"FBC" (space) message & send to 7575

میرے لیے تو یہ سانحہ بھی نیا نہیں تھا

''قیامت صغریٰ کا منظر لگتا تھا، ہر کوئی بھاگ رہا تھا، چیخ رہا تھا، چلّا رہا تھا۔ سب اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے سرگرداں تھے۔ جب مجھے اطلاع ملی اور ہاسٹل سے ہم چند دوست ہسپتال پہنچے تو ہر کسی کو نفسانفسی کے عالم میں دیکھا۔ لوگ اپنے پیاروں کی سانسیں مدہم ہوتی دیکھ کر آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ مجھے علم تھا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ڈی جی ہیلتھ کی جانب سے دیے گئے 100 ایمرجنسی سلنڈرز موجود ہیں جو اس وقت ہسپتال کی ایمرجنسی سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں اور عملے کے افراد کو ساتھ ملایا، فوری طور پر وہ سلنڈر لے کر آئے۔ جب مریضوں کو وہ سلنڈر لگانے شروع کیے تو پتا چلا کہ بیشتر سلنڈرز ایسے تھے جن پر گیج موجود نہیں تھے۔ جیسے ہی اس بات کا علم مریضوں کے تیمارداروں کو ہوا تو وہ گیج والے سلنڈر کے حصول کے لیے آپس میں دست و گریباں ہو گئے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت تک مزید ڈاکٹرز پہنچ چکے تھے۔ ڈاکٹرز نے صورتحال کو سنبھالا۔ کئی مریضوں کو ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا کیونکہ ایمرجنسی وارڈ میں آکسیجن کی فراہمی کا سسٹم علیحدہ ہے۔ اسی طرح کئی مریضوں کو سلنڈر کے ذریعے آکسیجن کی فراہمی شروع کی اور جن مریضوں کو سلنڈرز نہ مل سکے انھیں ایمبو بیگ کے ذریعے ڈاکٹرز آکسیجن دیتے رہے تاوقتیکہ آکسیجن کی باقاعدہ فراہمی کا انتظام نہیں ہوگیا۔ کچھ مریض ایسے بھی تھے جن کو ایمبولینس گاڑیوں میں منتقل کیا گیا اور گاڑیوں میں موجود سلنڈرز کے ذریعے آکسیجن فراہم کی گئی۔ غرضیکہ جس مریض کو جہاں سے آکسیجن مل سکتی تھی‘ اسے وہاں پہنچانے کی کوشش کی گئی‘‘۔
مجھے یہ تفصیلات ڈاکٹر ساجد نے بتائیں جو اس وقت خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ایک ہیرو کی نظر سے دیکھے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ساجد چند ماہ قبل اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کورونا کا شکار ہوگئے تھے؛ تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ وینٹی لیٹر سے واپس زندگی کی جانب پلٹ آئے۔ جس روز خیبر ہسپتال میں آکسیجن کی فراہمی منقطع ہوئی اس وقت ڈاکٹر ساجد ہسپتال کے ہاسٹل میں‘ اپنے کمرے میں موجود تھے۔ اطلاع ملتے ہی اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ جب وہ ہسپتال پہنچے تو آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے مریض آخری سانسیں لے رہے تھے۔ ان کے تیماردار آکسیجن کے حصول کے لیے ہسپتال کو تہس نہس کردینے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ساجد اور ان کے ساتھی بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کیے‘ کورونا آئسولیشن وارڈ میں گھس گئے اور کئی مریضوں کے لیے زندگی کی نوید بن گئے۔ اللہ ان ڈاکٹروں کا بھلا کرے ورنہ ہسپتال انتظامیہ نے تو درجنوں مریضوں کی جان لینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے کا مسئلہ اچانک نہیں ہوا بلکہ کئی مہینے سے جاری تھا۔ جس دن یہ سانحہ پیش آیا اس روز بھی رات 11 بجے سے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے ہسپتال انتظامیہ کو آکسیجن کی فراہمی میں کمی کے حوالے سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا؛ تاہم منیجر کی جانب سے مسلسل کہا جا رہا تھا کہ ایسا کوئی ایشو نہیں ہے۔ پھر تقریباً 11:40 پر جب یہ مسئلہ ہوا تو صرف 12 منٹ میں 6 مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 4 مریض ایسے بھی ہیں جو کورونا آئسولیشن وارڈ میں تھے مگر جب یہ صورتحال پیدا ہوئی تو اس کے بعد وہ لاپتا ہوگئے اوراب انھیں مِسنگ قرار دیا جا رہا ہے۔
اب کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال ملک کے بہترین ہسپتالوں میں سے تھا مگر پھر خیبر پختونخوا میں تبدیلی آ گئی‘ ہسپتال کو ''جدید ترین‘‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے وزیراعظم کے موجودہ معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کو خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین بنا دیا گیا تھا۔ یہ انہی محترم ڈاکٹر کا دورِ عالیشان تھا جب فروری 2015ء میں اس ہسپتال میں آکسیجن کی فراہمی کا معاہدہ کیا گیا تھا جو جون 2017ء میں ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہسپتال کے ماہرین نے شاید یہ سوچا کہ آکسیجن اتنی ضروری چیز نہیں ہے‘ اس لیے آکسیجن کے حصول کا کوئی نیا معاہدہ کیا ہی نہیں گیا۔ ہاں! ان ماہرین نے اتنا احسان ضرور کیا کہ ٹیلی فون پر آکسیجن منگوانا شروع کر دی۔ بالکل ایسے ہی جیسے ملک کے کروڑوں عوام چولہا جلانے کے فون کال کے ذریعے گیس سلنڈر کا انتظام کرتے ہیں۔ آکسیجن فراہمی کا یہ ''ٹیلی فونک معاہدہ‘‘ بھی جون 2020ء میں ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد تو بس چل چلائو ہی تھا۔ پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ آپریشن تھیٹر کو آکسیجن فراہم کرانے والا ہسپتال کا تکنیکی عملہ غیر تربیت یافتہ ہے جبکہ ہسپتال پر مسلط ماہرین نے ہیلتھ ٹیکنیکل میمورنڈم کی تجویز کے باوجود آکسیجن سٹوریج کا کوئی بیک اَپ سسٹم بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ہمیں ڈاکٹر فیصل سلطان کی صلاحیتوں میں کوئی شک نہیں‘ شوکت خانم ہسپتال کو ایک جدید ترین اور بہترین ہسپتال کا درجہ دلوا چکے ہیں، یقینی طور پر سرکاری ہسپتال میں ہی کوئی خامی ہو گی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں بھی نہ صرف جدید نہ بن سکا بلکہ اپنی پرانی حالت میں رہنے کے بجائے مزید بربادی کی جانب چلا گیا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان تو شاید اس ہسپتال کی مزید'' خدمت‘‘ کرتے مگر دسمبر 2018ء میں عدلیہ نے ہسپتال کے بورڈ آف گورنرزکو کام کرنے سے روک دیا مگر اس وقت تک تحریک انصاف خیبر پختونخوا سے ترقی کرکے وفاق تک پہنچ گئی تھی۔ اس لیے ایک نئے قانون کے ذریعے سابقہ بورڈ آف گورنرز کو ان کے چیئرمین سمیت ''ایکسٹینشن‘‘ دینے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی؛ تاہم عدلیہ نے مارچ 2020ء میں اس بورڈ آف گورنرز کو ہسپتال سے علیحدہ کر دیا۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں نصف درجن افراد کا آکسیجن نہ ملنے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے۔ جب سے نیا پاکستان بنا ہے عوام انہونی کے منتظر رہنے لگے ہیں۔ یہاں ٹرین میں درجنوں افراد زندہ جل جاتے ہیں‘ کوئی مستعفی نہیں ہوتا، جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب دن دہاڑے درجنوں لوگوں کے سامنے بچوں کو ان کے والدین سمیت گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور قاتل رہا ہو جاتے ہیں، موٹروے پر ماں کو معصوم بچوں کے سامنے بے آبرو کیا جاتا ہے اور حکومت قانون ہی نہیں بنا پاتی کہ ایسے مجرموں کے ساتھ کرنا کیا ہے، ایک گروہ اٹھ کر امراض قلب کے ادارے پر دھاوا بول دیتا ہے اور وہاں زیر علاج مریضوں کی سانسیں تک چھیننے کی کوشش کرتا ہے مگر کوئی ان کی گرفت تک نہیں کر پاتا، ماں باپ کا بچوں کو مار کر خود کشی کرنا یا غربت و بھوک کی وجہ سے بچوں کو نہر میں پھینک دینا تو اب جیسے معمول بن گیا ہے۔ غرضیکہ اس طرح کے درجنوں سانحات ہیں جو رونما ہو چکے ہیں۔ اللہ محفوظ رکھے کہ پتا نہیں کتنے منتظر ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی دل دہلا دینے والا سانحہ اس قوم کا منتظر ہوتا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی ذمہ داری لے، کسی کی رگِ حمیت پھڑکے اور وہ وہ استعفیٰ دینے کا اعلان کرے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نہ تو اس ملک میں کوئی نظام ہے اور نہ کوئی حاکم، نہ آئین ہے اور نہ قانون۔ بس چند افراد مسند اقتدار پر براجمان ہیں اور اسے حکومت کا نام دے دیا گیا ہے۔ کوئی ان کی گرفت نہیں کر سکتا، کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ آواز اٹھانے والا غدار قرار پاتا ہے۔ یہ صورتِ حال اگر برقرار رہتی ہے تو عوام کا نظام پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا اور ایسا ہونا بدقسمتی ہو گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں