"ZIC" (space) message & send to 7575

ایم بی بی ایس۔۔۔۔!

قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ میں تفتیشی چھوڑ‘ ایک عام رپورٹر بھی کبھی نہیں رہا، اس لیے ملکی حالات کے حوالے سے میری معلومات محدود اور نامکمل ہی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً مجھے کرپشن کے بارے میں فیڈ بیک اِدھر اُدھر سے لینا ہوتا ہے؛ تاہم کرپشن سکینڈلز کی تعداد اس قدر زیادہ اور روزافزوں ہے کہ پوری فضا ہی متعفن ہو چکی ہے۔ پھر اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسے کسی سکینڈل کی تردید یا وضاحت بھی عام طور پر ناپید ہوتی ہے کہ موٹی کھال والے حاکموں پر اس کا دور دور تک کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اوپر سے جیسے پوری قوم نے بھنگ پی رکھی ہے؛ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ان کے بڑھتے ہوئے مسائل اور مصائب کی بڑی وجہ یہی کرپشن ہے۔ دفاتر سے لے کر چوٹی تک اسی کا بول بالا ہے اور کان پڑی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ داروگیر کا ایک طوفان ہے‘ جو ہر وقت زوروں پر رہتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کی اپنی بے پناہ مصروفیات سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن ایک وقت وہ تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان، اداکارہ عتیقہ اوڈھوکے قبضے سے مبینہ طور پر شراب کی بوتل برآمد ہونے پر سوموٹو ایکشن لیتے نظر آتے تھے، لیکن اربوں روپے کے لاتعداد سکینڈلز کے منظر عام پر آنے کے باوجود بھی یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ کسی ایک پر تھوڑی توجہ دی جائے
کہ اس عنصر نے ملک کے عوام کو بے یار ومددگار کر رکھا ہے اور جو لوگ اس چکی میں دن رات پِس رہے ہیں‘ کبھی اس کا بھی کوئی معمولی سا نوٹس ہی لے لیا جائے۔ حتیٰ کہ کرپشن کے جو بڑے بڑے کیسز زیر سماعت ہیں‘ ان میں پیش رفت بھی اس قدر سُست روی کا شکار ہے کہ پریشانی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی لاحق ہوتی ہے اور جن میں سے محض چند ایک ہی کے بارے میں اشارتاً عرض ہے کہ مشہور و معروف اصغر خان کیس کو جہاں قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا وہاں منی لانڈرنگ کا وہ کیس بھی قابلِ غور نہیں سمجھا گیا جس میں وزیر خزانہ اسحق ڈارکا بیان حلفی شامل ہے۔ پھر وہ مقدمہ بھی طاقِ نسیاں کی زینت لگتا ہے جس میں بینک ڈی فالٹر ہونے کے بعد ہمارے حکمرانوں نے اپنی جائداد برائے فروخت پیش کر کے اپنی جان چھڑوانے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ جائداد مطلوبہ رقم کی کفیل ہی نہ تھی۔ اوپر سے چند حصہ داروں نے اس پیشکش کے خلاف اپیل کر کے سارا مقدمہ ہی کھٹائی میں ڈال رکھا ہے اور ڈیفالٹ ہونا بھی کہیں بیچ میں غتر بود ہو کر رہ گیا ہے جبکہ بدانتظامی کے اس گھنائونے دور میں عوام کو اعلیٰ عدلیہ ہی ایک
نجات دہندہ نظر آتی ہے۔
یہ بات میڈیا میں آ چکی ہے کہ پچھلے دنوں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے خلاف سات ارب روپے کی کرپشن کے مبینہ کیس میں مدد کی درخواست کی جو بعض اطلاعات کے مطابق قبول کر لی گئی اور وہ فائل کسی سردخانے کی زینت بنا دی گئی، جس سے مشہورِ زمانہ بلکہ بدنامِ زمانہ مفاہمتی پالیسی کی سمجھ اچھی طرح سے آتی ہے کہ آپ میرے خلاف کچھ نہ کریں تاکہ ہمارا وقت آنے پر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئین میں ترمیم کر کے تیسری بار وزیراعظم ہونے کی شق ہی اس لیے منظور کرائی تھی کہ وزیراعظم میاں نوازشریف ہی نے ہونا تھا ، جن کے ساتھ مفاہمتی فارمولے پر پہلے ہی عملدرآمد ہو رہا تھا اور یہی فارمولہ آئندہ بھی جاری و ساری رہنا تھا۔
سب سے پہلے تو اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی کہ سابق وزیراعظم موصوف کو ان کے عہدِ زریں میں ایم بی بی ایس کیوں کہا جاتا تھا؟ نہ ہی کبھی انہوں نے خود اس سے انکارکیا اور نہ ہی وضاحت کی زحمت اٹھائی۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا زبانِ خلق نقارۂ خدا نہیں ہوتی؟ اس کے علاوہ اس دور کے جو سکینڈل ہیں‘ اور جو محض سکینڈل ہی نہیں ہیں ، مثلاً ہزاروں اسلحہ لائسنس کسی میرٹ کے بغیر جاری کیے گئے جن میں ممنوعہ بورکے لائسنس بھی شامل تھے اور لاتعداد بلیو پاسپورٹ زیادہ تر نااہل لوگوں کو جاری کیے گئے اور پھر ریلوے اور سٹیل مل وغیرہ میں پیسے لے کر بھرتیاں کی گئیں جن کی ان اداروں کو یکسر ضرورت ہی نہ تھی‘ اور اس طرح منافع دینے والے ان اداروں کو سفید ہاتھی میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا۔
حتیٰ کہ اب بھی ہر میگاپروجیکٹ کے ساتھ کوئی نہ کوئی مالیاتی یا اقربا پروری کا سکینڈل وابستہ ہے اور کہیں کوئی پتہ تک نہیں ہل رہا۔ علاوہ ازیں‘ میرے جیسے کروڑوں لوگوں کی آئندہ نسلوں کو قرض لے لے کر لاکھوں روپے کا مقروض بنا دیا گیا ہے جو یہ طوقِ لعنت گلے میں ڈال کر ہی پیدا ہوں گے۔ پولیس سمیت بیوروکریسی کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے اور دور دور تک کوئی پوچھنے والا نظر نہیں آتا۔ کیا یہ امید کی جائے کہ کسی نہ کسی سطح پر ان حرام کاریوںکا نوٹس لیا جا رہا ہے؟ کیا کوئی سمجھتا ہے کہ یہ بھی کوئی کام ہے اور اسے بالآخر کسی نے سرانجام دینا ہے، ورنہ ملک تو پہلے ہی ایک ناکام ریاست ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آخر اورکس چیز کا انتظارکیا جا رہا ہے؟
فاروق ستار کی یہ بات دلچسپ ہے جو انہوں نے پچھلے دنوں وزیراعظم نوازشریف کو مخاطب کر کے کہی تھی کہ کہیں ایسا تو نہیں ہونے والا کہ ہم اکٹھے اڈیالہ جیل میں ہوں؟ کوئی بات نہیں‘ وزیراعظم پہلے بھی اس جیل کے مہمان رہ چکے ہیں کیونکہ کسی آرمی چیف کو برخاست کرنے کے اپنے نتائج ہوتے ہیں جنہیں وہ بھگت بھی چکے ہیں۔ پریڈ کے دوران صدر اور وزیراعظم کا دائیں بائیں اور آرمی چیف کا درمیان میں کھڑا ہونے کی ایک اپنی اہمیت ہے اور یہ گند صاف بھی آرمی چیف کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ع
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
آج کا مقطع
اس کا بھی حساب آخر ہونا ہے ظفرؔ اک دن
مستور ہوں میں کتنا‘ کتنا نظر آتا ہوں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں