"FBC" (space) message & send to 7575

عیدالاضحی اور کورونا…(1)

''بہترین اور صحت مند جانور آپ کے دروازے پر‘ تصاویر دیکھ کر تسلی کریں اور تمام جانور طے شدہ وزن کے مطابق‘ حاصل کریں‘‘ ۔صبح صبح آنکھ کھلنے پر معمول کے مطابق‘ سب سے پہلے موبائل بینی شروع کی تو مذکورہ برقی پیغام موبائل سکرین پر جگمگا رہا تھا‘جوانتہائی قریبی دوست اسامہ فاروق چوہدری کی جانب سے موصول ہواتھا ۔اسامہ طویل عرصے تک کراچی میں بطورِ صحافی مختلف اداروں سے وابستہ رہا اور پھر میڈیا کو خیر باد کہہ کر تو وہ اپنے آبائی علاقے رحیم یار خان چلا گیا۔ اسامہ نے صحافت کو خیر آباد کہہ کر اپنی روزی کی تلاش زرخیز زمینوں میں شروع کردی تھی۔ اس بار جانوروں کی فروخت کے حوالے سے اس کا پیغام ملا تو میں نے تفصیلات جاننے کی غرض سے اسے فون کردیا۔ اسامہ نے بتایا کہ کورونا نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے تو ایسے وقت میں جب عوام کو سماجی فاصلے رکھنے ‘ ماسک پہننے اور رش والی جگہوں پر جانے سے گریز کرنے کی ہدایات دی جارہی ہیں‘ ہمیں اپنے کاروباری طورطریقوں کو بھی ان ہی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دینا ہوگا‘تاکہ ہم اس وباکے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسامہ کا خدشہ بالکل درست تھا کہ عید الاضحی پر ملک بھر میں منڈیاں لگتی ہیں‘ ان منڈیوں میں ملک کے ہر شہراور گائوں سے جانور لائے جاتے ہیں‘ اگر اس بار بھی یہ منڈیاں ماضی کی طرح لگائی گئیں تو ایس او پیز پر عمل کروانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا اور کورونا ملک بھر میں تباہی مچا دے گا۔ اس سے پہلے کہ عوام کا رخ منڈیوں کی جانب ہو ‘ جو کاروباری حضرات عیدالاضحی کے موقع پر جانور فروخت کرتے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ متبادل طریقے استعمال کرتے ہوئے عوام کو اپنی جانب راغب کریں اور حکومت بھی ایسی صورتِ حال میں منڈیاں لگانے کی اجازت دینے کی بجائے مویشیوں کی خریدوفروخت کے دیگر طریقوں پر غور کرے۔ اسامہ فاروق ایک عام شہری ہے‘ جو اس نازک ترین صورت ِ حال میں اپنا کاروبار جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ کورونا جیسی موذی وبا کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے حوالے سے سوچ بچار کرنے کے ساتھ عملی طور پر بھی کام کررہا ہے۔ اس کی بات چیت سے جو پہلا نکتہ میری سمجھ آیا‘ وہ یہ تھا کہ ہمارے عوام قطعی طور پر ''جاہل‘‘ نہیں اور کوروناوائرس سے بچائو کے حوالے سے ان وزرا سے زیادہ حساس ہیں۔ صورت ِ حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے سوسائٹی کی تمام اکائیوں کے ساتھ مشاورت سے عید الاضحی کے حوالے سے حکمت ِعملی مرتب نہ کی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں‘ جس کا ایک تجربہ ہم عیدالفطر کے موقع پر کرچکے ہیں۔ اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ عیدالفطر سے قبل 4لاکھ 73ہزار 603کورونا کے ٹیسٹ کیے گئے ‘جن میں سے 54ہزار 601 کیسز سامنے آئے تھے اور 1133اموات رپورٹ ہوئی تھیں‘یعنی ان دنوں میںروزانہ 12فیصد کیسز رپورٹ ہو رہے تھے اور 13 افراد ہر روز کورونا کی بھینٹ چڑھ رہے تھے ۔ یہ اعدادوشمار عید سے قبل 88دنوں کے ہیں۔اب‘ ذرا غور کیجئے عید کے بعد کی صورت ِ حال پر جس میں قومی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے نرمی‘ لچک اور عوام کی لاپروائی نے کورونا کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کیا۔ عید کے بعد صرف 24دنوں میں 4لاکھ 79ہزار581ٹیسٹ ہوئے ہیں ‘جن میں سے ایک لاکھ 159کورونا کے مریض سامنے آئے ہیں اور ایک ہزار 842افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں‘ یعنی کیسز رپورٹ ہونے کی شرح 21فیصد تک پہنچ گئی اور روزانہ اموات کی تعداد 77تک جاپہنچی ہے۔ 
اب‘ قومی و صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو کوس رہی ہیں اور ذمہ دار قرار دے رہی ہیں۔ عوام حکومت کو اور حکومت عوام کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔‘ نیز جیسے جیسے عیدالاضحی قریب آرہی ہے‘ باشعور طبقے کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ ماضی کی روایت رہی ہے کہ اس تہوار پر ملک بھر میں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں مویشی منڈیاں لگائی جاتی ہیں ۔ کراچی ‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور جڑواں شہروں میں لگنے والی مویشی منڈیاں خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ ان مویشی منڈیوں میں ملک بھر سے تقریباً 3کروڑ جانور لائے جاتے ہیں اور جانوروں کی خریداری کے لیے کروڑوں افراد ان مویشی منڈیوں کے چکر لگاتے ہیں۔یہ منڈیاں خریداروں کے ساتھ ساتھ صرف تفریح کے لیے آنے والے منچلے نوجوانوں کا بھی مرکز بنی رہتی ہیں‘پھر ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے‘ جو ''مع اہل و عیال‘‘ دیدار مویشیاں کے لیے مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں بچے بھی جانوروں سے اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ماضی میں ہمارا معمول رہا ہے اور اس مذہبی تہوار کا ایک حسن بھی ہے ‘جس سے انکار ممکن نہیں‘ مگر جب حالات خطرناک ہوں ‘ دنیا موذی وبا کی لپیٹ میں ہو‘ ملک بھر میں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہو‘ ہر روز جنازے پڑھائے جارہے ہوں اور قبرستانوں کی حدود میں روز بروز اضافہ ہورہا ہو‘ ایسے وقت میں عیدالاضحی کا تہوار ماضی کے برعکس خصوصی احتیاط کا متقاضی ہے‘ اگر اس دفعہ بھی یہی عمل جاری رکھا گیا تو ملک کے مختلف حصوں سے تاجروں اور جانوروں کے بڑے شہروں کی جانب سفر سے موذی کورونا وبا کس خطرناک تیزی سے پھیل سکتی ہے ؟اس کا تصور بھی محال ہے۔
ایک ایسا ملک کہ جہاں نظام صحت انتہائی کمزور ہے‘ جب کورونا کے مریضوں کے تعداد چند ہزار ہوئی تو تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں نے مریضوں کے لیے جگہ نہ ہونے کے پیغامات جاری کردیے تھے‘ یہاں کسی بھی قسم کی لاپروائی اور بے احتیاطی انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔(جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں