"FBC" (space) message & send to 7575

سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں

وہ ایک دوسرے کو ایسے ایسے القابات سے ''نواز‘‘ رہے تھے کہ جس کی مثال شاید گلی کوچوں میں بھی نہ ملتی ہو۔ گتھم گتھا ہو کر مخالف کو پٹخنے کے لیے ساری توانیاں صرف کی جا رہی تھیں۔ یہ سارے مناظر ٹی وی سکرینوں پر براہِ راست دکھائے جا رہے تھے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں تھی بلکہ ملک کا سب سے معتبر ایوان تھا۔ یہ لوگ بھی عام نہیں تھے، وہ لوگ تھے جنہوں نے خود کو قوم کا مسیحا و رہنما ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ نہایت خوش اخلاقی اور خوش گفتاری سے عوام کو شیشے میں اتار کر ووٹ لیے تھے۔ عوام نے بھی انہیں اپنے ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی جس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے یہ افراد پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے میں عوامی نمائندگی کے حق دار قرار پائے تھے۔ انہوں نے عوام کو اس ادارے کے تقدس کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی تھی جس میں مثبت و تعمیری گفتگو کے ذریعے عوام کے مسائل کا قابلِ عمل حل تلاش کیا جاتا ہے۔
اکثر ایوان میں ایسی صورتِ حال پیدا کی جاتی ہے کہ سپیکر‘ جو ہائوس کے ''کسٹوڈین‘‘ ہوتے ہیں‘ کو سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں کارروائی چلانا پڑتی ہے۔ یہ صورتِ حال پیدا کرنے والے کوئی اور نہیں‘ جمہوریت کے دعویدار ہی ہیں۔ وہی دعویدار‘ جو انتخابی جلسوں میں پارلیمنٹ کی تقدیس اور اس کی بالادستی کے ترانے پڑھتے تھے‘ اب جمہوری نظام کے اس مرکز کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ واقعہ اس حوالے سے بھی یکتا ہے کہ ہماری پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکومتی بنچوں نے کورم پورا نہ ہونے کا جواز بنا کر ایوان کا بائیکاٹ کیا اور اپوزیشن اراکین کو ایوان میں تقاریر سے روکنے میں کامیاب رہے۔
ان اراکین کی قومی معاملات پر سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دھماچوکڑی اور ایک دوسرے کو بات کرنے سے روکنے کا عمل یومِ کشمیر سے ٹھیک ایک روز پہلے ہو رہا تھا۔ مقام افسوس ہے کہ چار فروری کوپارلیمنٹ میں یکجہتیٔ کشمیر کے حوالے سے قرارداد منظور کیے جانے کا امکان تھا مگر ایوان میں ہنگامے کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ ایوان کی کارروائی سے دنیا کے لیے یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے حکومتی و اپوزیشن اراکین عوامی مسائل تو رہے دور‘ قومی معاملات پر بھی یکسو نہیں ہیں۔ پھر افسوس صرف یہ نہیں کہ مسئلہ کشمیر پر ہماری پارلیمان کی جانب سے کوئی مشترکہ مؤقف اختیار کرکے بھارت کو قومی معاملات پر متحد ہونے کا پیغام نہیں دیا جا سکا، دکھ تو یہ بھی ہے کہ عوامی نمائندگی کے دعویداروں کو اس پر کوئی ندامت بھی نہیں۔ میری دانست میں اس ساری صورتِ حال کا الزام نہ تو محض حکومت کو دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس میں دونوں ہی برابر کے شریک ہیں۔ دنیا بھر میں قومی معاملات پر حکومت و اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں۔ واحد ہمارا ملک ہے جہاں قومی ایشوز پر ذاتی ایجنڈے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پتیلے خالی ہوں تو بجتے رہتے ہیں۔ حکومت و اپوزیشن اس وقت خالی پتیلوں کی مانند ہیں جنہوں نے نہ تو گزشتہ اڑھائی سال میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہے اور نہ ہی ان سے آئندہ کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔ حکومتی کابینہ جس دن سے وجود میں آئی ہے‘ صرف ایک ہی کلیے پر عمل پیرا ہے کہ اپنی ہر ناکامی سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈالتے جائو۔ اب یہ حکومتی کلیہ ایک ہیجان میں تبدیل ہو گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لاہور سے کچرا نہ اٹھا سکنے پر اپنی نااہلی تسلیم کرنے کے بجائے سابقہ حکومت کو ہی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ پارلیمنٹ‘ جہاں قانون سازی کے ساتھ ساتھ، عوامی مسائل کے حل کے لیے کسی مثبت و تعمیری گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہاں بھی حکومتی وزرا محض اپوزیشن اراکین پر ذاتی نوعیت کی تنقید کرتے پائے جاتے ہیں۔ ٹاک شوز ہوں یا پریس بریفنگز، عوامی و سوشل میڈیا فورمز ہوں یا سیمینارز، حکومتی اراکین کے پاس اپوزیشن رہنمائوں پر بات کرنے کے علاوہ اور کوئی موضوع ہی نہیں ہوتا۔
اپنے بیس سالہ صحافتی کیریئر میں یہ پہلی حکومت دیکھی ہے جس کے نمائندے ہر غیر ضروری موضوع پر پریس کانفرنسز کرتے پائے جاتے ہیں۔ پھر ان پریس کانفرنسز میں محض اپوزیشن شخصیات کو رگیدا جاتا ہے۔ اگر ان پریس کانفرنسز کے گزشتہ اڑھائی سال کے اعداد و شمار نکالے جائیں تو شاید یہ کثرتِ تعداد کے باعث گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے دو سال تک تو اپوزیشن کی ذمہ داری نبھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ خاموشی سے ''عقبی دروازوں‘‘ کا استعمال جاری رکھا۔ پھرجب یہ دروازے بند ہوئے تو انہیں یاد آیا کہ وہ تو اپوزیشن جماعتیں ہیں اور ان کا کام عوام کو درپیش مسائل پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا ہے۔ یہ ادراک ہونے کے بعدکچھ ہلچل شروع کی گئی، جلسے جلوس ہوئے مگر ان میں بھی موضوع عوامی مسائل نہیں بلکہ حکومت سے شخصی اختلافات تھے۔ اپوزیشن کی گیارہ پارٹیوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل پایا مگر اس اتحاد میں ہر کوئی اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، سو نتیجہ یہ نکلا کہ بھان متی کا یہ کنبہ اب اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ وہ جنہوں نے مشترکہ طور پر استعفے دینا تھے‘ اب اسمبلی میں بیٹھنے کے نت نئے دلائل سامنے لا رہے ہیں۔ استعفے کے دعوے ہوا ہو گئے، سینیٹ انتخابات کا بائیکاٹ اب انتخابات میں حصہ لینے تک پہنچ گیا ہے، راولپنڈی مارچ پہلے اسلام آباد مارچ ہوا‘ پھر مہنگائی مارچ میں بدل گیا۔ کوئی عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتا ہے تو کوئی استعفیٰ دینے کا خواہشمند ہے۔ غرض یہ اتحاد خود نہیں جانتا کہ اس کی حکمتِ عملی کیا ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔ ہاں! اس ساری سیاسی ہلچل میں اتنا ضرور ہوا کہ اپوزیشن میں تھوڑی سی زندگی کی رمق پیدا ہو گئی اور وہ عوام میں دکھائی دینے لگ گئی۔ اس کے لیے بھی اپوزیشن کو حکومت کی نالائقی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
بات معزز ایوان کا وقار مجروح ہونے کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ چار فروری کو پارلیمنٹ کی توہین کا یہ پہلا واقعہ نہیں جو من حیث القوم ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے، ایسے واقعات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں، عوام ان واقعات پر ماتم کرنے لگتے ہیں مگر جو اس سب کے ذمہ دار ہوتے ہیں‘ وہ ایسے ایوان سے باہر آتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا حکومت اور کیا اپوزیشن‘ کوئی بھی ایوان میں بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے پر تیار نہیں۔ فریقین میں موجود سینئر اور سمجھدار سیاستدانوں کو دیکھا جائے تو انہیں سیاسی ٹمپریچر کم کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ پارلیمنٹ میں عوامی مسائل کے حل کے لیے بحث ہو سکے، مگر یہ سینئر سیاستدان بھی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ اسمبلی میں شاہ محمود قریشی صاحب کا بیان ہو یا 'ایسا حشر کروں گا‘ کہنے والے شیخ صاحب‘ سب سیاسی حدت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
میں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان ریمارکس کہ ''ملک کو ایک منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے‘‘ کو حکومت اور اپوزیشن اراکین کے پارلیمنٹ میں روا رکھے جانے والے رویے سے ملا کر دیکھتا ہوں۔ عوام کو بھی اب دیکھنا چاہیے کہ جن کاندھوں پر وہ رہنمائی کا بوجھ ڈال رہے ہیں وہ اس قابل ہیں بھی یا نہیں۔
سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
آئنے چاروں طرف ہیں دیکھتا کوئی نہیں
سب کے سب ہیں اپنے اپنے دائرے کی قید میں
دائروں کی حد سے باہر سوچتا کوئی نہیں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں