تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما چائے نوش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کے کارنامے گنوارہے تھے‘ مگر جب ان کے بیان کردہ کارناموں کو شرکاء محفل کی جانب سے مطلوبہ پذیرائی نہ ملی‘ تو موصوف نے پینترا بدلا اور اپنے رہنمائوں کے انفرادی کارناموں کی تفصیل بتا کر داد وصولنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ ساتھی رہنما '' نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے مصداق بھی کام کررہے ہیں‘ تو ہم ان سے یہ کہہ تو نہ سکے ؛البتہ دل میں سوچا ضرورکہ ''کسی عام آدمی کا معاملہ ہو تو اس کی نیکی اس کا اور اللہ کا معاملہ ہوتا ہے اور اس کی کھوج غیر اخلاقی عمل ہے‘ مگر کوئی عوامی شخصیت اگرعوام کے پیسے سے نیکی کرکے دریا میں ڈالتی ہے ‘تو صحافی پر غوطہ لگا کر اس نیکی کو نکالنا اور کھنگالنا فرض ہوجاتا ہے‘‘۔
بہرحال موصوف نے بتایا کہ تحریک انصاف کے ایک سابق صوبائی وزیر‘ جو حال ہی میں کوٹ لکھپت جیل یاترا سے واپس آئے ہیں‘ نے اب اس جیل میں کھانا بھجوانا اور قیدیوں سے ملاقاتیں کرنا اپنا معمول بنا لیا ہے ۔ وہ کوٹ لکھپت جیل کی حالت بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔یہ سب کچھ سابق وزیر موصوف ذاتی طور پر کررہے ہیں اور اس کی تشہیر بھی نہیں چاہتے ۔بس ‘راہ خدا میں یہ کام کررہے ہیں ۔اس اہم رہنما ء کی زبانی سابق وزیر موصوف کی نیکی کا تذکرہ سن کر محفل کے شرکاء پر تو جیسے وجد طاری ہوگیا ‘مگر ہماری صحافتی رگ پھڑکنے لگی‘ کیونکہ وزیر موصوف کے پنجاب میں ''راہ خدا‘‘ میں بنائے گئے بڑے بڑے پروجیکٹس اور تحریک انصاف میں وزارت کے حصول کی کوششوں کے دوران شوکت خانم کو کروڑوں کے فنڈ دینے جیسی نیکیاں ہمارے سامنے تھیں ‘جو ان سابق وزیر موصوف نے تو اپنے تئیں دریا میں ڈال دی تھیں ‘ لیکن جو مجبوری میں ہمیں غوطہ لگا کر نکالنا پڑی تھیں۔
بہرحال جب اس انصافی رہنما کا ''تذکرہ وزراء‘‘ کا اعصاب شکن بیان جاری تھا اور وہ اپنے اس بیان کے دوران شرکاء محفل کی نگاہوں میں وہی ادب و احترام دیکھنے کے متمنی تھے‘ جو عمومی طور پراولیاء اللہ کی کرامات سنتے ہوئے پیدا ہوجاتا ہے‘ تو عین اسی وقت ہم موبائل پر میسج کے ذریعے ایک دوست کو قائل کررہے تھے کہ وہ جیل خانہ جات کے کسی ذمہ دار سے میری ملاقات کرائے‘پھر اس جب دوست کے ساتھ جیل خانہ جات کے ایک اہم افسر صاحب سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی تو بہت کچھ ''جاننے ‘‘ کا موقع ملا ‘جس کا تذکرہ آئندہ کیلئے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الحال اپنی توجہ تحریک انصاف کے سابق وزیر موصوف کی نیکی کی جانب ہی مبذول رکھتے ہیں۔ کھوجنے پر معلوم یہ ہوا کہ موصوف جب سے جیل سے گئے ہیں‘ اس کے بعد بڑی باقاعدگی کے ساتھ ان کی جانب سے ایک بڑی رقم بھجوائی جاتی ہے‘ جس کے ذریعے جیل کے قیدیوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس رقم کے استعمال کا مکمل اختیار جیل کے ایک اہم ذمہ دار کے پاس ہے‘ جس کی وجہ سے یہ صاحب بھی سابق وزیر موصوف کی دریا میں ڈالی جانے والی نیکیوں کا تذکرہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ نیکی اور اس کی تفصیلات ہمارے لیے دلچسپ تھیں ۔
ہم اسے سابق وزیر موصوف کی مستقبل بینی گردانتے ہوئے ‘ان کی دُور اندیشی کے قائل ہونے ہی والے تھے کہ دوران گفتگو سابق وزیر کی جیل کے چند مخصوص بدنام زمانہ قیدیوں پر خصوصی نظر ِکرم کا تذکرہ شروع ہوگیا۔ یہ قیدی‘ جن کی تعداد گیارہ بتائی جاتی ہے‘ سابق وزیر کی اسیری کے دوران ان کی ''دریادلی و سخاوت‘‘ سے متاثر ہوکر ان کے قریب آگئے تھے۔تعداد میں گیارہ سے شبہ ہوا کہ شاید پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد ان ملزمان پر مشتمل ٹیم بنانے کا قصد کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں زمینوں پر قبضوں سمیت سنگین مقدمات میں جیل کاٹنے والے ان قیدیوں پر خصوصی نوازشوں کی داستان بظاہر تو رحمدلی کی اعلیٰ مثال معلوم ہوئی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سابق وزیر ‘ ایسے بدنام زمانہ افراد کو سوسائٹی کا ایک بہترین فرد بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں؛البتہ ہماری صحافیانہ حس ‘اس جواز کو مسترد کررہی تھی اور مسلسل یہ بدگمانی پیدا کررہی تھی کہ یہ عمل ان مخصوص قیدیوں کو ''سوسائٹی کے لیے کارآمد بنانے‘‘ کے لیے نہیں ‘بلکہ ''اپنی سوسائٹیوں کے طول و عرض میں اضافے کیلئے کارآمد بنانے‘‘ کی ایک کوشش ہے۔ جب اس خدشہ کا اظہار ساتھ موجود اپنے کھوجی دوست سے کیا تو انھوں نے اس خدشے کو درست قرار دیتے ہوئے مہرتصدیق ثبت کردی۔
بہرحال اگر ان سابق وزیر کی کوٹ لکھپت جیل میں کی جانے والی اس ''سرمایہ کاری‘‘ کو ان کی مستقبل بینی‘ دُور اندیشی ‘ رحمدلی یا سخاوت ہی سمجھ لیا جائے ‘تو پھر پنجاب بھر کی 42جیلوں کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے ۔ ان جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی صورتحال انتہائی خستہ ہے۔ 29ہزار 235 قیدیوں کی گنجائش رکھنے والی پنجاب کی ان 42جیلوں میں 45ہزار 423سے زائد قیدی موجود ہیں‘جبکہ حکومت کی جانب سے چلنے والی کسی ''خصوصی مہم‘‘ کی صورت میں یہ تعداد کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ان جیلوں کو جرائم کی یونیورسٹیاں بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے اس جیل میں چلا جائے یا کوئی کسی چوری وغیرہ کے کیس میں جیل کاٹ لے تو یہاں دیے جانے والے ماحول کی وجہ سے وہ باقاعدہ تربیت یافتہ مجرم بن کر باہر نکلتا ہے۔ حیرت اس بات پر رہی کہ سابق وزیر موصوف کی جانب سے نیکی کرنے کے لیے صرف کوٹ لکھپت جیل کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ؟‘ پھر نظر ِکرم ان مخصوص قیدیوں پر کیوں جاٹھہری؟سخاوت کے ذریعے جیل کے ذمہ داران کو مرید بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ کام اپنی حکومت کی وزیر جیل خانہ جات زوار حسین صاحب کے ذریعے کیوں نہ کرایا گیا؟
اگرتمام خدشات سے صرف ِنظر کرتے ہوئے اسے بس ایک نیکی ہی سمجھ لیا جائے‘ تو بھی جیل کی حالت بہتر بنانے کا درد جیل یاترا کے بعد ہی کیوں پیدا ہوتا ہے‘ اور اگر ایسا ہی ہے ‘تو پھر تو عوام دعا کرے گی کہ وزراء ملک بھر کی جیلوں کی یاترا کرلیں ‘تاکہ انہیں وہاں موجود مشکلات کا اندازہ ہوسکے اور وہ ان موصوف کی طرح نجی طور پر ہی جیلوں کی بہتری کے لیے ذاتی فنڈ جاری کرنا شروع کردیں۔ عوام تو بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ سابق وزیر موصوف کی دریا میں ڈالی جانے والی لکھ پتی نیکیاں سوسائٹی کی بہتری کے لیے ہوں ‘نہ کہ اپنی سوسائٹیوں کی بہتری کے لیے۔
تحریک انصاف کے ایک سابق صوبائی وزیر‘ جو حال ہی میں کوٹ لکھپت جیل یاترا سے واپس آئے ہیں‘ نے اب اس جیل میں کھانا بھجوانا اور قیدیوں سے ملاقاتیں کرنا اپنا معمول بنا لیا ہے ۔ وہ کوٹ لکھپت جیل کی حالت بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ سابق وزیر موصوف ذاتی طور پر کررہے ہیں اور اس کی تشہیر بھی نہیں چاہتے ۔