جو لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ میں کس طرح کی شاعری کو درخورِ اعتنا سمجھتا ہوں وہ اپنی کتاب سوچ سمجھ کر ہی بھجواتے ہیں اور جو نہیں جانتے یا اس کا خیال نہیں رکھتے‘ وہ اپنے رسک پر ہی ایسا کرتے ہیں جبکہ میں کمزور اور بے جان شاعری کو حتی الامکان گول کر جاتا ہوں لیکن بعض اوقات یہ بتانا ضروری ہو جاتا ہے کہ بھائی‘ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ شاعری کہاں تک پہنچ چکی ہے اور آپ کہاں کھڑے ہیں۔ اس طرح کی شاعری کا نہ کوئی جواز ہے نہ ضرورت۔ اس وقت زیرِ نظر ماجد جہانگیر مرزا کا مجموعۂ کلام ''محبت‘ درد‘ تنہائی‘‘ ہے جس کے بارے میں موصوف نے بتایا ہے کہ یہ چند ماہ پہلے ہی شائع ہوا ہے جس پر بہت اچھا رسپانس ملا ہے اور وہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپوانے کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔
میں نے ایک جگہ لکھ رکھا ہے کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ صرف فسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس۔ چنانچہ جو شاعری درمیانے درجے کی ہو وہ بھی تھرڈ کلاس ہی شمار ہوتی ہے جبکہ زیر تبصرہ شاعری تو درمیانے درجے کی بھی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے شوقیہ شاعری کہا جا سکتا ہے۔ ملکِ عزیز میں ٹنوں کے حساب سے جو دھڑا دھڑ اور بے تکان شاعری تخلیق کی جا رہی ہے اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے تعزیرات پاکستان میں ایسی شاعری کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں ہے کیونکہ جس شاعری میں تازگی اور تاثیر نہ ہو‘ وہ شاعری کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہو سکتی جبکہ قاری کا شعر سے پہلا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ مقدور بھر لطفِ سخن بھی ارزانی کرے۔
شاعری نے اپنی جو نمائندہ غزل کتاب کے ٹائٹل پر چھاپ رکھی ہے اس کے مطلع کا مصرعہ اولیٰ یہ ہے ع
دلِ ناداں یقیں کر لے محبت اب نہیں ہوگی
جو ظاہر ہے کہ منیر نیازی کی نظم ''محبت اب نہیں ہوگی‘‘ کا ایک بھونڈا چربہ ہے۔ موصوف نے ٹائٹل پر بھی اپنی رنگین تصویر چھپوا رکھی ہے اور پسٍِ سرورق بھی‘ حالانکہ اندرونِ سرورق بھی دو جگہ اس کی گنجائش موجود تھی لیکن موصوف نے اس موقعہ کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ کتاب میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے معاصر شاعری کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ پس سرورق پر پروفیسر ڈاکٹر عمرانہ مشتاق لکھتی ہیں کہ میں ماجد جہانگیر مرزا کو گلستانِ شاعری کا ایک ایسا مجموعۂ خوش رنگ قرار دیتی ہوں جس میں جدیدیت اپنے رومانوی رنگ کے ساتھ جلوہ گر ہے اور یہ شعر و ادب کے دبستانِ خاص و عام کو مہکائے رکھے گی۔ اس لحاظ سے میں اس مجموعہ پر ان کو ہدیۂ تبریک پیش کرتی ہوں۔
واضح رہے کہ یہ مذکورہ تحریر کی آخری سطور ہیں جبکہ پورا صفحہ ان کی تحسین و تعریف سے بھرا پڑا ہے۔ میں اپنی دوست اور نیازمند عمرانہ مشتاق کو اس لیے کچھ نہیں کہوں گا کہ میں بھی اس کتاب کا فلیپ لکھتا تو کم و بیش ایسا ہی لکھتا کیونکہ یہ تحریریں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ جس طرح میں عمرانہ مشتاق کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اسی طرح ماجد جہانگیر مرزا کا بھی بال بیکا نہیں کر سکتا‘ البتہ ان لوگوں کو ضرور پکڑنا چاہیے جن کی طرف سے شاعر کو ایسا رسپانس دیا گیا کہ وہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ماجد جہانگیر مرزا سے ہماری گزارش ہے کہ اس کتاب کے دوسرے یا تیسرے ایڈیشن کی ایک کاپی مجھے ضرور بھیجیں‘ کیا خبر اس وقت تک ہمیں عقل آ جائے اور ہم اس شاعری سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ایک مصنف نے اشتہار دیا کہ جو شخص میری اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کا ایک نسخہ خریدے گا اسے پہلے ایڈیشن کے دو نسخے مفت پیش کیے جائیں گے۔ اسی طرح ایک صاحب ایک ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر اس ناول کا کوئی ہیرو ہے تو اسے چاہیے کہ مصنف کو گولی مار دے۔
تفنن برطرف‘ ماجد جہانگیر مرزا کو ہمارا برادرانہ مشورہ ہے کہ اگر وہ شاعری میں نام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہم عصر شاعری کا تفصیلی مطالعہ کریں تاکہ وہ ایسی شاعری تخلیق کر سکیں جس سے کوئی فرق پڑتا ہو اور جسے مکھی پر مکھی مارکہ شاعری سے الگ کر کے دیکھا جا سکے۔ قاری بیزار اور روٹین کی شاعری بہت ہو چکی بلکہ اپنے انجام کو بھی پہنچ چکی ہے۔ یہ مسابقت کا زمانہ ہے یعنی ایک دوسرے سے کہنی مار کر آگے نکلنے کا۔ آپ کو اپنے ہم عصروں کا مقابلہ کرنا ہے؛ تاہم فی الحال آپ کی شاعری میں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اس دوڑ میں آگے نکل سکیں بلکہ اس میں شامل بھی ہو سکیں۔ موضوعات آپ کے پاس ضرور ہوں گے لیکن اصل بات پیرایۂ اظہار ہے کہ آپ نے انہیں اپنی شاعری میں بیان کس طرح کیا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ دوسروں سے مختلف کس قدر ہیں کیونکہ شاعری اتنا آسان کام نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ اپنی الگ پہچان قائم کرنا ہی اصل مسئلہ ہے۔ مجھے آپ کی شاعری میں اگر کوئی جان یا چنگاری نظر آتی تو میں ضرور اس کی تعریف کرتا کیونکہ جن کی شاعری کی میں تعریف کرتا ہوں وہ میرے رشتے دار ہرگز نہیں ہیں‘ نہ ہی آپ سے میری کوئی دشمنی ہے۔ بلکہ اگر میرے کسی کٹڑ مخالف نے بھی اچھا شعر کہا ہے تو میں نے اس کی تعریف ضرور کی ہے اور میں اس کی مثالیں پیش کر سکتا ہوں‘ اور اگر میرے کسی قریب ترین عزیز نے جھک ماری ہے تو میں نے اسے کبھی معاف نہیں کیا؛ چنانچہ میں نے کافی دشمن بنا رکھے ہیں لیکن میں حق بات کہتا رہوں گا یعنی وہ بات جسے میں حق سمجھتا ہوں‘ اور اگر میری سمجھ میں کوئی پھیر ہو تو الگ بات ہے۔ ان کے چند شعر دیکھیے:
میری جانِ غزل اب تو گھونگھٹ اٹھا
دیکھنے کا مزہ آج کی رات ہے
زنجیرِ زلف نے مجھے مدہوش کر دیا
اُترا ہے جب حجاب ذرا غور کیجیے
آتی نہیں ہے نیند مجھے یار کے بغیر
مت پوچھو کیا ہے رنگ مرا پیار کے بغیر
یہ سانس تیرے نام ہے تم جانتے ہو یہ
مت آزما تو پھر مجھے دیدار کے بغیر
فسوں تیری زلفوں کا جب سے ہوا ہے
محبت کی تب سے خطا کر رہا ہوں
کتاب رومیل پبلی کیشنز راولپنڈی نے چھاپی ہے اور قیمت 250روپے ہے۔
آج کا مطلع
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا