"FBC" (space) message & send to 7575

ناروے کا دل سوز واقعہ اور ’’سیان‘‘

ناروے میں ایک ملعون پادری لارس تھورسن‘ قرآن مجید کو جلانے (معاذ اللہ) کی جسارت کرتا ہے تو مجمع سے ایک مسلمان نوجوان عمر دھابہ(جسے سوشل میڈیا پر عمر الیاس لکھا جارہا ہے) اس پر جھپٹ پڑتا ہے اور پھر ناروے پولیس دونوں کو گرفتار کرلیتی ہے ۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد تمام دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے ملعون پادری کی سخت مذمت کی جاتی ہے اور نوجوان عمر دھابہ مسلم نوجوانوں میں ہیرو قرار پاتا ہے۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی پادری نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔باشعور اور تہذیب یافتہ ہونے کے دعویدار ممالک میں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرکے سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا ہے اور یہ واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں ۔مغرب میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر دی جانے والی ''مادر پدر آزادی‘‘ کو بنیادبنا کر مسلمانوں کی مقدس ہستیوں‘ آسمانی صحیفوں اور مذہبی عقائد کی توہین کرنا عیسائی پادریوں نے وتیرہ بنا لیا ہے۔ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے نام نہاد آزادیٔ اظہارِ رائے کے ضمن میں سوشل میڈیا پر ایسے گھنائونے فعل کیے جاتے ہیں ‘جو مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ۔مغربی قوانین کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے کے خبط میں مبتلا یہ ذہنی مریض ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ناروے میں ہونے و الے واقعے کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ستاسی سالہ پادری لارس تھورسن مغربی میں شہرت کی ہوس میں مبتلا دیگر مغربی پادریوں کی طرح ‘ مسلمانوں کیخلاف ایک تنظیم ''سیان‘‘ (SIAN-Stop Islamisation In Norway) بنائی اور ناروے کے مختلف شہروں ‘ فورمز پر مسلمانوں کیخلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ اس ملعون پادری نے انبیاء کرام کی شان میں گستاخی اور اسلام پر تنقید کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ مہم جاری رکھی‘ مگر اسے خاطر خواہ توجہ حاصل نہ ہوسکی ؛ البتہ یہ ضرور ہوا کہ مغربی میڈیا ان درجن بھر افراد پر مشتمل مظاہروں کی کوریج کرتا رہا۔ 
نومبر 2019ء کے آغاز پر جب لارس تھورسن نے اس مظاہرے کا اعلان کیا تو ایک صحافی نے اس سے انٹرویو کیا اور مظاہرے کی وجہ دریافت کی‘ جس پر اس ملعون پادری نے مظاہرے میں قرآن مجید جلانے کا اعلان کردیا۔اس اعلان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے کے بعد ناروے میں مسلمانوں میں اشتعال پھیلا ‘ پھر جس دن یہ مظاہر ہونا تھا ‘انتہاپسند عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مظاہرے میں مسلمان نوجوان بھی موجود تھے۔اس ملعون پادری کو اس حرکت سے روکنے کی کوشش کرنے والے نوجوان عمر دھابہ اپنے فیس بک پر اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ ملعون پادری کو انتظامیہ کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی سے روکا گیا تھا ‘ مگر جب اس پادری کے ساتھی نے قرآن شریف کی ایک کاپی نیچے پھینکی تو پولیس نے کوئی ایکشن نہ لیا اور پھر جب ملعون پادری لارس تھورسن نے قرآن شریف کو آگ لگانے کی جسارت کی تو ہم دوست پہلے پولیس کی جانب سے اسے روکنے کا انتظار کرتے رہے‘ مگر جب پولیس کی جانب سے ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر نہ آئی تو ہم نے اس پر حملہ کردیا۔ یہ واقعہ ناروے کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیش آیا‘ مگر سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے اس ملعون پادری کی سستی شہرت حاصل کرنے کی خواہش پوری ہوگئی۔ الغرض بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے تقریباً تمام بڑے فورمز پر یہ واقعہ مثبت و منفی دونوں پہلوئوں سے زیر بحث آیا۔ جہاں انتہاپسند عیسائیوں کی جانب سے اس واقعے کی حمایت کی گئی ‘وہاں دنیا میں بڑی تعداد میں اس واقعے کے خلاف ردعمل سامنا آیا اور دبائو اس قدر بڑھا کہ ناروے حکومت کو قرآن مجید فرقان حمید کی حرمت کے حوالے سے قانون بنانا پڑا۔
قرآن شریف کی بے حرمتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔ایسے واقعات کا سرا ڈیڑھ دہائی قبل سے ملتا ہے‘ جب 2005ء میں بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں مسلمان قیدیوں سے قرآن پاک چھین کر جلائے جانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ۔ ان ویڈیوز سے امریکہ کو دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور حکومتی سطح پر اس عمل پر معذرت خواہانہ انداز اپنایا گیا‘ مگر ذمہ دار فوجی اہلکاروں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘تاہم بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر امریکی فوجی مسلسل زیر بحث رہے۔ایک اور واقعہ اس وقت سامنے آیا ‘جب جولائی 2010ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چرچ ''ڈاو ورلڈ آئوٹ ریچ سینٹر‘‘ کے پادری ٹیری جونز نے اعلان کیا کہ وہ اس سال 11ستمبر کو مسلمانوں کے قرآن کے تین ہزار نسخے جلائے گا۔ (معاذ اللہ)۔متنازع شخصیت کا مالک یہ امریکی پادری ملعون ٹیری جونز ہوٹل ویٹر سے پادری بنا‘پھر جرمنی چلاگیا‘ جہاں اسے سنگین الزامات کے تحت جرمن عدالت سے سزا ہوئی ‘جس کے بعد 2008ء میں چرچ آف جرمنی کی فیڈریشن نے ٹیری جونز کو فارغ کردیا۔ ٹیری جونز واپس امریکہ آیا اور شہرت حاصل کرنے کے لیے کبھی امریکی صدر کے پتلے جلاتا اور کبھی صدارتی امیدوار بن جاتا۔ ان ہتھکنڈوں سے جب اسے بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خاطر میں نہیں لایا گیا‘ تو اس نے قرآن مجید کو جلانے کا اعلان کردیا تھا۔اس اعلان کے بعد بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس کی جانب ہوئی اور اسے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے کوریج دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ‘اس عمل کے بعد اس خبیث امریکی پادری کو 153بین الاقوامی ٹی وی چینلوں میں انٹرویو کے لیے بلایا گیا‘ جبکہ مختلف چینلز کی جانب سے نشر کیے جانے والے اس کے انٹرویوز کی وجہ سے اس کی سوشل میڈیاپر مسلمان مخالف فالورز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ امریکہ میں اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے امریکی صدر بارک اوبامہ اور امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن اس خبیث سے یہ عمل نہ کرنے کی درخواست کرتے رہے۔اس خبیث نے مارچ 2011ء کو ایک چرچ کے سامنے قرآن مجید کا ایک نسخہ جلا کر شہید کردیااور دوسری بار اپریل 2012ء میں اسی قبیح فعل کا مرتکب ہوااور اس نے گستاخانہ فلم بھی بنائی‘ جس کے بعد دنیا بھر میں ردعمل سامنے آیا اور مسلم و یورپی ممالک میں ہونے والے مظاہروں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔ ٹیری جونز کے اس قبیح فعل کے بعدجرمنی‘ ڈنمارک ‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ نیوزی لینڈ‘ ناروے اور بھارت سمیت مختلف ممالک میں ذہنی مریضوں اور سستی شہرت کے حصول کے لیے مختلف ممالک میں قرآن مجید کو شہید کیے جانے کے واقعات سامنے آئے۔برطانیہ میں ایک سکول کے دو بچوں نے بھی سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا میں ملعون ٹیری جونز کے حوالے سے خبریں پڑھ کر اس فعل کے مرتکب ہوئے اور گرفتار کرلئے گئے۔سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا پر ایسے کرداروں کے حوالے سے مواد نشر ہونے کے اثرات افغانستان میں اس وقت دکھائی دئیے‘ جب فروری 2012ء میں بدنام زمانہ امریکی اڈے بگرام ائیربیس میں واقعہ جیل میں قیدیوں سے قرآن مجید کے نسخے ‘امریکی فوجیوں نے لے کر ان نسخوں کو پھاڑ کر شہید کیا‘ پھر انہیں آگ لگادی۔ امریکی فوجیوں کی جانب سے اس حرکت کی ویڈیو یو ٹیوب پر ڈالی گئی تو ایک بار پھر مسلم امہ سراپا احتجاج بن گئی۔ افغانستان میں ہونے والے مظاہروں میں تیس سے زائد افراد جاں بحق‘ جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے کو بھی بین الاقوامی میڈیا پر بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا‘ جس میں قرآن مجید کے نسخے شہید کرنے والے امریکی فوجیوں کیخلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی‘ تاہم مظاہرین کو انتہاپسند قرار دیا جاتا رہا۔ 
بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسے خبیث کرداروں کی کسی بھی انداز میں ترویج مسلمان مخالف واقعات میں اضافہ کا سبب بنتی ہے ۔ فیس بک ‘ ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جن پر دیگر کسی بھی مذہب کے حوالے سے بات کرنے پر اکائونٹ بند کردیا جاتا ہے‘ مسلمانوں کے خلاف مواد کھلے عام شیئر ہورہا ہوتا ہے۔ فیس بک پر ہولوکاسٹ پر بات کی جائے یا ہٹلر کے دور حکومت کے حقائق بیان کیے جائیں‘ کشمیر میں بھارتی مظالم بیان کیے جائیں یا افغانستان میں امریکی تباہ کاریوں پر بات کی جائے ‘ فیس بک کی انتظامیہ ایسے مواد کو کمیونٹی سٹینڈرڈز کیخلاف قرار دیتی ہے‘ مگر مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی‘ قرآن مجید جیسی مقدس کتاب پر حملوں سمیت مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا کسی بھی قسم کا مواد سوشل میڈیا پر ڈالنے کی مکمل اجازت دیتی ہے‘ اگر یہ پلیٹ فارمز اپنے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو اپنے مفادات کے تابع رکھیں گے ‘تو پھر انہیں مسلمانوں کی جانب سے بھی ردعمل کا سامنا رہے گا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنی سمت درست کریں ‘جبکہ دنیا بھر میں ان پلیٹ فارمز پر موجود مسلمان ان پلیٹ فارمز پر اپنا احتجاج ہر ممکن اور قانونی طریقے سے ریکارڈ کرائیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں