"FBC" (space) message & send to 7575

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر…

''منطق ایک قدیم سائنسی علم ہے جس کا بانی ارسطو کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس علم کے جاننے والے کی سوچ کا انداز عام لوگوں سے یکسر مختلف اور نکھرا ہوا ہوتاہے۔ منطق کا تعلق غوروفکر سے ہے‘ فکر کو غلطی سے بچانے کیلئے قوانین کا مطالعہ کرکے کسی بھی دلیل یا استدلال کو قوانین پر پرکھا جاتا ہے تاکہ اسے بہ آسانی سمجھا اور سمجھایا جا سکے۔ اسی باعث ایک صحافی کیلئے اس علم کا حصول لازم ہونا چاہئے‘‘۔ استاد محترم نصیحت فرما رہے تھے اور ان کی ہر نصیحت کو ہم ہمیشہ حکم کا درجہ دیتے ہوئے اس کی تعمیل میں مگن ہو جاتے تھے۔ اس بار کچھ عجیب ہوا، استاد محترم کی نصیحت کے بعد ذہن انتشار کا شکار ہو گیا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسے دور میں‘ جب حکومتی شخصیات کے مدار کے گرد گھومنے والے صحافی ان کے بیانات کو ہی ''کل صحافت‘‘ سمجھ لیں تو‘ کسی منطقی علم کے حصول کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ جب ہم حکومتی وزرا، مشیروں اور معاونین کی گفتگو سنتے ہیں یا کسی بھی ایشو پر ان کا استدلال جانتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سوچ و فکر میں نکھار تو درکنار‘ سرے سے کسی منطق یا منطقی قوانین کے بھی قائل نہیں۔ ایسی ''فکری‘‘ گفتگو فرمائی جاتی ہے اور کیا کمال ''دلائل‘‘ دیے جاتے ہیں کہ ہم جیسے کم علموں کے اس مقام پر پَر جلتے ہیں۔
''ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ان کے نرخوں میں اضافہ‘‘، اب ذرا علم منطق کے ماہرین رہنمائی فرمائیں کہ یہ دلیل غور و فکر کے کس قانون پر پورا اترتی ہے۔ پھر یہ کہنا کہ ''سمگل شدہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے ادویات کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا ہے‘‘، ایسی آفاقی توجیہہ کو کس قانون کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے؟ یقین مانیں! میں استاد محترم کی نصیحت کے بعد علم منطق کا طالبعلم ضرور بننا چاہوں گا مگر کوئی یہ تو سمجھائے کہ جو ماورائے عقل توضیحات، جواز، استدلال اور دلائل حکومتی زعما سامنے لاتے ہیں انہیں سمجھنے کے لیے کس علم میں مہارت حاصل کی جائے؟ایسے نایاب ''علمی و فکری شاہکار‘‘ گھڑنے کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ نئے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی یہ شروع ہو گیا تھا۔ اگر صرف ادویات کو ہی لیا جائے تو ماہرین کے مطابق اب تک ادویات کی قیمتوں میں عِلانیہ و غیر عِلانیہ آٹھ بار اضافہ کر کے ادویات کی قیمتوں کو تقریباً 600 فیصد بڑھایا جا چکا ہے اور ہر بار ایسے ایسے جواز تراشے گئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔
جب پہلی بار ادویات کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن 24 دسمبر 2018ء کو جاری کیا گیا تو اس کا ''نوٹس‘‘ لے لیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محض سات روز بعد 10 جنوری 2019ء کو ایک اور نوٹیفکیشن کے ذریعے مزید اضافہ کر دیا گیا۔ یہ بھی عجیب منطق رہی کہ پہلے اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے اور پھر اس کا نوٹس لیا جاتا ہے۔ دوسری بار اضافے پر نیب نے نوٹس لیا اور ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم نے خود نوٹس لیا اور 72 گھنٹوں میں اضافہ واپس لینے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر عمل تو خیر کیا ہونا تھا لیکن اس کے بعد پھر تو جیسے رِیت چل پڑی ہو، ہر دو‘ چار ماہ بعد اضافے کا سلسلہ چل نکلا‘ جو تاحال جاری ہے۔ ہر بار اضافے کی بعید از قیاس وجوہات بتائی گئیں۔ سمجھ میں تو یہ بھی نہ آ سکا کہ ادویہ ساز کمپنیوں اور ادویات کے نرخ قابو میں رکھنے کی ذمہ دارریگولیٹری اتھارٹی کا کیا کردار ہے۔ اگر ڈریپ قیمتوں قابو میں نہیں رکھ سکتی تو خود اس کا وجود برقرار رکھنے کے پیچھے کیا منطق ہے؟ کیا ڈریپ کا کام اتنا ہی ہے کہ جب یہ ادویہ ساز کمپنیاں قیمت بڑھا چکی ہوں تو ڈریپ ایک خط کے ذریعے ان سے قیمتیں مانگے اور پھر باقاعدہ طور پر انہیں مقرر کر دے؟ 
حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت نے گزشتہ دور میں منظور شدہ ڈرگ پالیسی 2018ء میں جولائی 2020ء کو ترمیم کی تھی اور اس ترمیم کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس کے ذریعے ادویہ ساز کمپنیوں کو من مانے اضافے سے روکا جائے گا، مگر یہ ترمیم ایسی دو دھاری تلوار ثابت ہوئی جو جس سمت بھی لہرائے‘ پڑتی عوام کی گردن پر ہی ہے۔ اب کمپنیاں اپنے طور پر بھی قیمتیں بڑھا رہی ہیں اور ڈریپ کے ذریعے بھی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ المیہ اور کیا ہو گا کہ آلو، ٹینڈے، بھنڈی کے تو نرخ مقرر کیے جائیں مگر جان بچانے والی ادویات کے نرخوں کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ چند ادویہ ساز کمپنیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جائے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مافیاز سے نمٹنے کے دعوے کے ساتھ ایوانِ اقتدار میں آنے والے مافیاز کے ہاتھوں کھلونا بن گئے ہیں۔ جب ''آٹے کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے‘‘ گندم و آٹا مہنگا کرکے آٹا مافیا کو نوازا گیا تب بھی وزرا ایسی ہی توجیہات بڑے فکری انداز میں گھڑ رہے تھے۔ ''چینی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے‘‘ اس کے نرخ 86 روپے کلو کے بلند ترین سطح پر پہنچا ئے گئے تو مشیران کچھ اس طرح کے دلائل دیتے پائے گئے کہ مافیا کے خلاف کارروائی کے بعد چینی کی قیمت کم ہو جائے گی مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نہ تو مافیا کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکی اور نہ ہی چینی کی قیمتوں میں کمی آئی بلکہ یہ مزید بڑھ کر سو کا ہندسہ بھی عبور کر گئیں۔ 
باری آئی پٹرول کی، اقتدار سے پہلے لمبی چوڑی جمع تفریق کرکے سمجھایا جاتا تھا کہ پٹرول پر ٹیکسز زیادہ لیے جاتے ہیں‘ اس لیے اس کے نرخ زیادہ ہیں مگر اب بھی پٹرول کی قیمتیں عوام کے دکھوں کی طرح بڑھتی چلی گئیں۔ عالمی سطح پر پٹرول کے نرخ انتہائی کم ہوئے تو یہاں بھی نرخوں میں کچھ کمی کی گئی‘ شومیٔ قسمت کہ جب تک پٹرول سستا رہا‘ عوام پٹرول کی بوند بوند کو ترس گئے، پھر یہی دستیابی والی منطق ایک بار پھر آزمائی گئی اور ''پٹرول کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے‘‘ یکایک نرخوں میں 25 روپے لیٹر کا ریکارڈ اضافہ کرکے پٹرول مافیا کو راضی کر لیا گیا۔ پھر کیا تھا، چند منٹوں میں ہر پمپ پر پٹرول وافر مقدار میں دستیاب ہو گیا۔ مافیاز سے ایسے انوکھے انداز سے نمٹنے کا یہ طریقہ یقینا کسی دوسرے ملک میں نہیں ملے گا۔ 
اس مافیا کی مضبوطی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایسے دور میں‘ جب معیشت پر جمود طاری ہے، صنعتوں کا پہیہ چلنے کا نام نہیں لے رہا‘ پاکستان میں ادویہ ساز کمپنیوں کا گروتھ ریٹ 15 فیصد سالانہ ہے جبکہ اس کا حجم 3 بلین ڈالر ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 1 فیصد ہے۔ اگرچہ سخت ترین کاروباری صورت حال کے باوجود ادویہ سازی ایسا شعبہ ہے‘ جو بدستور منافع میں جا رہا ہے مگر پھر بھی حکومت نے یہی بہتر سمجھا کہ ادویات کے نرخوں میں 9 سے 262 فیصد تک اضافہ کرکے ان کمپنیوں کو مزید فائدہ پہنچایا جائے۔ جب یہ عوام کش فیصلہ کر لیا گیا تو پھر اس کی منطق یہ دی گئی کہ سمگل شدہ ادویات چونکہ انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں‘ اس لیے نرخوں میں اضافے کے ذریعے سمگل شدہ ادویات کی قیمتوں کو قابو میں کرنے اور ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب حکومت اس طرز پر چلائی جا رہی ہو اور وزرا، مشیران اور معاونین ایسی ایسی نرالی منطقیں پیش کر رہے ہوں تو کسی صحافی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ علم منطق میں دلچسپی لے، جو منطق حکومت کی جانب سے دی جاتی ہے ان کو سمجھنے کے لیے ارسطو خود بھی ہوتا تو فیل ہو جاتا۔ اب اس استدلال کو علم منطق کے کسی قانون پر پرکھ کر دکھائیں۔ خیر ہم تو صحافی ہیں، ہمیں تو مثبت سوچنے اور مثبت خبر دینے کا کام سونپا گیا ہے‘ اس لیے بقول جون ایلیا ؎
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں