اْن سے زیادہ پروگرام پروڈیوسر یا ریڈیو پاکستان کے ذمے داران کی‘ لیکن موصوف سننے کو ہمیشہ ''سنن نے‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر دو'ن‘ کا اعلان نہیں ہوگا تو کوئی سنے گا نہیں۔ نہ ہوئے زیڈ اے بخاری‘ ایسے لوگوں کو کان پکڑ کر نکال دیتے۔ وہ اہلِ زبان نہیں تھے لیکن زبان کے معاملے میں بڑے حساس تھے۔ اب ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی میں اردو کا ''مثلہ‘‘ بڑے اہتمام سے ہورہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر خبروں کے اختتام پر ایک جملہ کہا جاتا ہے ''فی الوقت کے لیے اتنا ہی‘‘ جملہ صحیح تو ہے لیکن اس میں ''کے لیے‘‘ زائد ہے۔ اسے نکال دیں تو مفہوم بھی پورا ہوجائے گا اور جملہ چست ہوجائے گا۔ 'فی‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہ حرف جار ہے اور مطلب ہے: بیچ میں‘ ہر ایک کے لیے‘ ہر آدمی اور ہر چیز کے لیے جیسے فی کس‘ فی من‘ فی صدی۔ علاوہ ازیں نقص‘ کمی‘ غلطی‘ عیب‘ کھوٹ (اردو میں 'فی نکالنا‘ کا مطلب عیب نکالنا‘ رہ جانا‘ ہونا کے ساتھ) ۔ہاشمی صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی اختتام کرتے ہیں۔ فی الوقت کے لیے اتنا ہی۔