''اللہ کرے آئندہ کسی ماں کی کوکھ سے نریندر مودی اور امیت شا جنم نہ لیں‘‘۔ یہ الفاظ ایک کشمیری ماں کے ہیں جو اپنے جواں سال بیٹے کی لاش کے سرہانے بین کر رہی تھی۔ اس نے ایک نوجوان لڑکی کو اپنے ساتھ چمٹایا ہوا تھا جو اس کی بہو تھی۔ اس کے شہید بیٹے عثمان بھٹ کو 11 دسمبر 2019ء کو بھارتی فوج نے اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا اور 16 مئی 2020ء کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کر دیا۔ گرفتاری سے محض ایک ماہ قبل عثمان کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی منکوحہ جو اس کی رہائی کی منتظر تھی‘ اب ایک طویل انتظار کی قیدی بن گئی ہے۔ مائوں کے بین اور بہنوں کی آہ و پکار اب ہر کشمیری گھرانے کی کہانی بن چکی ہے۔ شادی کے وقت سرخ جوڑے میں آنے والی دوشیزائیں تیزی سے بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ رہی ہیں اور یہی کشمیر کا نوحہ ہے۔
ویسے تو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا تسلط گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے اور اس تسلط سے آزادی کے لیے ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں مگر گزشتہ سال جیسے ہی نریندر مودی کو دوسری بار اقتدار ملا تو ایسا محسوس ہوا کہ مودی کشمیر یو ںکو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کی منسوخی کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی فوج کے حوالے کرکے ایک عقوبت خانے میں بدل دیا گیا۔ انگریز استعمار کے خاتمے کے بعد سے اتنی بڑی تعداد میں بھارتی فوج کشمیر میں قتل و غارت گری کے لیے ہی تعینات تھی۔ تاریخ ایسی کوئی بھی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
گو کہ پہلے بھی بھارتی فوج کے روپ میں 7 لاکھ سے زائد درندے کشمیریوں کو بھنبھوڑ رہے تھے مگر مودی حکومت کی تسکین نہیں ہو رہی تھی اس لیے ان کی تعداد بڑھا کر 10 لاکھ کردی گئی۔ مقبوضہ وادی کو چیختی روحوں کا مسکن بنا دیا گیا۔ یہ چیخیں دنیا نہ سن لے‘ اس لیے مواصلاتی نظام بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو ایسی اندھیر نگری مچی کہ الامان والحفیظ۔ان مظالم کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے نکلنے والے نوجوانوں کو لاشوں میں تبدیل کرنے کی روایت بڑھتی چلی گئی۔ 21ہزار نوجوانوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں منتقل کردیا گیا۔ سری نگر کی تہاڑ جیل میں حریت کانفرنس کے بزرگ بیڑیوں میں جکڑدیے گئے۔ کشمیری طلبہ کو مزاحمت کی راہ سے ہٹانے کے لیے ان کے خوبصورت چہروں کو ہدف بنایا گیا۔ اقوام عالم میں ممنوع قرار دیے گئے ہتھیار‘ پیلٹ گنز کے استعمال سے چہرے مسخ کردیے گئے ۔ بھارتی فوجیوں نے اپنی ''طاقت‘‘ کا مظاہرہ جن افراد پر کیا ان میں 6سال کے معصوم و بے قصور بچوں سے لے کر 7ماہ کے شیر خوار بچے تک شامل ہیں، جنہیں پیلٹ گنز سے نشانہ بنا کر ان کی بینائی چھین لی گئی۔ ان ہتھکنڈوں سے سینکڑوں کشمیری طلبہ کی بصارت تو زائل ہو گئی مگر ان کی بصیرت اور جذبہ حریت کو کمزور کرنے کی سبھی سازشیں ناکام رہیں۔ غرض یہ کہ پوری وادی آج ایک مقتل گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے ۔
اب یہاں رنگِ بہاراں ہے جوانوں کا لہو
سرخ رو ہیں وادیٔ کشمیر میں کوہ و دمن
