وفاقی اور صوبائی حکومتیں جس طرح کے بیانا ت دے رہی ہیں اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ انہیں عیدالاضحی کے موقع پر کورونا کے پھیلائو اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہے‘ مگر جس طرح کورونا کی وبا سے نمٹنے میں غفلت برتی گئی ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے حکومتوں کے دعوؤں پر یقین کرنا خاصا مشکل ہے۔ ملک بھر میں عیدالاضحی کے موقع پر مویشی منڈیاں لگائے جانے کے حوالے سے جو حکومتی اقدامات سامنے آرہے ہیں وہ خاصے مایوس کن ہیں۔ جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق جیسے حکومت نے لاک ڈائون لگاتے وقت کچھ علاقوں میں پابندیاں لگائیں اور کچھ علاقوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا بالکل اسی طرز پر کچھ شہروں میں منڈیاں نہ لگانے اور کچھ شہروں میں لگانے کی اجازت دی ہے۔ راولپنڈی میں ایک بڑی مویشی منڈی لگائی جاتی تھی جس کی اس دفعہ ضلعی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اور ایک بڑی مویشی منڈی کے بجائے مختلف مقامات پر چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگانے کی ہدایات کی ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو یہ ہدایات زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگائے جانے کی صورت میں ان منڈیوں میں بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا تقریباً ناممکن ہوگا۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو محکمہ بلدیات سندھ کا اقدام نہ صرف قابل ستائش بلکہ قابلِ عمل بھی ہے ۔جب محکمہ داخلہ سندھ نے دوجون کو مویشی منڈیاں لگانے کی اجازت دینے کیلئے محکمہ بلدیات کو خط لکھا تو ابتدائی طور پر محکمہ بلدیات نے منڈیاں لگانے کی اجازت دیدی‘ مگر 14جون کو کورونا کیسز کے پھیلائو میں خطرناک حد تک اضافے کی بنیادپر منڈیاں لگانے کا اجازت نامہ منسوخ کردیا اور مویشی منڈیاں لگانے پر پابندی عائد کردی۔بظاہروفاقی حکومت کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ مویشی منڈیاں لگانے اور عیدالاضحی کو محفوظ طریقے سے گزارنے کیلئے حکمت عملی تیار کررہے ہیں ‘ اب حکومت یہ حکمت عملی کب تک تیار کرتی ہے اور اس پر عملدرآمد کرانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے؟ اس کے حوالے سے عام آدمی حکومت کے کورونا سے نمٹنے کے طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے شش وپنج کا شکار ہے۔
ہمارے ملک میں چونکہ عوام منبر سے کہی گئی بات کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اس لیے پاکستان علماء کونسل اور دارالافتاء پاکستان کی ان ہدایات کو عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے جس میں قابلِ احترام علماء نے عیدا لاضحی کے حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں۔ علماء کا کہنا ہے کہ قربانی ہر شخص پر واجب ہے اور اسے ہر صورت ادا کرنا ہوتی ہے‘ لیکن نفلی حج اور قربانی والے افراد اپنے پیسے غربا‘ مساکین اور مستحقین میں بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔ علماء نے حکومت کوبھی تجویز دی ہے کہ قربانی کرنے والے افراد کے لیے جانوروں کا انتظام کرے اور مویشی منڈیوں پر پابندی کی صورت میں عوام کے لیے متبادل انتظام کرے۔ ایسی صورتحال میں عیدالفطر پر برتی گئی غفلت اور اس کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے عید الاضحیٰ کے موقع پر ہمیں ہر ممکن احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اگر عوام کی جانب سے کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو حکومت کو ہر صورت میں سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے ایس او پیز پر عمل کرانا ہوگا۔ ایسی وبا جس نے حج جیسے فریضے کی ادائیگی کے حوالے سے مشکلات کھڑی کردی ہیں ‘ اس سے بچنے کیلئے فریضہ قربانی کی ادائیگی کو محدود اور محفوظ بنانا ہوگا۔ اس بار حکومت کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنی رِٹ قائم کرسکتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ تمام مکاتب ِفکر کے علماء کرام سے مشاورت کرے‘ وزارت مذہبی امور کو سامنے لائے ‘ سب سے پہلے تو اس نکتے پر جید علمائے کرام سے رائے اور اگر ضروری ہو تو فتاویٰ بھی لیے جانے چاہئیں کہ ایسے موقع پر جب پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان کورونا جیسی وبا کی لپیٹ میں ہے ‘ قربانی کے حوالے سے کیا حکم صادر ہوتا ہے؟ ایسی صورتحال میں جب انسانی جان کے ضیاع کا خدشہ ہو قربانی کے فریضے کی ادائیگی کیلئے کیا طریقہ کار استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اور اس فریضے کی ادائیگی کیلئے شرعی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ایس او پیز مرتب کیے جاسکتے ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ماضی کی طرح کھلے عام مویشی منڈیاں لگانے کے عمل کی بھی اس بار حوصلہ شکنی کرنی چاہیے‘ بلکہ ہر ممکن حد تک اسے مکمل طور پر روکنے یا محدود اور محفوظ بنانے پر غورکرنا چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت جانوروں کی خریدوفروخت کیلئے باقاعدہ قواعد و ضوابط طے کرکے آن لائن مویشی منڈیوں کو فروغ دے سکتی ہے ۔ پھر جانوروں کو قربان کیلئے بھی اجتماعی قربانی کے طریقہ کار کو اپنایا جاسکتا ہے۔ صوبائی سطح پر شہروں کی رہائشی سوسائٹیز سے رابطہ کرکے رہائشی علاقوں کے قریب کھلے میدانوں میں جانور رکھنے اور قربانی کا انتظام کیاجاسکتا ہے۔ ملک بھر میں نیٹ ورک رکھنے والی مذہبی اور غیر سرکاری تنظیموں کو اس عمل میں شامل کرکے فریضہ قربانی کی ادائیگی کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سرکاری مذبح خانوں کو بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مختلف کمپنیاں جو گوشت کی فروخت کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتی ہیں اور عیدالاضحی کے موقع پر اپنے طور پر جانوروصول کرکے قربان کرنے کے بعد گوشت کی ترسیل کے حوالے سے مختلف پیکیجز کا اعلان کرتی ہیں‘ ان سے حکومت کو رابطہ کرکے مربوط حکمت عملی بنا لینی چاہیے۔ خلاصہ بس اتنا ہے کہ اگر اس بار بھی احتیاط کا دامن نہ تھاما گیا اور جانوروں کی قربانی کیلئے منڈیاں لگانے اور منڈیوں سے خریداری کے عمومی طریقہ کار کو اپنایا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ اس کے بعد ہونے والا انسانی جانوں کا ضیاع ہمیں پچھتانے کا موقع بھی نہ دے۔ اللہ رب العزت نیتوں پر اجر دیتا ہے اور انسانی جان کی حرمت کا کسی سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔(ختم)