مہینے کے آغاز پر گھر کا سودا سلف لانے کی ذمہ داری کبھی کبھی ہمیں ادا کرنی پڑجاتی ہے۔ اس بار جب یہ قرعہ فال ہمارے نام نکلا تو سودا سلف کی فہرست تھامے بازار کا رخ کیا۔جب اپنے مقررہ قصائی کے پاس پہنچے تو پتا چلا کہ جن قصائی محترم سے ماہانہ گوشت خریدا جاتا تھا‘ وہ کسی وجہ سے چند دنوں سے غائب تھے۔ اس لیے گوشت کی خریداری کے لیے نئے قصائی کا انتخاب کرنا پڑا ۔ اب ایسے موقع پر ہم گوشت کی پہچان کرنے سے زیادہ قصائی کی پہچان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ویسے تو اصل پہچان استادِ محترم اطہر ہاشمی صاحب نے یہ بتا کر کروائی تھی کہ یہ ''قصائی‘‘ نہیں‘ بلکہ قسائی ہے۔ یہ جاننے کے بعد ہم گوشت سے زیادہ قصائی کو ناپ تول کر گوشت خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خیر ایک بظاہر شریف دکھائی دینے والے قصائی صاحب سے دو کلو گوشت خریدا اور پھر اگلے سامان کی خریداری کے لیے چلے۔ اچانک احساس ہوا کہ گوشت کا وزن کچھ کم محسوس ہورہا ہے۔ سبزی خریدنے کے دوران گوشت کا وزن بھی سبزی والے سے کروایا تو انکشاف ہوا کہ گوشت 1100گرام ہے‘ یعنی قصائی صاحب جن کو جانچنے کے دوران شرافت کا تناسب ہونے کی وجہ سے ‘ ان سے گوشت خریدا گیا تھا‘ پورے 900گرام کی ڈنڈی ماری تھی۔فوری طور پر یہ حساب کتاب سمجھنے کے لیے واپس قصائی صاحب کے پاس پہنچا‘ تو انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ گوشت کی صفائی کے دوران اتنا وزن کم ہوجاتا ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا کہ ہر خریدار کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے یا صرف ہم ہی وہ بدقسمت ہیں ‘جن کے نصیب میں اتنا گندا جانور آیا کہ جس کا آدھا وزن اس کی گندگی پر مشتمل تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ تقریباً خریداروں کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ گوشت کی مقدار اطلب سے کم ہی ملتی ہے۔ اندازہ ہوا کہ جناب ''قصائی برادری‘‘بھی خریداروں کے ساتھ زیادتی کررہی ہے اور ہم اب اس زیادتی کے عادی ہوچکے ہیں‘ اس لیے اعتراض کی بجائے اس پر بھی حسب ِمعمول خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ صورت ِ حال صرف قصائیوں تک محدود نہیں ‘ اگر دیکھا جائے تو ہر شخص اپنی حیثیت‘بساط اور اوقات کے مطابق ایک ''قصائی ‘‘ بنا ہوا ہے‘ جس کا جہاں بس چلے ڈنڈی مارنے سے گریز نہیں کرتا۔ من حیث القوم یہ ہمارا طرزِعمل بن چکا ہے۔ پھل فروش ذرا نظر چوکنے پر گلا سڑا ا مال دے دے گا‘ سبزی فروش پرانی سبزی پانی و کیمیکل کے چھڑکائو کے بعد تازہ بتائے گا‘ پٹرول پمپ جانا ہو تو سرکاری گاڑیوں کا پٹرول آپ کی گاڑی میں کم پٹرول ڈال کر‘ وصول کیا جارہا ہوگا‘ چوک چوراہوں پر مصنوعی معذوری ظاہر کرکے پیسے مانگتے بھکاری ملیں گے‘ ٹائرپنکچر والے اضافی پنکچر ٹیوب چیک کرنے کے دوران ہی کرلیتے ہیں۔ ریستوران‘ مضر صحت کھانے فروخت کرتے ملیں گے ‘تو نجی ہسپتال بیماریاں پیدا کرنے کی نرسریاں ہوں گی۔ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت تعلیمی ڈھابے بن چکے ہیں ‘جہاں بڑے تعلیمی پکوان کا مینو بنا کر سستے تعلیمی دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔
وائٹ کالر جاب کرنے والوں کا احوال بھی کچھ مختلف نہیں‘ دفاتر میں مقررہ اوقات کے بعد پہنچنا ایک معمول کا عمل بن چکا ہے‘ ایسے کرنے کے بعد صفائی دیتے وقت یہ جھوٹ تو ہم بول لیتے ہیں کہ ٹریفک جام تھا‘ گھر میں ایمرجنسی تھی‘ راستے میں ٹائر پنکچر ہوگیا تھا‘ مگر کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ گھر سے دفتر تک کا فاصلہ جتنے وقت میں طے ہوتا ہے‘ اس سے دس پندرہ منٹ پہلے گھر سے نکل جائیں ‘تاکہ کسی ٹریفک جام وغیرہ کاسامنا ہو ‘بھی جائے تو دفتر پہنچنے میں تاخیر نہ ہو۔ دس منٹ پہلے تو خیر کیا نکلنا ‘ اگر گھر سے دفتر کا فاصلہ 20منٹ کا ہے‘ جو60کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوتا ہے‘ تو ہم گھر سے 10منٹ پہلے نکلیں گے اور یہ فاصلہ 120کلومیٹر کی رفتار سے اس ٹریک پر طے کرنے کی کوشش کریں گے‘ جس پر حد رفتار 70کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔اس دوران خدانخواستہ حادثہ‘ جانی و مالی نقصان ‘ غرض یہ کہ کسی بھی چیز کی کوئی پروا نہیں کرتے‘راستے میں تیزہارن دیتے لڑتے جھگڑتے وقت پر دفتر پہنچنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں‘مگر دفتر پہنچنے میں تاخیر پھر بھی ہوجاتی ہے۔ اس موقع پر انتظامیہ کو جھوٹ کی بنیاد پر جواز دئیے جاتے ہیں۔یوں بھی ہوتا ہے کہ ناشتہ کی میز پر اخبار میں پاکستان میںٹریفک حادثات میں سالانہ 5601افراد کے جاں بحق اور 12ہزار سے زائد کے زخمی و معذور ہونے کا پڑھتے ہیں تو افسوس کرتے ہیں۔ نظام کو کوستے ہوئے جلد بازی میں ناشتہ کرکے اسی تیزرفتاری سے ٹریفک کے بہائو میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود دفتر وقت پر پہنچنے کا ہدف حاصل نہیں کرپاتے‘ گھر سے چند منٹ جلد نکلنے کی بجائے ساری تخلیقی صلاحیتیں اس پر لگادی جاتی ہیں ‘کیسے حاضری مشین کو اس کا عادی بنایا جائے کہ ہم جس وقت بھی آئیں‘ وہ ہمیں مقررہ وقت پر ظاہر کرے۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ‘ ہم تو مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بھی ملاوٹ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ہم ہی دنیا کے وہ واحد مسلمان ہیں‘ جو چھٹی والے دن نماز کی ادائیگی میں دس منٹ لگاتے ہیں ‘مگر دفتر میں نماز کی ادائیگی تقریباً آدھا گھنٹہ یا اس سے بھی زائد وقت میں ہوتی ہے۔ وضو اور طہارت کے معاملات اس کے علاوہ ہیں ۔
اب ہمارے مرشد تواس حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں جاری فساد کی اصل جڑ حرام کا لقمہ ہے‘ حرام کمانے والا انسان یہ لقمہ خود بھی کھاتا ہے اور اپنی آل اولاد کو بھی کھلاتا ہے‘ پھر حرام کمائی کے اثرات ایک نسل تک محدود نہیں رہتے‘ بلکہ اس کی'' تاثیربد‘‘ خون میں شامل ہوکر نسلوں کو منتقل ہوتی ہے اور اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے۔ اب‘ درج بالا حصول ِرزق کے معاملات کے حلال و حرام ہونے کے حوالے سے توہماری کیا مجال کچھ کہیں۔ اس حوالے سے تو کوئی مفتی صاحب ہی فتویٰ جاری کرسکتے ہیں ‘مگر ہاں ! اب‘ یہاں بھی یہ ضروری ہے کہ مفتی صاحب کا تعلق علمائے سو سے نہ ہو ۔ ورنہ رضائے حاکم پر ''فتاویٰ‘‘ جاری کرنے والوں کی کمی نہیں ‘ان کا مسلک‘ فقہ‘دین صرف اور صرف ''خوشنودی حاکم‘‘ ہے ۔ اس لیے حلال حرام کا فتویٰ لینے کے لیے ضرور کسی ایسے عالم کو ڈھونڈنا چاہیے‘ جو علم کے بوجھ سے ''پتی والا پان‘‘ کھا کر لڑکھڑا نہ جائے۔
اہل علم تو کہتے ہیں کہ رزق ِحلال عین عبادت ہے اور اس کی رو سے تو ہم اپنی عبادت میں ہی اپنی بساط کے مطابق ملاوٹ کرکے ‘پھر اسے حرام بنانے پر تلے ہوئے ہیں ‘ یعنی کرپشن ہمارے اندر اس قدر سراعت کرچکی ہے کہ اب ہم اسے برائی خیال ہی نہیں کرتے‘ پھر واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ‘ویسے ہی حکمران مسلط کیے جائیں گے۔ اخلاقی اقدار تو ویسے ہی تنزلی کا شکار ہیں اور اگر کوئی قوم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوجائے تو کرپشن سمیت ہر برائی وہاں درآتی ہے؛اگرچہ نااہل حکمران بھی ایسے ہی درآنے والی برائیوں میں سے ہوتے ہیں‘لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حکمرانوں کی جانب تنقید کا پتھر وہ پھینکے‘ جس نے کبھی کرپشن نہ کی ہوتو ذرا بتائیں کہ کون مارے گا پہلا پتھر؟؟؟
کرپشن ہمارے اندر اس قدر سراعت کرچکی کہ اب ہم اسے برائی خیال ہی نہیں کرتے‘ جیسے عوام ہوں گے ‘ویسے ہی حکمران مسلط ہوں گے‘ اخلاقی اقدار تو ویسے ہی تنزلی کا شکار ہیں اور اگر کوئی قوم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوجائے تو کرپشن سمیت ہر برائی وہاں درآتی ہے؛اگرچہ نااہل حکمران بھی ایسے ہی درآنے والی برائیوں میں سے ہوتے ہیں‘لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حکمرانوں کی جانب تنقید کا پتھر وہ پھینکے‘ جس نے کبھی کرپشن نہ کی ہوتو ذرا بتائیں کہ پہلا پتھر کون مارے گا؟