دوسری طرف عفت مآب بہنوں، بیٹیوں کی عزتوں پر حملے جاری ہیں، کبھی محاصرے کے دوران تو کبھی تفتیش کے لیے گرفتار ی کے نام پر۔ بی جے پی کے بے لگام وزرا اور رہنمائوں کی بھارتی میڈیا پر کھلے عام کشمیری خواتین کے ساتھ زیادتی کی ترغیب کے نتائج یہ نکلے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین چار دیواری میں بھی غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ آر ایس ایس کے 18 ہزار غنڈوں کو ڈومیسائل کے اجرا کے بعد مقبوضہ کشمیر کے جن علاقوں میں بسایا گیا ہے وہاں ایسے انسانیت سوز واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ 8 ماہ قیامت کے گزرے کہ 37 کشمیری شہزادیوں کو اغواء کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سات سالہ پھول سی ننھی کلی بھی شامل تھی۔ پھر خواتین کے حوالے سے سب سے بھیانک صورتِ حال نوجوان خواتین کا بیوہ ہونا ہے جن کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
سر برہنہ بیٹیوں کے پیرہن بکھرے ہوئے
مرثیہ خواں ہر در و دیوار پر مرغِ چمن
موسمِ گل زرد پتوں کی ردا پہنے ہوئے
ڈھونڈتا ہے دخترِ گلِ مرگ کا عہدِ شباب
جب ان مظالم سے بھی کشمیریوں کی مزاحمت کو کچلا نہ جا سکا تو مودی حکومت نے اگلا وار کشمیریوں کی معیشت پر کیا۔ کھیت کھلیان تباہ کرکے کشمیریوں پر بھوک مسلط کر دی گئی۔ وہ جو میوہ جات سے لدے باغات کشمیر کی پہچان تھے‘ اجاڑ دیے گئے اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جو کاشتکار اپنی فصل برآمد کرتے تھے‘ انہیں کھانے کے بھی لالے پڑ گئے۔ وہ گھرانے جن کے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے رہتے تھے اب ہاکھ (سبز پتے) اور چاولوں پر گزارا کر رہے ہیں۔ اس وادی کے کوہ و دمن کو ہندتوا کا ایسا آسیب چمٹا کہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی سیاحت کی صنعت دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ 40ہزار کروڑ کا نقصان کشمیری معیشت کے لیے کسی زلزلے سے کم نہ تھا۔ یہ داستانِ خونچکاں یہیں پر ختم نہیں ہوتی، جعلی مقابلوں اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کا الزام لگا کر درجنوں گھروں کو ایک ساتھ بارود سے اڑا دینا مقبوضہ وادی میں ایک معمول بن گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہستی بستی بستیاں قبرستانوں کا منظر پیش کرنے لگی ہیں۔ عقوبت خانہ بنی اسی وادی کی صورتِ حال نے ان پتھر دلوں کو بھی موم بنا دیا جو بھارتی سیکولرازم کی مالا جپتے نہ تھکتے تھے۔ یہ حالات دیکھ کر بھارت نواز کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی زنداں سے پکار اٹھی ہیں کہ ''بھارت کے ساتھ الحاق غلطی تھی‘‘۔
المیہ تو یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر سراپا ناسور بنی اپنا نوحہ بیان کر رہی ہے مگر جو عالمی منصف ہیں وہ اندھے‘ گونگے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں۔ انہیں نہ تو کشمیری نوجوانوں کا لہو نظر آتا ہے اور نہ ہی کشمیری بچوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ نہ وہ کشمیری بہنوں کی آہیں سنتے ہیں اور نہ ہی کشمیری مائوں کے بین۔ ہاں! اعتراض ضرور کرتے ہیں کہ کشمیر سے ٹھیک اعداد و شمار سامنے نہیں آ رہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ اعداد و شمار تو ان کے شمار ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال ہو۔
اس ساری خوفناک اور مایوس کن صورتِ حال میں بس ایک شے ہی مثبت ہے اور وہ ہے تین سالہ عیاد جہانگیر کا عزم! جب اس کے نانا کو بھارتی درندوں نے کار سے گھسیٹ کر نکالا اور گولیاں مار دیں تو ننھا عیاد اپنے نانا کی لاش پر بیٹھ گیا‘ پھر جب تھوڑا سا سنبھلا تو پتھر اٹھا کر قریب موجود بھارتی فوجی کی جانب لپکا۔ عیاد جہانگیر کو یہ ہمت و جذبہ اپنے بڑوں سے ملا ہے۔ بھارت کے تمام ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود ہر کشمیری عیاد جہانگیر کی طرح بلند عزم و ہمت نظر آ رہا ہے جو پتھر اٹھا کر بھارتی فوج پر لپک رہا ہے۔ اب مودی کے مقابل عیاد جہانگیر کا عزم ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ فتح ہمیشہ عزم کی ہی ہوئی ہے۔
ہزار برق گرے‘ لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں