مختلف سرکاری اداروں کا احوال تو اپنے گزشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ‘ اس بار ذکر ہے‘ چند نجی اداروں کا۔ عالمگیر کورونا کی موذی وبا نے جب پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا‘ تو ''دنیا میڈیا گروپ‘‘ نے اپنے ملازمین کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا۔ جب تمام ملازمین کے ٹیسٹ کروائے گئے تو ان میں جن چند افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی‘ ان میں ایک قسمت کا مارا میں بھی شامل تھا۔ میں نے اس روز16ویں روزے کی سحری کی اور نماز و تلاوت کے معمولات کے بعد جیسے ہی تھوڑی دیر نیند کرنے کے لیے لیٹا تو آفس سے ایک کال موصول ہوئی‘ جس میں مجھے بتایا گیا کہ آپ فوری طور پر قرنطینہ اختیار کرلیں‘ کیونکہ آپ کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
اب‘ ذرا تصور کریں کہ ایک ایسی عالمگیر وبا‘ جس نے پوری دنیا کوخوفزدہ کر رکھا ہو اور جس کے نتائج انتہائی خوفناک سامنے آرہے ہوں‘ اس وبا کو بطورِ صحافی باقاعدگی سے رپورٹ بھی ہم خود ہی کررہے ہوں‘اس وبا سے انتقال کر جانے والے افراد کی تدفین کے تکلیف دہ عمل کی تفصیلات بھی ہم خود عوام کو بتارہے ہوں اور پھر اچانک پتا چلے کہ خود اس وبا کا شکار ہوگئے ہیں تو ایک بار تو انسان اندر سے دہل کر رہ جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت میری بھی تھی اور جس کرب سے میں گزرا ہوں اس کا احوال یہاں بیان کرنا مقصود ہے۔
میرے کورونا وائرس ٹیسٹ کے مثبت آنے کی اطلاع کے بعدجب مجھے محکمۂ صحت کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ آپ قرنطینہ کے لیے کس ہسپتال سے رجوع کریں گے ؟ تو میں نے انہیں بتایا کہ میں اپنے گھر میں ہی قرنطینہ اختیار کرنے کو ترجیح دوں گا۔ سچی بات یہ ہے کہ شعبۂ صحافت میں آنے کے بعد ایک طویل عرصہ کرائے کے فلیٹ میں اکیلے گزارا‘ مگر زندگی میں کبھی بھی خودساختہ تنہائی ‘ قرنطینہ اختیار کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔
کورونا وائرس کا شکار ہونے کی اطلاع موصول ہونے کے بعد کچھ دیر تک تو خالی دماغ سے بیٹھا سوچتا رہااور پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنے سٹڈی روم میں جاکر خود کو آئسولیٹ کرلیا۔سونے کے لیے لیٹا‘ مگر نیند تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اور میں جو اکثر پروگرام بنایا کرتا تھاکہ اگر دفتر سے چھٹیاں ملیں تو ایسے ایسے گزاروں گا؛ یہ کام کروں گا‘ وہ کام کروں گا‘ یہ کتاب پڑھوں گا‘ وہ کتاب پڑھوں گا۔اب‘ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے مثبت آنے کے خوف کی بنا پر میرا ذہن کوئی ایسی منصوبہ بندی سے جیسے یکسر انکار کرچکا تھا۔
بہرحال نیند تو کانٹوں کے بستر پر بھی آجاتی ہے کہ مصداق طرح طرح کی باتیں سوچتے سوچتے نیند آہی گئی۔ جب بیدار ہوا تو اہل ِخانہ کو اس کی اطلاع دی اور ہمت بندھانے کے ساتھ ساتھ مکمل ایک شیڈول مرتب کرلیا۔ کمرے کے باہر ایک میز رکھ دیا‘ جس پر گھر والے کھانا رکھ کر چلے جاتے تھے ‘جبکہ میں نے اپنے علیحدہ کیے گئے برتنوں میں وہ کھانا نکال لیتا تھا۔کھانا کھانے کے بعد اپنے برتن خود دھوکر اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔ عمومی اقدامات کے بعد اپنی چھوٹی سی لائبریری سے کچھ کتابوں کا انتخاب کیا اور انہیں دوبارہ پڑھنا شروع کردیا‘ لیکن وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ صحافی کی زندگی مصروف ترین اور میل ملاقاتوں کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے معمولات کے دوران اچانک تنہائی اختیار کرنی پڑی تو ابتداء میں تو ایک کرب کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
اسی دوران جیسے ہی کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی خبر پھیلی تو فون کالز کا تانتا بندھ گیا ۔ اب‘ چونکہ خودساختہ تنہائی کا پہلا روز تھا اور مکمل طور پر فراغت تھی تو فون کال تسلی سے سننے اور جواب دینے کے لیے بھی وقت ہی وقت تھا۔ اس عمل کے دوران مجھ پر تیمارداروں کی مختلف اقسام کا بھی انکشاف ہوا۔ کچھ تیماردار تو وہ تھے ‘جو بچپن کے دوست تھے اور وہ صحت یابی کی دعا کے ساتھ ساتھ ہر طرح کا مذاق بھی کررہے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ راسخ العقیدہ تیمار دار دعائوں ‘حاجات و مناجات بتا رہے تھے۔ سب سے ہولناک قسم ان تیمارداروں کی تھی ‘جو کورونا وائرس کو انتہائی ہولناک ثابت کرنے کے لیے اپنے قریبی عزیز‘دوست‘محلے دار یا کورونا وباکے باعث وفات پاجانے والے مریضوں کی سنی سنائی‘ مگر ہولناک قسم کی داستانیں ‘عیادت کی ''آڑ‘‘ میں سنارہے تھے۔ شاید وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میرے اعصاب‘ کوروناوائرس کو برداشت کرنے کے قابل ہیں یا نہیں؟
اس دوران مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ایسے تیمار دار اکثر کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔مریض کوروناوائرس سے تو شاید بچ جائے‘ مگر تیمار داری کے نام پر ان کی کہانیاں سن سن کر ڈپریشن سے ہی مرجائے۔خیر اس مرحلے سے جب میں اپنے طور پر احسن انداز میں گزر گیا تو میرے لیے اگلا مرحلہ سب سے تلخ تھا۔
میرا چھوٹا بیٹا چار سالہ محمد بن طارق ‘جس کی معصوم مسکراہٹ اور نرم جسم کا لمس میرے دن بھر کی تھکن اتار دیتا تھا‘ وہ آکر میرا دروازہ کھٹکھٹاتا اور مجھے کہتا کہ مجھے آپ کے پاس آنا ہے۔ میرے منع کرنے پر وہ رونے لگ جاتا‘ پھر کہتا کہ اچھا آپ دروازہ کھول دیں‘ میں دور سے آپ کو دیکھوں گا‘ اور آپ کے قریب نہیں آئوں گا۔ میں اپنی پدرانہ شفقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دروازہ کھولتا اور وہ کافی دیر تک دروازے کے سامنے کھڑا مجھے خاموشی سے دیکھتا رہتا‘اسی طرح چھوٹے بھائی نے بتایا کہ میری سات سالہ بیٹی کمرے کے دروازے سے مجھے کھڑے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے چلی گئی ۔ بھائی کو اچانک اس کی ہچکیوں کی آوازیں آئی تو اس نے دیکھا کہ جائے نماز پر بیٹھی روئے جارہی تھی۔بھائی نے دلاسہ دیا تو کہنے لگی کہ یہ کیسی بیماری ہے‘ جس میں بابا نہ ہمارے پاس آسکتے ہیں اور نہ ہمیںاپنے پاس بلاسکتے ہیں۔ میں اس بیماری کو نہیں مانتی‘ کیونکہ اللہ میاں ایسی بیماری نہیں بھیج سکتے ‘جو ہمارے باباکو اس طرح سے ہم سے دور کردے۔ یہ ایسے کربناک لمحات تھے کہ جنہیں آج بھی سوچتا ہوں تو ایک دفعہ لرز جاتا ہوں۔
خیر اگلا مرحلہ تنہائی کاٹنا تھا۔ شعبہ ٔطب سے تعلق رکھنے والے ماہرین خاص طور پر کراچی سے ڈاکٹر فیاض عالم سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رہا۔ ان کے مشوروں پر عمل جاری رکھا اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کیے رکھی۔ابتدائی دو تین روز تو کتابوں کے ساتھ گزر گئے ‘‘ ٹی وی چینلز سے مستفید ہوتے رہے ‘مگر آخر کب تک۔بیزاری ہوتی تو سب کچھ ایک طرف رکھ دیتا اور پھر سوچنے لگتا۔ ایسے موقع پر انسان جس قدر بھی مضبوط ہو اسے اولاد کمزور بنادیتی ہے۔ شاید ایمان کی کمزوری ہے کہ جس قدر بھی زبانی دعوے کرتا رہے کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور وہی پالنے والا ہے‘ پھر بھی ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اگر اس بیماری نے سفر آخرت پر روانہ کردیا تو بچوں کا کیا ہوگا؟شاید یہ انسانی سرشت میں شامل ہے۔
اسی طرح کی کئی سوچیں تھیں کہ جنہوں نے مجھے قرنطینہ کے دوران گھیر رکھا تھا اور کوئی پل سکون کا گزرنے نہیں دے رہیں تھیں۔ ایسے ہی کسی کمزور لمحے میں دو فون کالز آئیں‘ جنہوں نے تنہائی کے ان شب و روز کا رخ ہی بدل دیا۔اجمل جامی اور قاضی نصیر عالم۔ دونوں نے کہا کہ آپ بطورِ صحافی تو خبریں کھوجتے رہے ہو‘ اب اگر کچھ وقت میسر آہی گیا ہے تو ذرا تعظیم کے درجات کو سمجھو ‘ زبانی اقرار کے ساتھ قلبی تصدیق کیوں لازم قرار دی گئی ہے؟جاننے کی کوشش کرو۔بس ‘پھر یہ ہوا کہ باقی مانندہ دن اقرار باللسان و تصدیق بالقلب میں ہی گزر گئے۔بالآخر الخدمت ڈائیگناسٹک سینٹر اور جناح ہسپتال کی لیبارٹری سے پندرہ روز بعد کروائے جانے والے ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آئی تو میری یہ خود اپنائی ہوئی تنہائی ‘ جسے آئسولیشن کہہ لیں یا قرنطینہ کہہ لیں ختم ہوئی!
یاد رکھیں‘یہ خود ساختہ تنہائی انتہائی کرب ناک اور تکلیف دہ ہے ‘ اگرراہ دکھانے والے نہ ہوں تو۔ اس لیے آخر میں میرا یہی مشورہ ہے کہ اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے سے خود کو جتنا ممکن ہو سکے بچائیں!کیونکہ کورونا وائرس ایک عالمگیر اور موذی وبا ہے‘ اسے مذاق نہ سمجھیں‘ اس سے بچیں اور اپنے گھر والوں کو بھی بچائیں۔جہاں تک ممکن ہو سکے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔مختلف لوگوں کی جانب سے پیدا کی جانیوالی کنفیوژن کا شکار ہوکر اس موذی وبا کو آسان مت لیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور کورونا وائرس سمیت ہر قسم کے وبائی امراض سے بچائے۔ (آمین)