"FBC" (space) message & send to 7575

یہ رنگ ِسرخ کیا ہوتا ہے؟

یورپی بچے نے جب اپنی ماما سے سوال کیا تو ماما نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا کہ میری زندگی میں تو رنگوں کی پہچان ہی تم سے ہوئی ہے‘ میں نے رنگ ِسرخ کو تمہارے دمکتے گالوں کی لالی سے پہچانا‘ تمہارے ماما کہنے پر حرکت کرتے ہونٹوں کی سرخی سے جانا‘وقت شباب تمہارے سرخی مائل سراپے کا تصور ہی مجھے اس رنگ سے آشنا کرنے کے لیے کافی ہے۔اب تم اس رنگ سے آشنا ہونا چاہتے ہو‘ تو اپنے گھر کی دیواروں پر نصب چمکتے قرمزی ٹائلوں کو دیکھو‘کمروں کی چھتوں سے جھولتے سرخی مائل فانوس دیکھو۔ دبیز سرخ قالین پر بیٹے کا ہاتھ پھیرتے ہوئے ماما بولیں‘ اسے دیکھو بیٹا یہ خوش رنگ کھلتا قالین سرخ رنگ ہے‘ پھر بیٹے کا ہاتھ تھامے طویل لائونج سے گزر کر لان کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے قریب پہنچ کر پردہ ہٹا دیا۔سامنے گھر کا وسیع و عریض لان تھا جو رنگ برنگے پھولوں‘ پھلوں اور جھولوں سے مزین تھا۔ ماں بولی؛ دیکھو بیٹا‘ وہ تتلیاں جن کھلتے گلابوں پر منڈلا رہی ہیں وہ رنگ ِسرخ ہے ۔ وہ جو تمہارے گالوں کے رنگ جیسے انار درختوںسے جھول رہے ہیں ناں ‘ وہ ہی رنگِ سرخ ہیںاور انسانی زندگی میں یہ رنگ ِسرخ علامت ہے‘ زندگی کی تمنائوں‘ امنگوں‘ خواہشوں کے پورا ہونے ‘ غرض کے سب شاداب اجزاء کی!!۔
ہزاروں میل اس سے دُور وادیٔ کشمیر کے ایک گارے اینٹوں سے بنے ایک کمرے اور اس پر پڑی گھاس پھوس‘ جس نے چھت کا بھرم قائم کررکھا تھا‘ رگوں میں خون منجمد کردینے والی سردی سے بچتے ایک بچے نے اپنی ماں سے پوچھا؛ ماں ! یہ رنگ ِسرخ کیا ہے‘ کیسا ہوتا ہے؟۔ بیٹے کے سخت سردی سے بچانے کی کوششیں کرتی ماں نے بہت غور سے بچے کو دیکھا‘ پھر دور خلائوں میں گھورتے ہوئے بولی؛ بیٹا یہ رنگ ِسرخ تو اک استعارہ ہے۔یہ استعارہ ہے‘ غلامانہ سوچ کی موت کا‘ یہ استعارہ ہے ‘جابر حکمران سے بغاوت کا۔ ماں نے توجہ سے بات سنتے بیٹے کو دیکھا اور بولی؛ بیٹا! یہ رنگ ِسرخ استعارہ ہے‘ آزادی کا ‘ سربلندی کا ‘ خوداری کا۔ یہ استعارہ ہے‘ حریت کا‘ جرأت کا‘ غیرت کا۔ ماں نے اپنے بچے کوخود سے چمٹایا اور اپنے جسم کی گرمی سے اپنی جگر گوشہ کو سخت سردی سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی؛ بیٹا! یہ رنگ سرخ استعارہ ہے‘ رگوں میں دوڑتے لہو کی حرارت کا۔ یہ استعارہ ہے‘ کشمیری مائوں کے سینے کے زخموں کا‘ بیٹیوں کی اجڑی مانگ کا‘ لٹتے شبابوں کا‘ کشمیری بیٹوں کے خون میں موجود غیرت کا‘ حمیت کا۔ بیٹا !غرض یہ کہ یہ رنگ سرخ استعارہ ہے‘ اصول حق پہ مرنے کا ‘ شہادت کے نصابوں کا‘ آزادی کے خوابوں کا...!
درج بالا تخیل اس وقت بنا جب کراچی پریس کلب میں کھانے کی میز پر موجود چند صفحات ہاتھ لگے ۔ ان میں سے ایک صفحہ پر ہاتھ سے چند اشعار لکھے ہوئے تھے‘ لیکن ان پر کسی شاعر کا نام نہیں تھا ۔اشعار تو ذہن سے محو ہوگئے؛ البتہ خیال اتنا جاندار تھا کہ انمٹ نقوش چھوڑگیا۔سو ‘درج بالا کالم کا حصہ انہی نقوش کی منظر کشی ہے۔ آج جس طرح کشمیر کی مائیں بہنیں بیٹے بیٹیاں بچے سڑکوں پر نکلے ہوئے اور دنیا کی بے حسی سے بے پروا ہو کر اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ‘اس کی نظیر نہیں ملتی۔بھارتی مظالم نے تاریخ کے جابراور ظالم ترین حکمرانوں کو بھی مات دے دی ہے۔ اس کے باوجود کشمیری مائیں‘ جس طرح اپنی اولادوں کو درس حریت دے رہی ہیں ‘وہ بے مثال ہے۔ جارح بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھا‘ عالمی قوانین کو ٹینکوں تلے روندا اور مقامی آئین و قوانین کو بارود سے راکھ کرتے ہوئے کشمیر پر تسلط مضبوط کرنے کے عملی اقدامات کر ڈالے ۔ اس جارحیت کے جواب میں جو ردعمل پیدا ہوا ہے‘ بھارت اس سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ لاک ڈائون کو 103سے زائد دن ہوچکے ‘بھارتی فوج روزانہ کی بنیاد پر کشمیری نوجوانوں کو قتل اور گھروں کو مسمار کررہی ہے‘ املاک اور کھیت جلائے جارہے ہیں۔ بھارتی اقدامات نے کشمیری معیشت کو تباہ کردیا۔ سیب کی پیداوار کشمیر ی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ رواں سال بھارت نے کشمیر کی خودمختاری پر جب وار کیا تو کشمیری سیب برآمد کیے جانے کے لیے تیار ہوچکا تھا۔ بھارت کی جانب سے کشمیری سیب کی برآمد روک دی گئی‘ بھارت کی 9ریاستوں میں جہاں کشمیری سیب کی کھپت اس کی پیداوار کا 40فیصد ہے‘ کشمیری سیب کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی۔ بیرون ملک برآمد بالکل ہی بند کردی گئی۔ سری نگر کی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ذمہ دار نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ رواں سال کشمیر میں 90فیصد سیب درختوں پر ہی گل سٹرچکا ہے اور اسے اتارنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا۔ بھارت نے اس اقدام سے کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کی کوشش کی ہے‘ مگر ہم پھر بھی آزادی کی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اب دنیا حیرت زدہ ہے کہ گھروں میں راشن ختم‘بازاروں میں کاروبار ختم‘ مواصلات کا نظام ختم‘ نقل و حمل کا انتظام ختم‘ کشمیری ہیں کہ پھر بھی پوری قوت سے تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارتی پابندیوں نے وادی میں قحط کی صورتحال پیدا کردی ہے‘ ہسپتالوں میں ادویات ختم ہوگئیں ہیں۔ سکول‘کالج اور جامعات بند کروا کرکشمیری نوجوانوں کو عالمی تعلیمی شیڈول میں ایک سال پیچھے دھکیل دیا گیا‘مگر پھر بھی شعلہ حریت کو سرد نہ کیا جاسکا۔ کشمیری نوجوانوں کو بھپری موجویں بھارتی فوج کیلئے لوہے کے چنے ثابت ہورہے ہیں۔ ان نوجوانوں کو اس کی پروا نہیں کہ دنیا ان کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں‘کوئی اخلاقی مدد ملتی ہے یا نہیں۔ وہ اپنے پورے شعور اور اپنی پوری قوت کے اپنے مقصد کے حصول کیلئے جدوجہد میں مگن ہیں۔
اب ‘بھارت نے آخری حربے کے طور پر کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا‘ مودی حکومت اپنا آخری وار کرچکی ‘جس کا ردعمل یہ ہوا کہ ایسے علاقے جہاں مزاحمت نہیں ہوتی تھی‘ وہاں بھی نوجوان بیدار ہوچکے ہیں۔ کارگل ‘لداخ کے علاقوں سے بھی تواتر سے بھارتی ''سورمائوں‘‘ کو روز ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ جس کی وجہ سے ان کے نفسیاتی طو ر پر متاثر ہونے اور خود کشی کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ دوسری جانب جموں کشمیر کے عوام اب ایک تنظیم کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ‘بڑے منظم انداز میں نوجوانوں نے احتجاج کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ذمہ داریاں تقسیم کرلیں ہیں۔ علاقائی سطح پر نوجوانوں نے اپنے علاقے میں قائم گھروں کے لیے راشن کے حصول اور اس کی تقسیم کا مربوط نظام قائم کیا ہوا ہے‘ ہسپتالوں میں ادویات کی قلت اور بھارتی فوج کی رکاوٹوں کے باعث ہسپتالوں تک مریضوں کی رسائی نہ ہونے کا بھی متبادل ممکنہ حد تک ڈھونڈا گیا ہے۔ کشمیری ڈاکٹروں کے گروپس‘ میڈیکل ایسوسی ایشنز اس حوالے سے خصوصی طور پر سرگرم ہیں اور حریت کانفرنس کے علاقائی ذمہ داران کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ 
بھارت جتنی جلدی کشمیری مائوں کی جانب سے اپنے بچوں کو ''رنگ سرخ‘‘ سمجھانے کے استعارے کو سمجھ جائے اس کے لیے بہتر ہوگا ۔ ورنہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دیکھتے ہوئے سکھ برادری سمیت تین دیگر بھارتی ریاستوں میں علیحدگی کے حوالے سے آوازیں بلند ہونے کی خبریں تو میڈیا پر گردش کرنا شروع ہو چکی ہیں‘جو مودی حکومت کے ہندتوا پرچار کے خلاف واضح اعلان جنگ ہے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں