"FBC" (space) message & send to 7575

…بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

''سابق صدر مشرف اس عمر رسیدہ شخص سے زچ ہوچکے تھے اور کئی مرتبہ اس کا برملا اظہار بھی کر چکے تھے۔کبھی کہتے کہ انہیں سٹی ناظم نہیں بننا چاہیے تھا۔ کبھی کہتے کہ یہ شخص خطرناک حد تک ایماندار اور صاف گو ہے۔ کبھی اس شخص کو اپنے بنائے ہوئے سسٹم کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ۔ صدارتی ریفرنڈم پر حمایت سے واضح انکار ہوا اور کوئی دھمکی بھی کارگر نہ ہوئی تو مشرف صاحب کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا۔ نعمت اللہ خان کی مقبولیت کے باعث ان کو خطرہ تھا کہ وہ دوبارہ سٹی ناظم کراچی منتخب ہوسکتے ہیں ‘اس لیے پہلے انہیں کچھ لو‘ کچھ دو کے تحت قائل کرنے کی کوشش کی گئی ‘ناکامی کے بعد کراچی کا ناظم تبدیل کرنے کیلئے ہر ممکن حربہ آزمایا گیا اور بالآخر اس بوڑھے شخص کو ووٹ کی طاقت سے نہیں‘ بلکہ اپنے سسٹم کے بل پر شکست دی گئی تھیـ‘‘۔سابق صدر پرویز مشرف کے سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان صاحب کے حوالے سے یہ خیالات ہمیں جنرل (ر)شاہد عزیز نے بتائے۔ یہ ان کے ساتھ ایک اتفاقی غیر رسمی ملاقات تھی ‘ جب 2013ء میں ان کی کتاب ''یہ خاموشی کہاں تک ‘‘ شائع ہوئی تو انہیں اینکر مہر بخاری صاحبہ نے اپنے پروگرام میں مدعو کیا۔ پروگرام کے اختتام پر مجھ سمیت چند صحافی انہیں چائے پلانے لے گئے۔ طویل نشست ہوئی اور مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی۔ جب کراچی پر بات آئی تو جنرل (ر) شاہد عزیز نے بتایا کہ '' نعمت اللہ خان صاحب کی وجہ سے اکثر اوقات جنرل مشرف زچ رہتے تھے اور ان کی زبان پر ان کے حوالے سے ایک جملہ اکثر سننے کو ملتا تھا کہ ''یہ سسٹم کے لوگ نہیں ہیں‘‘۔شاہد عزیز صاحب کی باتیں میرے لیے کوئی انکشاف نہیں تھیں۔کراچی میں بدترین مخالف بھی ان کے کردار اور کراچی کے لیے ان کی خدمت کا کھلم کھلا اعتراف کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔
آج وہ شخص‘ جنہیں شہر قائدؒ کے باسی بڑی محبت سے ''بابائے کراچی‘ محسن کراچی‘‘ جیسے ناموں سے پکارتے تھے ‘ ہم میں نہیں رہے۔ وفا شعاری ‘ دیانتداری اخلاص ‘ للہیت اور قابلیت کا ایک عہد زریں تمام ہوا۔رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اس کی مخلوق کی خدمت کا عمل مالک کو ایسا بھایا کہ کراچی کی ایک جھونپڑی سے سفر شروع کرنے والے کو کراچی کا تخت سونپا اور پھر دلوں کا حاکم بنا دیا۔یہ رب کی رضا کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کی ایک لازوال داستان ہے‘ جو1930ء میں اجمیر میں ان کی پیدائش کے چند سال بعد ہی شروع ہوجاتی ہے۔دس سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ والدہ بسم اللہ بیگم سکول میں پڑھاتیں تھیں‘ جس سے گھر کا خرچ اور تعلیمی اخراجات پورے ہوتے تھے۔لڑکپن میں ہی تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور پھر 16سال کی عمر میں مسلم لیگ‘ اجمیر کے نیشنل گارڈز کے صدر بن کر قائد اعظمؒ کے زیر سایہ جدوجہد کرتے رہے ۔پاکستان وجود میں آیا تووالدہ ‘دوبہنوں اور بھائی کو الوداع کہا اور 28اگست 1947ء کو ہجرت کرکے کراچی پہنچ گئے۔ ابتدائی دنوں میں تو آسمان چھت بنا اور شہر قائدؒ کے فٹ پاتھ بستر۔تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے سٹینوگرافر کے طور پر ایک کل وقتی اور دو جزوقتی ملازمتیں کرتے رہے۔کچھ جمع ہوا تو لیاری میں ایک کچا گھر کرائے پر لیا ‘ گھر والوں کی یاد نے ستایا تو والدہ اور بہن بھائیوں کو بھی اسی سرزمین پر بلا لیا۔ لوگوں کی مدد کا جذبہ ہر دم بے چین رکھتا تھا‘ اسی لیے جامعہ کراچی سے صحافت میں ڈپلومہ کیا‘ مگر صحافت کو بطورِ شعبہ اختیار نہ کیا۔ ایل ایل بی کرکے 1958ء میں وکالت شروع کی اور ایک دوست سے پانچ ہزار روپے قرض لے کر دفتر بنایا۔ ملازمت اختیار کرنے کے دو سال بعد شادی کی اور دس سال بعد حالات کچھ بہتر ہوئے تو ناظم آباد میں 19ہزار روپے میں پلاٹ خریدا‘ اس پر گھر بنایا اور اسی میں رہائش پذیر رہے۔ چند سال قبل یہ گھر بیچ کر وراثت 7بیٹوں اور 2بیٹیوں میں تقسیم کرکے حکم ربی کی تعمیل کی۔ 
ان کی سیاسی زندگی بھی اسی طرح سخت ترین حالات میں استقامت اور ثابت قدمی کا نمونہ ہے۔ 1974ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جب لسانیت و عصبیت کا عفریت شہر کو جکڑ چکا تھا‘ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر اہلیان کراچی کی نمائندگی کا حق ادا کیا‘ پھر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت 2002ء میں نعمت اللہ خان‘ سٹی ناظم بن گئے۔وہ شہر کو ایک ایسے وقت میں زندگی کی طرف لائے جب اس کے دعویداروں نے اسے وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا اور اس کی موت کے منتظر تھے۔ بربادی کے ذمہ دار جانتے تھے کہ شہر کی حالت بہتر بنانا ان کے بس میں نہیں‘ اس لیے انہوں نے بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کیا۔نعمت اللہ خان صاحب نے اس کراچی کو ایک نئی زندگی دی ‘جو ملک کے کونے کونے سے تلاش ِرزق‘ حصول علم کے لیے آنے والوں کو اپنی آغوش میں لیتا تھا۔کراچی کے تعصب‘ عصبیت‘ قوم پرستی‘ فرقہ واریت جیسے زخموں پر مرہم رکھا ۔ شہر کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے کوئی نیا ٹیکس لگائے بغیر اس کا ترقیاتی بجٹ 6ارب سے 23ارب تک پہنچا دیا۔ کراچی کے سب سے بڑے صاف پانی کے مسئلہ کا حل K3کی صورت نکالا اور اس منصوبے کو اس کی اصل لاگت سے 80کروڑ روپے کم میں مکمل کرکے پرویز مشرف کو بھی حیران کردیا‘ جس کا سابق صدر نے متعدد بار برملا اظہار بھی کیا۔دو کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی والے اس شہر میں 18فلائی اوورز ‘ 6انڈر پاسزاور 2سگنل فری کوریڈور بنا کر ٹریفک جام کا مسئلہ بڑی حد تک حل کیا‘ تو 500گرین بسز چلا کر ٹرانسپورٹ کی کمی کے مسئلے پر قابو پایا۔ 30نئے پارکس بنا کر شہر کو اس کی خوبصورتی و روشنیاں واپس دیں ۔ طلبا کے لیے 32نئے کالجز بنانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود کالجز میں شام کی شفٹ میں کمپیوٹر سائنس کے مختلف کورسز کا آغاز کیا‘ جس کا الحاق جامعہ کراچی سے کرایا گیا‘ تا کہ غریب طلبا اپنی سہولت کے مطابق‘ تعلیم حاصل کرسکیں۔ 1998ء میں جب تھرپارکر میں شدید قحط پڑا اور حکومتی نااہلی کے باعث خطرناک حد تک جانی نقصان ہوا تو ستر سالہ اس بزرگ نے تھرپارکر کے تپتے صحرائوں کا اپنا مسکن بنا لیا۔ آج تھر کے باسی انہیں تھر کا بیٹا کہتے ہیں ۔ عمر کے اس حصے میں جب انسان ہڈیوں کو آرام دینے کی سوچتا ہے ‘ نعمت اللہ خان صاحب نے تھر میں دو دہائیوں کی سخت محنت کے بعد ایک ہزار پانی کے کنویں کھدوائے ‘ون ٹیچر ون سکول ‘ مہم کے تحت سینکڑوں چونرہ (صحرا میں گھاس پھوس سے بننے والی جھونپڑی) بنائی گئیں اور ان میں سکولز قائم کیے گئے‘ روزگار پروجیکٹ کے تحت صحرائی باشندوں کو گائے ‘ بکریاں‘ کیکڑا (صحرا میں چلنے والی گاڑی) لے کر دئیے گئے۔سندھ حکومت ‘جو کئی دہائیوں سے سندھ پر حکومت کرنے کے باوجود تھر میں طبی سہولیات فراہم نہ کرسکی‘ اسی تھر کے علاقے مٹھی میں معیاری طبی سہولیات کے ساتھ الخدمت تھرپارکر ہسپتال اس بات کی گواہی ہے کہ نعمت اللہ خان صاحب ‘رب کی مخلوق کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے دیتے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ 
نعمت اللہ خان کے جنازے میں شرکت‘ اہلیان کراچی پر قرض تھی ‘ جنازے میں شرکت فرض کفایہ ہے‘ مگر یہ قرض‘ قرض کفایہ ‘نہ تھا۔ سو‘ ہر شریک نے انفرادی اسے ادا کیا۔ الغرض ان جیسے رہنما ہر قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ریاستوں کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ جب تک ایسے رہنما موجود ہیں‘ عوام میں امید باقی ہے۔بقول احمد فراز:؎
بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو
کرۂ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں