عرصہ ہوا ٹی وی ڈراموں سے لاتعلقی اختیار کرچکا ہوں یا یوں کہہ لیں کہ سیاسی ڈراموں کا اتنا عادی ہوگیا ہوں کہ اب‘ ٹی وی ڈراموں میں دلچسپی نہیں رہی ہے‘ تاہم حال ہی میں ایک ڈراما سیریز کے حوالے سے سماجی ویب سائٹس پر ہونے والے پروپیگنڈے کے بعد سوچا کہ اس ڈراما سیریز کو دیکھنا چاہیے‘ تاکہ اندازہ ہو کہ ایسی کیا نئی تخلیق سامنے آئی‘ جس پر اس قدر شور برپا ہے۔سو‘ وقت نکال کر اس ڈرامے کے کچھ حصے دیکھے تو سخت کوفت ہوئی اور وقت ضائع کرنے پر غصہ آیا۔ اب‘ اگر مجھ سے کوئی اس ڈراما سیریز پر تبصرہ کرنے کو کہے گا تو میں محترم عاصم اللہ بخش کا تبصرہ دہرا دوں گا کہ ''ایسی تخلیق دانش کی موت کی صورت ہی ہوسکتی ہے‘‘۔
پاکستان میں ڈراما ابتداء سے ہی اس حالت میں نہیں تھا۔ اس درجہ کا زوال ایک عروج دیکھنے کے بعد آیا ۔نئی نسل تو شاید تصور بھی نہ کرسکے کہ ڈراموں کے ذریعے کیسے ثقافتی‘سماجی‘معاشی اقدار کو زندہ رکھا جاتا تھا اور کیسے قومی معاملات پر ٹی وی سکرین کے ذریعے ہم آہنگی پیدا کی جاتی تھی۔ انور مقصود‘ امجد اسلام امجد‘ اشفاق احمد‘ حمید کاشمیری‘ حسینہ معین اور منو بھائی اور ان جیسے دیگر صف اول کے ڈراما نگار وں کے سکرپٹ کو شہزاد خلیل‘ بختیار احمد‘ ایوب خاور‘ کاظم پاشا‘ ساحرہ کاظمی اور شعیب منصور اور دیگر مایہ نازڈائریکٹرز اپنی خداداد صلاحیتوں سے سجاتے تھے‘ پھرجب طلعت حسین ‘ سلیم ناصر‘ عابد علی ‘ عظمیٰ گیلانی‘ راحت کاظمی اور ان جیسے دوسرے ستارے ان کرداروں میں اپنی جاندار اداکاری سے حقیقی رنگ بھرتے‘ توجو تخلیق سامنے آتی ‘وہ ایک شاہکار ہوتا‘ جو لوگوں کے ذہن و دل پر نقش ہوجاتا۔یہ صرف ڈرامے نہ ہوتے تھے ‘بلکہ یہ ایسے آئینے تھے‘ جو معاشرے کی عکاسی کرتے ‘ ایسی ڈور تھے‘ جو ثقافتی و مذہبی اقدار سے جوڑے رکھتی۔ ہر ڈراما سیریز سماجی و معاشی ناہمواریوں کی آئینہ دار ہوتی تھی ‘ قومی مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی ایسے خوبصورت پیرائے میں بتایا جاتا کہ جو تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیتوں کا گرویدہ بنادیتا ۔''خدا کی بستی‘ ان کہی‘ دھوپ کنارے‘‘ اطراف میں بکھری کہانیاں تھیں‘ جن کے کردار آج بھی دلوں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ ''انگار وادی ‘ جلتے چنار‘‘ نے مسئلہ کشمیر کو کبھی ذہنوں سے محو ہونے ہی نہیں دیا تو ''دھواں‘ الفا براوو چارلی‘اندھیرا اجالا‘‘جیسے شاہکاروں نے قومی اداروں کے احترام میں اضافہ کیا ‘ اسی طرح ''محمد بن قاسم‘ آخری چٹان‘‘ نے شاندار اور جدوجہد سے بھرپور ماضی سے کبھی تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔ ''سونا چاندی‘ الف نون‘ انکل عرفی‘ ففٹی ففٹی‘‘ جیسے کامیڈی ڈراموں نے عوام میں بامقصد تفریح کے اصل مفہوم سے آشنا کروایا۔غرض یہ کہ ایک لمبی فہرست ہے ‘ایسے ڈراموں کی کہ جس نے پاکستان میں ہی نہیں ‘بلکہ سرحد پار بھی ناظرین کو ایک طویل عرصے تک اپنے سحر میں جکڑے رکھااور کروڑوں دلوں پر راج کیا۔
پھر یوں ہوا کہ پاکستانی ڈرامے کو کمرشل ازم کا وائرس لگ گیا‘ جو پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کے لیے ''کورونا وائرس‘‘ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ ایڈورٹائزرز کی مرضی و منشا کے مطابق ‘ڈرامے لکھے جانے لگے ‘جن میں طلاق‘ مردوزن کے ناجائز تعلقات‘ گلیمراور ہوس کو اس قدر بڑھاوا دیا کہ آج اس کے نتائج ہم اخلاقی و ثقافتی تنزلی کی صورت بھگت رہے ہیں۔جب پڑوسی ممالک اپنی مٹی کو سونا بنارہے ہیں‘ ہم نے اپنے سونے کو مٹی بنا دیا ہے؛ حتیٰ کہ ڈراموں کے حوالے سے ایک شاندار ماضی رکھنے والا قومی ٹی وی چینل بھی اب قومی معاملات پر عوام میں آگہی کے حوالے سے کوئی تخلیقی کام کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
ہم قوم کو تخیلاتی دنیا کی سیر کرارہے ہیں‘ محبت و افسانوی داستانوں کے ذریعے معاشرے کی تباہی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔مذہبی‘ سماجی‘ معاشرتی اقدار کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔افسوس صد افسوس کہ یہ سب ایسے موقع پر ہورہا ہے‘ جب دنیامیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے نئی نسل کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر توجہ دی جارہی ہے ۔
حال ہی میں برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردوان پاکستان کا دورے پر تھے تو ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اعلان کیا کہ ہم ترکی کی معاشی ترقی سے ضرور سیکھیں گے!اگر حکمران واقع سنجیدہ ہیں تو ہم انہیں ترک ڈراموں کی مقبولیت اور معاشی ترقی میں ان ڈراموں کے کردار کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ ترکی میں ''ارطغرل ‘‘ جیسے تاریخی ڈراموں کے ذریعے ناصرف نوجوان نسل کو اپنی شاندار ماضی سے جوڑنے کا شاندار فریضہ انجام دیا گیا ہے‘ بلکہ مذہبی ‘ثقافتی ‘ سماجی اور روایتی اقدار سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ ترکی کی ڈراما سیریل ''ارطغرل‘‘ دنیا کے 149ممالک میں دیکھی گئی ہے‘ جبکہ اس کی کاسٹ کو 17ممالک میں سرکاری مہمان بننے کا بھی اعزاز حاصل ہواہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان متعدد بار اس ڈراما کی کاسٹ کو اپنا مہمان بنا چکے ہیں اورکئی بار ڈرامے کی ریکارڈنگ کے دوران اچانک سیٹ پر پہنچ کر سب کو حیران کرچکے ہیں۔ یہ وہی ڈراما ہے جس کے لیے ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے وزراء کو ارطغرل بینی کی نصیحت کرتے نظر آتے ہیں ۔ نیویارک ٹائمز اس حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہے کہ اگر طیب اردوان کے ترکی کو سمجھنا ہے تو اس کے ڈراما سیریز ''ارطغرل‘‘ کو دیکھنا چاہیے۔یہ تو ہے ترک ڈراموں کی مقبولیت کا احوال! اب‘ ذرا غور کریںکہ ترکی نے ڈراموں کو کیسے اپنی معیشت بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ترکی کی تاریخی ڈراما سیریز کی کامیابیوں کے بعد ترکی میں سیاحوں کی دلچسپی بڑھی تو وزارت ِسیاحت و ثقافت نے خصوصی اقدامات شروع کردئیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب‘ ترکی کے وزیر سیاحت و ثقافت مہمت نوری ایر سوئے فخر سے بتاتے ہیں کہ صرف گزشتہ ایک سال میں سیاحوں کی تعداد میں 25فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عرب ترک قومی تعصب کی بنیاد پر سعودی عرب اور عرب امارات کی جانب سے ترکی ڈراموں پر عائد کی گئی پابندی بھی عربوں میں ان ڈراموں کی پسندیدگی کا عنصر کم نہ کرسکی اور گزشتہ سال سیاحت کے لیے آنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد عربوں کی تھی۔ترکی نے ان ڈراموں کے ذریعے ''مائیکرو ایکسپورٹس‘‘ کو بڑے منظم انداز میں بڑھایا ہے‘ دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں ترکی میں تیار کردہ مردو خواتین کے ملبوسات‘ قالین‘ زیورات اور خاص طور پر کھانوں کی اشیاء کی طلب میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اللہ کرے کہ ہمارے حکمران اپنے دعوے کے مطابق ‘ترکی کی معاشی ترقی سے سبق حاصل کرلیں‘ اپنی ڈراما انڈسٹری کو ملکی معیشت کی بہتری‘ برآمدات بڑھانے اور نوجوان نسل کو مذہبی و ثقافتی اقدار سے جوڑے رکھنے کے لیے استعمال کریں۔ قومی ٹی وی عمومی طور پر کمرشل ازم کے وائرس سے متاثر نہیں ہوتا اس لیے سرکار کو اس جانب قدم اٹھانے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ہی استعمال کرنا چاہیے۔ایسے مواقع پیدا کرنے چاہئیں کہ باصلاحیت و تخلیقی افراد کمرشل زدہ سکرینوں کی بجائے سرکاری ٹی وی کی جانب آئیں۔ اگرایسا ہوجاتا ہے اور پاکستان ٹیلی ویژن مستقبل میں اپنے شاندار ماضی سے جڑ جاتا ہے تو یقینی طور پر یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